کمرے میں ایک دربار لگا تھا۔ ابرار صاحب بہت خفا تھے، اس کی انوکھی خواہش پر۔ ”اماں آپ ایک بار میاں جی کے گھر جائیں تو صحیح۔“ وہ گڑگڑا رہا تھا۔
”مراد تم ہوش میں تو ہو وہ ایک بڑی ذات سے تعلق رکھتے ہیں اور ہمارے پیرومرشد بھی تم ایسا سوچ بھی کیسے سکتے ہو؟“ ان کا غصّہ اپنے عروج پہ تھا۔
”بابا کس زمانے کی بات کرتے ہیں آپ یہ رشتے ناطے حسب نسب چار سو سال سال پہلے ہی ختم کر دیئے گئے تھے۔ آپ اب بھی انہی باتوں پر یقین رکھتے ہیں۔“وہ حیران تھا۔
”مراد میں اسی زمانے میں رہتا ہوں اور یہاں ہی رہنا ہے مجھے۔“ انہوں نے سختی سے کہا۔
”چھوڑیں بابا بس کریں۔ ٹوٹے پھوٹے بوسیدہ دیمک زدہ معاشرے کی بات مت کریں یہاں سب اپنے مطلب کی بات پر ایمان لاتے ہیں۔“اس نے ہاتھ سے گویا مکھی اڑائی۔
”مگر ہم اسی معاشرے میں رہتے ہیں مراد۔ پھر تمہاری اماں اور میں میاں صاحب کے مریدین میں سے ہیں اُن کے آگے کیسے سوال دستِ دراز کریں؟ جانتے ہو ہم اُن سے کم تر ہیں۔ ایک بڑی ذات کی شریف زادی کا مان ہی بہت ہوتا ہے کیسے پورا کرو گے؟ مرد ہو اپنی انا میں کبھی اس کی بے عزتی کردی تو خود ذلیل ہو جاﺅ گے دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔ عاقبت الگ خراب ہو گی۔“
”پتا نہیں بابا آپ کیسی باتیں کر رہے ہیں؟ میں آج کی نسل سے ہوں جس کی نظر میں سب انسان برابر ہیں کوئی ذات کا چھوٹا یا بڑا نہیں سب کو اللہ نے برابر بنایا۔“
”نہیں بس کہہ دیا ان کی بیٹی کا ہاتھ مانگنے میں تو قطعاً میاں جی کے پاس نہیں جاﺅں گا۔“ وہ اس پر ایک قہر آلود نظر ڈال کر باہر نکل گئے۔
”کیوں اماں آپ بھی نہیں جائیں گی؟“ اس نے ابا کی طرف سے ناامید ہوکر بڑی پُرامید نظروں سے اماں کو دیکھا۔ تو انہوں نے بھی بیٹے سے نظریں چُرا لیں کیوں کہ بیٹے کے آگے شوہر سے بغاوت کا تصور ہی نہ تھا ان کے پاس۔
”اماں میں نے آخری بار کہہ دیا شادی کروں گا تو صرف تاجور سے ورنہ ساری عمر بیٹھی رہیے گا میرے سر پر سہرے کا ارمان لے کر۔“
”اللہ نہ کرے میرے بچے کہ کبھی ایسا ہو تو سمجھتا کیوں نہیں ایسا ممکن نہیں وہ اپنی ہی ذات برادری میں بیٹی دیں گے ورنہ ساری عمر اُس کی شادی ہی نہیں کریں گے۔“
”بیٹی کی بات نہیں اپنی بہن کے لیے بھی ان کے فیصلے میں قطعاً لچک نہ آئی تھی اور وہ بالوں میں سفیدی لے کر دنیا سے چلی گئی۔“
”کتنا ظلم ہے اماں؟ کتنا ظلم؟…. کون دے گا ایسے ظلم کا حساب۔ بیٹیوں کو جانوروں کی طرح کھونٹے سے باندھتے ہیں یہاں کوئی حق کی بات کیوں نہیں کرتا۔“
”بس خاموش ہو جا اور مت کچھ کہہ….“ انہوں نے اس کے منہ پر ہاتھ رکھا اس نے مزید کچھ کہنا مناسب نہ سمجھا اور باہر نکل آیا۔
٭….٭….٭