مجرم — ماہتاب خان

’’پرائیویٹ ونگ روم نمبر پانچ میں۔‘‘
’’میری امی بھی ایڈمٹ ہیں۔ میں کسی وقت آؤں گا آپ کی پھوپھی کو دیکھنے۔ اس نے کہا۔ میراں نے سر اٹھا کر اس خوبرو نوجوان کو دیکھا پھر سر جھکائے آگے بڑھ گئی۔ وہ دور تک اس حسین میراں کو دیکھتا رہا۔
مجھے کچھ اہم معاملے نمٹانے تھے۔ اسی لیے بہن کے پاس میراں اور دو ملازم کو چھوڑ کر گاوؑں چلا گیا۔ حویلی میں بیٹے اور بہوویں خوش گپیوں میں مشغول تھے جب میں وہاں پہنچا۔
’’تم لوگ اپنی پھوپھی کے پاس شہر چلے جاوؑ وہاں میراں اکیلی ہے۔‘‘
’’اکیلی کہاں ہے بابا ملازم ہیں ان کے ساتھ۔ پھر ان کا علاج بھی طویل ہے ہم سب کام دھندے چھوڑ کر وہاں کیسے رہ سکتے ہیں؟‘‘
’’تمہاری بیویاں تو جا سکتی ہیں؟‘‘
’’بابا یہاں حویلی اور ڈیرے کا انتظام کون سنبھالے گا؟‘‘ بڑی بہو نے کہا تھا۔
’’اور چھوٹے چھوٹے بچوں کو چھوڑ کر ہم کیسے جائیں؟‘‘چھوٹی بہو نے کہا۔
’’انہیں ساتھ لے کر تو نہیں جا سکتے۔‘‘
’’ہاں بھئی سب کو اپنے بچے پیارے ہوتے ہیں۔‘‘ انہوں نے اپنی مجبوریاں بتا دی تھیں۔ میں دکھی دل سے اٹھ گیا۔ شادو کو اسپتال میں ایڈمٹ ہوئے دو ہفتے ہو گئے تھے۔ شیراز اور اس کی ماں نے ان دونوں کا بڑا خیال رکھا اور بہت کام آئے تھے۔ میں نے بھی اطمینان کا سانس لیا تھا۔ میراں پھوپھی کے پاوؑں دبانے لگی۔
’’سدا خوش رہو، اللہ نصیب سوہنے کرے۔ پھوپھی نے اسے دعا دی تھی۔ اسی وقت دروازے پر دستک ہوئی۔ میراں نے جا کر دروازہ کھولا تو سامنے شیراز اور اس کی ماں کھڑے تھے۔ وہ دونوں آگئے۔
’’کیسی طبیعت ہے اب آپ کی ؟‘‘شیراز کی ماں نے شا دو سے پوچھا۔
’’شکر ہے اللہ کا کافی بہتر ہے۔‘‘ میراں اور شیراز کچھ فاصلے پر بیٹھے اِدھر اُدھر کی باتیں کر رہے تھے جبکہ دونوں خواتین نہ جانے کیا کھسر پھسر کر رہی تھیں۔ شیراز کی ماں نے میراں کے لیے اپنی پسندیدگی ظاہر کی تو یہ سن کر شادو سوچ میں پڑ گئی۔ اس نے فی الحال یہ کہہ کر ٹا ل دیا کہ وہ بھائی سے بات کرے گی۔ شیراز معزز گھرانے کا چشم و چراغ اور کھاتے پیتے کاروباری لوگ تھے مگر ہماری ٹکر کے نہیں تھے۔
شادو صحت مند ہو کر حویلی آ گئی اور میرے کان میں اس رشتے کی بات ڈال دی۔ کچھ عرصہ گزرا تھا جب شیراز کی ماں حویلی آئی۔ شادو اور میں نے ان کا استقبال بڑی گرمجوشی سے کیا۔
’’آپ کے بیٹے نے جو خدمت میری بہن کی کی ہے وہ میں نہیں بھول سکتا۔‘‘
’’یہ آپ کیسی باتیں کر رہے ہیں؟ اس نے تو صرف اپنا فرض ادا کیا ہے۔ ہم اس تعلق کو رشتے میں بدلنے کے لیے آپ کے در پر آئے ہیں۔ میرا مطلب ہے شیراز کو اپنا بیٹا بنا لیں۔‘‘ انہوں نے اپنا مدعا بیان کیا، تو چودھری غفور نے سنبھل کر کہا ۔
’’میں اپنے بیٹوں سے مشورہ کروں گا۔ اگر وہ راضی ہوئے تو مجھے اس رشتے پر کوئی اعترض نہیں ہے۔‘‘
’’شیراز بڑا نیک بچا ہے۔‘‘ شا دو نے انہیں چائے پیش کرتے ہوئے کہا۔ پھر کچھ دیر اِدھر اُدھر کی باتیں کر کے وہ کہنے لگیں۔
’’ہم آپ کی ہاں کا انتظار کریں گے۔ اب اجازت دیجیے۔‘‘ یہ کہہ کر وہ اٹھ گئیں۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

’’نا بابا جان نا… وہ لوگ ہماری ذات کے ہیں اور نہ ہمارے جوڑ کے۔ ہم اپنی بہن کی شادی اس سے نہیں ہونے دیںگے۔ ہم تو کتا بھی نسل دیکھ کر خریدتے ہیں اور مجھے تو یہ لالچی معلوم ہوتے ہیں۔‘‘ اس نے اپنے بیٹوں سے مشورہ کیا ، تو چودھری افضل نے جواب دیا تھا۔
’’شیراز بہت شریف اور نیک لڑکا ہے اور وہ گھرانہ اتنا گیا گزرا بھی نہیں۔ انہیں دولت کا کوئی لالچ نہیں ہے۔‘‘میں نے افضل اور انور سے کہا۔
’’بابا جان آپ بہت سادہ ہیں۔ یہ دیکھیں کہ چند دنوں میں وہ اتنا متاثر ہوئے کہ رشتے کے لیے گھر پہنچ گئے۔ ان کی نظر ہماری زمینوں پر ہے۔‘‘
’’او بد نصیبوں! اتنی بڑی جائیداد میں سے کچھ تمہاری بہن لے جائے گی، تو کیا قیا مت آجائے گی۔؟‘‘ میں نے دکھی لہجے میں کہا۔
’’بابا جان اگر جائیداد اسی طرح تقسیم کرتے رہے، تو تیسری پیڑھی تک ایک کنال بھی نہیں بچے گی۔‘‘ چھوٹا بیٹا بولا تھا۔
’’کیوں لڑ رہے ہو تم لوگ؟‘‘ پھوپھی شادو کمرے میں داخل ہوتے ہوئے بولیں۔
’’کس بات کا جھگڑا ہے؟‘‘
’’زمین اور جائیداد ہی ان کے لیے سب کچھ ہے بہن سے انہیں کوئی محبت نہیں۔‘‘ میں نے غصے سے کہا۔
’’آپ فکر نہ کریں بھائی مجھے معلوم ہے وہ لوگ لالچی نہیں ہیں اور نہ ہی میراں کو زمین کا کوئی ایسا ٹکڑا چاہیے جس پر نفرت کی فصل اُگتی ہو۔ میں تم لوگوں کو ایک مشورہ دینا چاہتی ہوں جائیداد کو مسئلہ نہ بناوؑ بس اس شادی پر سب راضی ہو جا ۔میراں کی شادی نہ روکو۔‘‘
’’پھر تو جھگڑا ہی مک گیا پھوپھی ۔‘‘ افضل خوش ہوتے ہوئے بولا شادی کی تیاری کریں بابا۔‘‘
میراں بہت خوش تھی۔ شادی کے بعد ایک سال تو بہت ہنسی خوشی گزرا۔ وہ ایک بیٹے کی ماں بن گئی۔ پھر نہ جانے کیا ہوا کہ شیراز کو کاروبار میں زبردست خسارہ ہو گیا۔ اسے سنبھالا دینے کے لیے سرمائے کی ضرورت تھی جو اس کے پاس نہیں تھا۔ وہ ان دنوں بہت پریشان تھا۔
’’کاروبار ختم ہو گیا تو ہم تباہ ہو جائیں گے۔ تم کہیں سے رقم کا انتظام کرو۔‘‘ شیراز کی ماں نے کہا۔
’’کہاں سے انتظام کروں میرے پاس کوئی الہ دین کا چراغ ہے؟‘‘ شیراز نے جھنجھلا کر کہا تھا۔
’’اپنی عقل استعمال کرو۔ اگر بہو چاہے تو یہ مسئلہ منٹوں میں حل ہو سکتا ہے۔‘‘
’’وہ کیسے؟‘‘ میراں اور شیراز بیک وقت بولے تھے۔
’’وہ ایسے کے بہو اپنے باپ اور بھائیوں کے پاس جا کر زمینوں میں سے اپنا حصہ لے آئے۔ اس کی قیمت اتنی تو ہو گی کہ تم اپنے کاروبار کو سنبھالا دے سکو گے۔‘‘
’’ہاں بھائی جان یہ ہو سکتا ہے۔‘‘ شیراز کی بہن نے کہا تھا۔
’’نہیں …یہ میں نہیں کر سکتی۔‘‘ میراں نے کہا۔
’’کیوں نہیں کر سکتیں بھابھی۔‘‘ نند نے تیزی سے کہا۔
’’آپ کے حصے کی جائیداد آپ کے بھائیوں کے قبضے میں ہے اور آپ آرام سے بیٹھی ہیں۔ یہ موقع ایسا ہے کہ آپ کو اپنے شوہر اور بیٹے کے بارے میں سوچنا چاہیے۔‘‘
’’میں آپ لوگوں کو کیا بتاوؑں۔‘‘ میراں نے بے چارگی سے کہا تھا۔
’’ہاں ہاں بتا نہ کیا مجبوری ہے۔‘‘ اس کی ساس نے کہا۔
’’شادی کے موقع پر بھائیوں نے یہ بتا دیا تھا کہ وہ میرا حصہ مجھے نہیں دیں گے۔ اسی شرط پر وہ راضی ہوئے تھے۔‘‘
’’ان کے کہنے سے کیا ہوتا ہے؟ وہ تمہیں تمہارے حق سے محروم نہیں کر سکتے۔ دیکھو میراں انسان کو اپنا حق کسی قیمت پر نہیں چھوڑنا چاہیے۔ تم ابھی وہاں جاوؑ اور اپنے حصے کا مطالبہ کرو۔ یہ میرا حکم ہے۔‘‘ اس کے محبوب شوہر کی نظریں بدلی ہوئی تھیں۔ وہ حیرت سے اسے تک رہی تھی۔ وہ جا نتی تھی کہ بھائی اس کی بات کبھی نہیں مانیں گے۔ بہرحال وہ حویلی آ گئی اور جب اس نے اپنے سسرال والوں کا مطالبہ مجھ سے بیان کیا ،تو میں اپنے بیٹوں کے پاس آیا۔
’’یہ کیا کہہ رہے ہیں وہ لوگ؟ ایسا سبق دوں گا کہ ساری زندگی یاد رکھیں گے۔‘‘ چودھری افضل یہ سب سنتے ہی ہتھے سے اکھڑ گیا۔
’’ہم نے انہیں اپنی بیٹی دی ہے اور بیٹی کا سر اس کے سسرال کے سامنے جھکنا نہیں چاہیے۔‘‘ میں نے بیٹے کو سمجھانے کی کوشش کی۔
’’ہم اپنا سر ان کے سامنے نہیں جھکائیں گے اور اپنی زمین کا ایک ٹکڑا بھی نہیں دیں گے۔ میں نے پہلے ہی کہا تھا کہ یہ لالچی لوگ ہیں۔‘‘
’’افضل جائیداد کی خاطر اپنی بہن کا گھر مت اجاڑوتھوڑی سی زمین اس کے حصے کی چلی جائے گی تو کوئی قیامت نہیں آئے گی۔‘‘ میں غصے سے بولا تھا۔
’’میرا منہ نہ کھلوانا بابا۔ آپ نے بھی تو اپنی بہن کے ساتھ انصاف نہیں کیا۔ بے چاری آج تک کنواری بیٹھی ہے۔ اس کے حصے کی جائیداد آپ ہڑپ کر چکے۔ کبھی آپ کا دل تو نہیں پسیجا اس کے لیے۔‘‘میں یہ سنتے ہی غصے سے کانپنے لگا۔
’’میں تم سب کو عاق کر دوں گا اوراپنی بیٹی کا حق اسے ضرور دوں گا۔‘‘ میں نے چلاتے ہوئے کہا۔
’’کسی بھول میں نہ رہنا بابا ،ا گر آپ نے ایسا کیا ،تو ہم عدالت میں جائیں گے۔‘‘
’’بھائی ٹھیک کہہ رہے ہیں بابا جان۔‘‘ انور نے کہا۔
’’چل نکے۔‘‘افضل نے کہا اور وہاں سے چلا گیا۔ میں جہاں کا تہاں کھڑا رہ گیا۔
’’نہیں، نہیں میں اتنی آسانی سے ہار نہیں مانوں گا۔‘‘ وہ بڑبڑایا تھا۔
’’ہار تو ہو چکی بھائی۔‘‘ شادو نہ جانے کب وہاں آئی تھی۔
’’آپ کے ما ننے یا نہ ماننے سے کیا ہوگا۔‘‘
’’نہیں نہیں ایسا نہیں ہو سکتا۔‘‘
’’وقت بڑا ظالم ہوتا ہے بھائی! سب کو سبق پڑھاتا ہے۔کسی کا سر بلند نہیں رہنے دیتا۔‘‘
’’میں اتنا کمزور نہیں ہوا کے میرے بیٹے میرے مدمقابلکھڑے ہو جائیں۔‘‘
’’کمزور… کمزور تو میں تھی بھائی۔ ہمارے والد تھے ، ہمیں سب پتا تھا۔‘‘
’’کک …کیا پتا تھا؟‘‘
میں اچنبھے سے بولا۔
’’یہی کے دلاور کے غائب ہونے میں کس کا ہاتھ تھا۔‘‘
میرا اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا نیچے رہ گیا۔
’’کیا تمہیں مجھ پر شک تھا؟‘‘
’’مجھے تو کیا بابا کو بھی شک نہیں پورا یقین تھا، مگر نہ وہ اپنا بیٹا کھونا چاہتے تھے اور نہ میں اپنا بھائی… ہم تو خاموش رہے، مگر اللہ تو ظالم کو نہیں چھوڑتا نا ۔ اپنا انتقام لے کر رہتا ہے۔‘‘
’’اللہ نے انتقام لینا ہے، تو مجھ سے لے۔ شا دو میری بیٹی تو معصوم ہے …نہیں نہیں میں اس کے ساتھ نا انصافی نہیں ہونے دوں گا۔‘‘ یہ کہتا ہوا میں تیزی سے وہاں سے چلا گیا۔
میراں کے سسرال والوں نے اس کا جینا مشکل کر دیا تھا اور اس کا بیٹا بھی چھین لیا تھا۔ وہ حویلی میں اپنے باپ بھائیوں کے در پر آ پڑی تھی۔ اس کے شوہر نے کہہ دیا تھا کے جب تک وہ اپنی جائیداد لے کر نہیں آئے گی اس کے دروازے اس پر بند رہیں گے۔ ادھر حویلی میں بھی اس کے لیے حالات سازگار نہیں تھے۔ دونوں بھابھیاں اس سے خارکھاتی اور اسے باتیں سناتی تھیں۔ اس پر بچے کی جدائی اس سے برداشت نہیں ہو رہی تھی۔ شوہر کی دھمکیاں الگ تھیں۔ ایک پھوپھی کا دم غنیمت تھا جو اسے دلاسے دیتی رہتی تھیں۔ ان دنوں میں شہر گیا ہوا تھا۔ بھائیوں اور بھابھیوں نے اس کا جینا حرام کیا ہوا تھا۔ وہ ساری ساری رات روتی رہتی۔ کب صبح ہوتی اور کب شام اسے پتا نہیں چلتا اور اس دن افضل نے اسے خوب بے نقط سنائی تھیں۔ وہ اتنی دل برداشتہ ہوگئی کہ اسے صرف موت میں ہی پناہ نظر آئی اور اس نے حویلی کی چھت سے کود کر جان گنوا دی تھی۔ جوان بیٹی کی موت نے مجھے توڑ کر رکھ دیا۔
’’تجھے بہت جلدی تھی میراں …میرا انتظار تو کیا ہوتا۔ یہ دیکھ میں تیری زمین لے آیا ہوں۔‘‘ میں نے کاغذات اس کی لاش کے پاس رکھتے ہوئے کہا۔
’’اٹھ میراں، شا دو یہ اٹھتی کیوں نہیں؟ جرم میں نے کیا اور سزا ملی میری بیٹی کو یا اللہ یہ کیسا انصاف ہے؟‘‘ میں پھوٹ پھوٹ کر رو دیا۔
’’دلاور کا قتل میرے حکم پر ہوا تھا۔ میں قاتل ہوں انسپکٹر مجھے گرفتار کرو ۔‘‘ میں پولیس اسٹیشن میں بیٹھ کر اقرار کررہا ہوں۔ ‘‘ تھانیدار پوری روداد سن کر بولا:
’’چودھری صاحب آپ کی طبیعت ٹھیک نہیں لگتی آپ کی بیٹی کی چھت سے گرنے کی اطلاع ہمیں ملی تھی اور آپ برسوں پرانا قصہ سنا رہے ہیں۔‘‘ اسی وقت غفور کے دونوں بیٹے اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ تھانے پہنچ گئے۔
’’بابا جان آپ یہاں بیٹھے ہوئے ہیں اور ہم آپ کو پورے گاوؑں میں تلاش کرتے پھر رہے ہیں۔ چلیں گھر چلیں۔‘‘ چودھری افضل تیزی سے ان کے قریب آیا اور انہیں تھام کر اٹھانے کی کوشش کرنے لگا۔
’’چھوڑ مجھے۔‘‘ انہوں نے اس کے ہاتھ جھٹکے۔
’’انسپکٹر! تو ایف آئی آر لکھ… پرچہ درج کر …میرا اقبالی بیان لکھ میں قاتل ہوں۔‘‘
’’ارے تھانیدار صاحب بیٹی کی اچانک موت کے صدمے سے بابا کا دماغی توازن…‘‘ انور نے اپنی کنپٹی پر انگلی گھمائی۔ انسپکٹر اس کا اشارہ سمجھ گیا تھا ۔
’’آپ لوگ انہیں ڈاکٹر کے پاس لے جائیں ان کی طبیعت ٹھیک نہیں لگتی ۔‘‘ تھانیدار نے کہا۔
دونوں بیٹوں نے چودھری غفور کو بازووؑں سے پکڑ کر اٹھایا اور زبردستی کھینچتے ہوئے باہر لے گئے۔ اس طرح کے وہ گھسٹتا ہوا ان کے ساتھ چلا جا رہا تھا اور چیخ رہا تھا۔
’’میں قاتل ہوں… میں قاتل ہوں۔‘‘ اور تھانیدار بیٹھا سوچ رہا تھا کہ بیٹی کے صدمے سے بوڑھے باپ کا دماغ الٹ گیا ہے۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

اچانک — عائشہ احمد

Read Next

اب اور نہیں — ایمان عائشہ

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!