بہت غلطی ہوئی تاجور سے مراد کی آواز نے محبت کے تابوت میں آخری کیل بھی گاڑ دی جو اب ساری عمر نکلنی مشکل تھی۔ کس دل سے اس نے فون میز پر رکھا اور بیڈ پر بیٹھ کر ہانپنے لگی۔ اس کی آواز اب بھی تاجور کے اردگرد ہیولے کی طرح چکرا رہی تھی۔ ساحر کون ہوتا ہے؟ سحر کیسے کیا جاتا ہے؟ کوئی کسی کا بے دام غلام کیسے بن جاتا ہے؟ وہ اس شہرِ طلسمات میں جکڑی جا چکی تھی۔ شہزادی کو عشق کے شہرِ طلسمات میں جانے سے اسی لیے منع کیا گیا تھا کیوں کہ عشق وہ نامراد شے ہے جو کبھی بامراد نہیں کرتا پیاسا چھوڑ جاتا ہے۔
”سوری مراد میں چاہوں بھی تو آپ کو بامراد نہیں کر سکتی۔ اپنے ماں باپ سے بے وفائی کا بیج ہماری مٹی میں بویا ہی نہیں جاتا میں کیسے آپ کو وہ آس دوں جس آس کی ڈوری خود میرے اپنے بس میں نہیں۔ چاہ کر بھی میاں جی اور اماں سے بغاوت نہیں کر سکتی۔ لیکن ہاں ایک اعتراف آج خود سے کر رہی ہوں آپ میری زندگی میں آنے والے وہ پہلے شخص ہیں جس نے مجھے میرے اپنے پن کا احساس دیا۔ میں اعتراف کرتی ہوں کل میں صرف آپ کے لیے سجی تھی صرف آپ کے لیے۔ آپ کی ایک نظر نے مجھے بامراد کر دیا۔ عورت محبت صرف اس سے کرتی ہے جس کی آنکھیں اس کے اپنے عکس سے جگمگائیں۔ آپ کی آنکھوں میں پہلی بار اپنی ذات کا سچا عکس نظر آیا۔ اپنے سراہے جانے کا ایک سچا احساس ہی تھا جو مجھے غرور دے گیا سراہے جانے کا غرور۔ میں ساری عمر اس احساس کے ساتھ گزار سکتی ہوں لیکن اپنے ماں باپ سے بے وفائی نہیں کر سکتی۔ اس سوچ کے ساتھ آنسو بھل بھل رخساروں پر بہ رہے تھے۔ نہ جانے روتے روتے کب آنکھ لگی نیند نے اُسے اپنی مہربان آغوش میں لے لیا۔
آنکھ کھلی تو موبائل پر msg ٹون سُن کر اس نے ہاتھ بڑھا کر فون اٹھایا۔ مراد کے بیس پچیس msgs تھے، جو اس نے پڑھے بغیر ڈیلیٹ کر دیئے۔ اسے محسوس ہوا بہت بڑی غلطی ہوئی۔ اُسے مراد کو فون نہیں کرنا چاہیے تھا لیکن شاید ایک طرح سے ٹھیک بھی ہو گیا کہ میں نے اس کی ساری امیدیں ختم کر دیں۔ لیکن اسے نہیں معلوم تھا کہ ایسا کرنے کے بعد اُس نے مُراد کی اُمیدیں بڑھائی ہیں ختم نہیں کیں۔
وہ قدرے بے دلی سے اُٹھی اور واش روم میں گھُس گئی۔ آج اسے یونیورسٹی بھی جانا تھا اپنے ٹیچر مکرم احمد علی سے ملنے۔ وہ جلدی جلدی ناشتے کے بعد تیار ہوئی اور بالے کے ساتھ نکل آئی۔
بالا ڈرائیور کے فرائض بھی انجام دیتا تھا۔ وہ بالے کو گاڑی میں چھوڑ کر ڈیپارٹمنٹ کی طرف آگئی۔ مکرم احمد علی اپنے روم میں ہی تھے وہ اندر داخل ہوئی۔ سلام کیا مصروف سے مکرم احمد علی نے چشمے کی اوٹ سے دیکھا۔ ”ارے آﺅ آﺅ لڑکی میں بھی سوچ رہا تھا تم نے اب تک چکر کیوں نہیں لگایا۔ کارڈ ساتھ لائی ہو نا؟“
”کارڈ“ اس نے حیرانی سے پوچھا۔
”ہاں بھئی اپنی شادی کا کارڈ یہ دیکھو تمہاری چار کلاس فیلوز کے کارڈ اب تک آچکے ہیں۔“ انہوں نے ٹیبل پر پڑے کچھ کارڈز کی جانب اشارہ کیا۔
”ارے نہیں سر ابھی ایسی کوئی بات نہیں اور شاید ہو بھی نا۔“ اس نے ایک اداسی کے ساتھ جواب دیا۔
”ارے کیوں نہ ہو گی ان شا ¿اللہ ضرور ہو گی تم مایوس کیوں ہو؟“ انہوں نے اسے کرسی کی جانب بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ وہ ان کی لائق فائق سٹوڈنٹ تھی اور سرمکرم سے کافی قریب بھی تھی۔
”مایوسی کی تو کوئی بات نہیں سر سب کو پتا ہے میاں جی شادی کے لیے اپنی برادری سے ہی کسی کو چُنیں گے تو کوئی رشتہ آتا ہی نہیں۔“ اُس نے بے پروائی سے کندھے اُچکائے۔
”کیا بات کر رہی ہولڑکی آج کون ایسی باتوں کو اہمیت دیتا ہے۔ ذات پات، رنگ نسل کو تو چار سو سال پہلے ہی ختم کر دیا گیا تھا۔“
”ہمارے گھر دی جاتی ہے سر میرے والد نے میری پھوپھو کی شادی نہ کی کیوں کہ ان کو کوئی اپنی ذات سے بیاہنے نہیں آیا۔ پینتالیس سال کی عمر میں ایک رات ایسی سوئیں کہ دوبارہ نہ اُٹھ سکیں۔“
”استغفراللہ یہ تو سخت گناہ ہے۔ ہم کس زمانے میں زندہ ہیں؟۔“ انہیں شدید دھچکا سا لگا۔
”نبی پاک نے تو ایسی پابندیوں پر سخت اعتراض کیا ہے کہ جب تمہاری اولادیں جوان ہو جائیں تو انہیں گناہ کے راستے پر مت چلنے دو نکاح جیسے حلال رشتے سے باندھ دو اور یہاں اب تک ہندوانہ رسوم کو لے کر اولاد کو پابند کیا جا رہا ہے۔ لاحول ولا قوة۔“
”سر کیا اولاد کا اپنے ماں باپ کے ایسے حکم ماننا جائز ہے جس کا حکم اللہ نے نہ دیا ہو۔“
”قطعاً نہیں یہ تو سخت گناہ ہے کھلی رب کی نافرمانی ہے ایسی اولاد بھی ظلم سہنے والوں میں سے ہو گی۔“
”لیکن سر کوئی اولاد اپنے ماں باپ کی نافرمانی کیسے کر سکتی ہے؟“
”دیکھو بیٹا! رب کا حکم زیادہ اہم ہے یا ماں باپ کا؟“ انہوں نے آنکھوں سے چشمہ اتار کر ٹیبل پر رکھا۔
”سر ہمارے معاشرے میں بیٹیاں بڑی ہوتی ہیں تو اُن کو پہلا سبق یہی پڑھایا جاتا ہے کہ مرد تمہارا حکمران ہے نہ باپ کے آگے بولنا، نہ شوہر کے آگے اور جب اُن کے بیٹے بڑے ہوتے ہیں تو وہ بھی ان پر حُکم چلاتے ہیں۔“
”بیٹا دراصل عورت نے ہی عورت کو بے مول کیا ہوا ہے۔ ہماری ماں ہماری بیٹیوں کو کم زور بنا رہی ہے حتیٰ کہ رب کے بنائے ہوئے سچے احکام پر بھی اپنے شوہر کی وجہ سے بیٹی کو خاموش رہنا سکھاتی ہے۔ ظلم برداشت کرنا کمال نہیں ظلم پر جائز آواز اُٹھانا کمال ہے۔“
انہوں نے عینک کو اپنے ماتھے پر ٹِکایا اور بڑے غور سے اُس کے اُداس چہرے کو دیکھا۔
”یہ بتاﺅ کیا ان دنوں کوئی رشتہ آیا ہوا ہے تمہارے لیے؟“ وہ ایک اچھے دوست کی طرح اُس کی من کی گرہیں کھول رہے تھے۔ استاد ہونے کے باوجود چار سالوں سے وہ اس کے لیے ایک شفیق باپ کی مانند تھے۔ وہ ہمیشہ سوچتی کہ کتنے خوش قسمت ہوں گے اُن کے بچے کتنا دوستانہ انداز تھا اُن کا۔ ہر شاگرد اُن سے کھل کر بات کر لیتا تھا یوں محسوس ہوتا کہ اپنے بڑے سے بات کر رہے ہوں۔
”ایسی کوئی بات نہیں سر بس لوگوں کو معلوم ہوتا ہے کہ میاں جی کی طرف سے ایسی بندش ہے تو کوئی آتا ہی نہیں۔“ ”لیکن بیٹا جب رب نے ایسی پابندی نہیں لگائی تو ہم کون ہوتے ہیں ایسی بندش باندھنے والے۔ کوئی اچھا اور شریف رشتہ آئے تو تمہارے میاں جی کو ہاں کر دینی چاہیے۔ بلکہ میں تمہیں کہہ رہا ہوں اگر کبھی کوئی ایسی بات ہو تو مجھے ضرور بتانا میں خود تمہارے میاں صاحب کو سمجھاﺅں گا۔“
”ارے نہیں نہیں سر میں میاں صاحب کو جانتی ہوں وہ اپنی روایات کے کتنے پابند ہیں کبھی ایک انچ نہیں ہلیں گے آپ اپنا وقت ضائع مت کریں۔“ اس نے گھبرا کر کہا کہ کہیں وہ واقعی میاں جی سے بات نہ کر بیٹھیں۔
”یہ روایات نہیں ظلم ہے بیٹا جب کہ ہمارے نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی لڑکی سے ایک بار اس کی پسند پوچھنے کی اجازت دی ہے۔ اس موقع پر ایک دوسرے سے ملنے کا حکم دیا تو ہم یہ پابندیاں کیوں لگائیں۔ بیٹی کوئی گائے بھینس تو نہیں کہ جدھر چاہے ہانک دو اور بعد میں ساری عمر روتے رہو۔“
”خیر سر میں تو اللہ کے حکم پہ راضی بہ رضا ہوں اس نے کچھ سوچا ہی ہو گا میرے لیے۔“ اس نے بہت آرام سے جواب دیا یا شاید اس جواب سے اُس نے سر کو مطمئن کرنے کی کوشش کی۔
٭….٭….٭