نامراد

خود وہ واپسی پر سارا راستہ صرف یہی بات سوچتی رہی کہ واقعی رب کی ماننے میں کیا قباحت ہے جب کہ اُس کی پوری اجازت ہے اپنی پسند کے لیے تو پھر!! یہ تو پھر…….. بہت سارے سوالوں کے ساتھ ایک سوال تھا اور سب سوالوں پر حاوی بھی…. مگر اُن سب پر حاوی مُراد کی نظریں جو ہر وقت اس کے وجود کا احاطہ کئے ہوئے تھیں۔
ابھی وہ ان سوچوں میں غلطاں تھی کہ مراد کا میسج آیا اس نے delete کا بٹن پریس کرنا چاہا مگر نہ کر سکی اور نہ چاہتے ہوئے بھی Inbox کھول کر میسج پڑھا۔
”میں نے جو کہا تھا کر دکھایا۔ اس وقت اماں جی تمہارے گھر رشتہ مانگنے گئی ہیں اور مجھے اپنے رب سے پوری اُمید ہے کہ انکار نہ ہو گا۔“
ایس ایم ایس پڑھ کر اس کی آنکھیں پھٹ گئیں۔
”اوہ میرے خدا! بالے گاڑی تیزی سے چلاﺅ۔“
”اللہ خیر باجی کیا ہوا ؟“ بالا بھی گھبرا گیا۔
”کچھ نہیں بس جلدی کرو ہمیں گھر پہنچنا ہے۔“
”جی باجی بس پندرہ منٹ میں ہم گھر پر ہوں گے ویسے خیر تو ہے؟“ وہ بھی پریشان ہوا تھا۔
٭….٭….٭

Loading

Read Previous

ورثہ

Read Next

پتھر کے صنم

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!