”السلام علیکم بڑی بی بی کیسی ہیں آپ؟“ سکینہ نے بڑی بی بی کو سلام کیا۔
وعلیکم السلام ”ارے سکینہ آﺅ بڑے دن کے بعد آئیں۔“ تسبیح کے دانوں پر بسم اللہ گن گن کرپڑھتی ہوئی بڑی بی بی نے سکینہ کو جواب دیا۔
”جی بس مراد پڑھ کر واپس آگیا ہے تو مصروفیت بہت بڑھ گئی ہے۔“
”ماشاءاللہ مراد تو بہت ہونہار بچہ نکلا۔ سب جگہ اس کی تعریفیں ہو رہی ہیں اللہ نظرِ بد سے بچائے بلکہ میں تو کہتی ہوں اب جلد از جلد اس کی شادی کر دو سکینہ۔“
”جی بس اُسی لیے حاضر ہوئی ہوں۔“
”کیا مطلب؟“ انہوں نے تیکھے سے انداز میں سکینہ کو دیکھا۔
”جی میرا مطلب ہے آپ اور میاں صاحب ہی ڈھونڈیں میرے مراد کے لیے کوئی لڑکی۔“ ان کی ہمت ہی نہ پڑی کچھ اور کہنے کی۔ وہ ان کے پاس ہی تخت پر بیٹھ گئیں اور پاﺅں دبانے لگیں۔
”ہاں ہاں کیوں نہیں اتنے ہونہار اور خوبصورت داماد کی تو سب تمنا کرتے ہیں۔“
”مگر یہ بتاﺅ تمہیں کیسی بہو چاہیے خوب صورت یا خوب سیرت۔“
”بڑی بی بی مُراد کو تو آپ نے دیکھا ہوا ہے۔ خوب صورت بھی ہے اور خوب سیرت بھی اگر اس جیسی ہی لڑکی مل جائے تو….“ وہ دل کی بات زبان پر لانے کی کوشش کے باوجود ہمت نہ کر پا رہی تھیں لیکن بیٹے کی خوشی پر ہر طرح کا رسک لینے کو تیار تھیں۔
اسی وقت بالے کے ساتھ تاجور اندر داخل ہوئی۔ وہ قدرے بوکھلائی ہوئی تھی۔
”السلام علیکم خالہ“ اس نے چادر اتار کر تہ لگائی۔ خالہ نے خالی سلام کا جواب دینے کے بہ جائے اُٹھ کر اس کے ماتھے پر پیار بھی کیا۔ ساتھ ہی پرس سے پانچ سو کا نوٹ نکالا اور اس کے سر سے لگایا اور بالے کے ہاتھ پر رکھ دیا۔ وہ تو حیرت اور خوشی کے جذبات لیے حجرے کی جانب بھاگ گیا۔ لیکن تاجور بہت عجیب سی کیفیت میں تھی۔ اس بار تو بڑی بی بی بھی ٹھٹھک گئیں۔
”ماشاءاللہ ہماری بیٹی کتنی خوب صورت ہو گئی ہے اللہ نظرِ بد سے بچائے۔ کب کر رہی ہیں اس کی شادی؟“
”ایسے ویسے تو بہت سے رشتے آتے ہیں لیکن شادی اپنی حیثیت اور حسب نسب دیکھ کر کی جاتی ہے سکینہ۔“ انہوں نے درِپردہ کچھ سمجھانا چاہا۔ ” تُو تو جانتی ہے میاں صاحب کتنے آن بان والے ہیں اور پھر جان جائے آن نہ جائے والی مثال ہے اُن کی۔ اپنی برادری سے کوئی جوڑ کا رشتہ آئے گا تو کریں گے۔“ اُن کے لہجے میں بڑا فخر تھا۔
سکینہ کی کچھ ہمت ہی نہ پڑی اور وہ خاموش ہوگئیں۔
”جا تاجور تو اندر جا کپڑے بدل اور آرام کر۔“ اماں نے اُسے وہاں سے ٹالنا چاہا۔
تاجور کو بار بار سکینہ کی نثار ہوتی نظروں کا شکار دیکھ کر انہوں نے تاجور کو وہاں سے اندر بھیجا۔
جی اماں تو وہ خاموشی سے وہاں سے اُٹھ آئی۔ سکینہ نے ہمت کے باوجود ان کے سرد رویئے کو دیکھتے ہوئے بات کرنا بالکل مناسب نہ سمجھی اور دستِ سوال دراز کئے بغیر چلی آئی۔
٭….٭….٭