مجرم — ماہتاب خان

’’تھانیدار کہاں ہے؟‘‘ چودھری صاحب نے گمبھیر لہجے میں کہا۔
’’وہ جی…وہ تو اس وقت اپنے کوارٹر میں ہیں۔ میں ابھی انہیں بلواتا ہوں۔ دین محمد!او دین محمد۔‘‘ اس نے کسی کو آواز دی تھی۔
’’آیا جی۔‘‘ دور کہیں سے کسی کی نیند میں ڈوبی ہوئی آواز آئی۔
’’چھیتی جا، تھانیدار صاحب کو بتا۔ چودھری غفور آئے ہیں۔‘‘ اس نے بلند آواز سے کہا۔
’’آپ بیٹھیں نا چودھری صاحب۔‘‘حوالدار کی آواز اُن کی سماعت تک پہنچی ہی نہیں تھی۔ وہ تو دور کہیں اپنے خیالوں میں کھوئے ہوئے تھے۔
’’چودھری صاحب۔‘‘ اس بار اس نے تیز آواز میں اسے پکارا تو وہ چونکے تھے۔
’’آپ بیٹھیں میں تھانیدار صاحب کو خود بلا کر لاتا ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر وہ چلا گیا۔ چودھری کسی ہارے ہوئے جواری کی طرح کرسی پر ڈھے سا گیا اور اپنا سر سامنے میز پر ٹکا دیا۔
’’چودھری صاحب! آپ… اتنی رات گئے؟ اور آپ نے خود آنے کی زحمت کیوں کی کوئی بندہ بھیج دیا ہوتا۔ میں حاضر ہو جاتا۔‘‘ تھانیدار نے کہا اور تیزی سے چودھری کے مقابل کرسی پر بیٹھ گیا۔ چودھری یونہی میز پر سر ٹکائے بیٹھا رہا۔
’’چودھری صاحب سب خیر تو ہے ؟‘‘ اس نے فکر مندی سے کہا، تو چودھری غفور نے سر اٹھا کر اسے خالی خالی نظروں سے دیکھا۔
’’سوالات نہ کر …ایف آئی آر کاٹ قتل کی۔‘‘ چودھری کا لہجہ خاصا بھاری تھا۔
’’ایف آئی آر…قتل کی؟ مگر کس کے خلاف اور کس کے قتل کی؟‘‘ تھانیدار حیرانی سے بولا۔
’’تو لکھ…میں تجھے بتاتا ہوں کہ قاتل کون ہے؟‘‘
’’میں سمجھ نہیں پایا چودھری صاحب! آپ کیا کہنا چاہتے ہیں؟‘‘ وہ حیران رہ گیا تھا۔
’’آپ ذرا مجھے تفصیل سے بتائیں۔‘‘
’’کاغذ قلم اٹھا ۔‘‘چودھری صاحب کی آواز اسے کہیں دور سے آتی محسوس ہوئی تھی۔ اس نے روزنامچہ کھولا۔
’’جی فرمائیے۔‘‘ تھانیدار نے کہا۔
’’تھانیدار یہ کہانی بیس سال پرانی ہے۔ جب میں دولت اور جوانی کے نشے میں مست تھا۔‘‘
’’چودھری غفور اُن دنوں چوبیس سال کا گھبرو جوان تھا اور میری چھوٹی بہن دلشاد اٹھارہ سال کی۔ دولت کی ریل پیل نے مجھے لاابالی، بے پروا اور عیاش بنا دیا تھا۔ میں تمام وقت اپنے آوارہ دوستوں کے ساتھ موج مستی میں گزارتا تھا۔ اس دن شام ڈھلے جب میں حویلی پہنچا، تو مہمان خانے میں پڑوسی گاؤں کے ملک دلاور کی ماں کواپنے والد سے گفتگو کرتے پایا۔ السلام و علیکم۔ کہتا وہ کمرے میں داخل ہوگیا۔
وعلیکم السلام! اس کے والد اور دلاور کی ماں بیک وقت بولے۔ میں والد صاحب کے قریب کرسی پر بیٹھ گیا۔ ان کے درمیان گفتگو کا سلسلہ پھر جڑ گیا جو میری آمد سے منقطع ہوا گیا تھا۔
’’بس چودھری صاحب ہمیں تو آپ کی بیٹی چاہیے اور کچھ نہیں۔ ایک ہی تو میرا بیٹا ہے دلاور اور اللہ کا دیا ہمارے پاس بہت کچھ ہے۔‘‘
چودھری صاحب مسکرائے تھے۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

’’میں جانتا ہوں بہن آپ لوگ جدی پشتی رئیس ہیں، مگر ہم اپنی بیٹی کو خالی ہاتھ تو رخصت نہیں کریں گے نا…جو اس کا حق ہے اسے دیا جائے گا۔ اس کے حصے کی جائیداد اور زمینیں اس کو ملیں گی۔ دو ہی تو میرے بچے ہیں غفور اور دلشاد ساری جائیداد ان دونوں کی ہی تو ہے۔‘‘
جائیداد کی تقسیم کا سن کر مجھے اچنبھا ہوا۔ یہ تو میں نے سوچا ہی نہیں تھا کہ بہن کی شادی ہو گی، تو اپنے حصے کی جائیداد بھی لے جائے گی۔یہ مجھے کسی طرح گوارا نہیں تھا۔
’’اچھا آپ یہ بتائیں رشتہ تو پکا ہے نا ؟‘‘
’’ہاں ہاں! غفور مٹھائی لے کر آ۔‘‘ چودھری صاحب نے میری طرف دیکھا۔ میں ناگواری کا احساس لیے اٹھ گیا۔ بے حد خوبصورت میری بہن شادو کا رشتہ گھبرو جوان ملک دلاور سے پکا ہو گیا تھا۔ حویلی میں شادی کی تیاریاں جاری تھیں، مگر مجھے ان تیاریوں سے کوئی سروکار نہیں تھا۔ مجھے تو کسی لمحے چین نہیں آرہا تھا۔ ہماری آبائی زمینیں شادو اپنے ساتھ غیر خاندان میں لے جا رہی تھی، لیکن میں سوائے ہاتھ ملنے کے کچھ نہیں کر سکتا تھا کیوں کہ جو ہونا تھا وہ ہو چکا تھا۔ چودھری صاحب زبان دے چکے تھے۔
شادی کے دن قریب تھے جب ملک دلاور نے اپنی کزن کو شادو کے پاس بھیجا۔
’’دلاور شادی کی شاپنگ کرنے کل شہر جا رہا ہے۔ اس نے پوچھا ہے کہ تمہاری کوئی خاص پسند ہو تو بتا دو۔‘‘ کزن نے اس سے کہا تھا۔
’’میں کیا بتاؤں اُن سے کہنا اپنی پسند سے لے آئیں۔‘‘ شا دو نے شرماتے ہوئے کہا۔میں کمرے کے قریب سے گزر رہا تھا جب انہیں یہ گفتگو کرتے سنا۔
’’تو پھر ٹھیک ہے میں تمہاری طرف سے اسے بہت سی چیزوں کی فرمائش کر دوں گی۔‘‘ اس نے شرارت سے شادو کو کہا۔
’’ہائے اللہ وہ کیا سوچیں گے، ایسا نہیں کرنا۔‘‘ اس نے جلدی سے کہا۔
’’وہ کچھ نہیں سوچے گا بلکہ خوش ہوگا۔‘‘ دلاور کی کزن نے ہنستے ہوئے کہا پھر کچھ دیر اِدھر اُدھر کی باتیں کر کے چلی گئی۔
ملک دلاور کو آخری بار گاؤں کے اسٹیشن سے ٹرین میں سوار ہوتے دیکھا گیا تھا۔ پھر اس کا کچھ پتا نہیں چلا۔ اسے شہر میں اپنے جس دوست کے پاس ٹھہرنا تھا، وہاں بھی نہیں پہنچا تھا۔ شادی کے دونوں گھر ماتم کدہ بن گئے۔ کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ کسی نے اسے پیسے کی خاطر مار ڈالا ہے کیونکہ اس کے پاس اچھی خاصی رقم تھی۔ کچھ کا خیال تھا کہ اسے اغوا کیا گیا ہے اور جلد ہی تاوان کا مطالبہ سامنے آئے گا۔ پولیس بھی حرکت میں آ گئی اور دونوں طرف کے افراد اور اس کے دوست وغیرہ بھی اسے تلاش کر رہے تھے۔ ان میں، میں اور میرے دوست بھی شامل تھے، مگر وہ تو ایسا غائب ہوا کہ کہیں سراغ نہ ملا۔ ملک دلاور کی اور اس کے خاندان کی کسی سے کوئی دشمنی بھی نہیں تھی۔
پولیس نے نامعلوم افراد کے خلاف اغوا کا پرچہ درج کر لیا۔ اسی سلسلے میں تفتیش کا دائرہ وسیع کرتے ہوئے انہوں نے مجھ سے اور میرے دوستوں سے بھی پوچھ گچھ شروع کردی جس کا میں نے بہت برا منایا۔ بہرحال دلاور کا کچھ پتا نہیں چلا کہ اسے آسمان کھا گیا یا زمین نگل گئی تھی۔ شا دو کا رو رو کر برا حال تھا۔ اس کی تو دنیا ہی اجڑ گئی تھی۔
وقت کچھ آگے سرکا اور کئی سال بیت گئے۔ شادو نے پھر کبھی شادی کے لیے ہامی نہیں بھری۔ اس نے شادی نہ کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ کچھ عرصہ بعد چودھری غفور یعنی میری بھی دھوم دھام سے شادی ہو گئی۔ اس کے یکے بعد دیگرے دو بیٹے پیدا ہوئے۔ شادو نے اپنے بھائی کے بچوں پر اپنی محبتیں نچھاورکر دی تھیں۔ حویلی اور ڈیرے کے تمام انتظامات شادو کے ہاتھ میں تھے۔ اس کے حصے کی زمینیں بھی اس کے پاس تھیں۔ میں پہلے سے بڑھ کر اُس کا خیال رکھنے لگا تھا۔
انہی دنوں میری بیوی نے ایک بچی کو جنم دیا اور اسی دوران کچھ ایسی پیچیدگی ہوئی کہ وہ جان کی بازی ہار گئی۔ نومولود بچی کو پھوپھی شا دو نے سینے سے لگالیا پھر اسے ماں بن کربڑے ناز و نعم سے پالا۔ وقت گزرتا رہا اور میراں بڑی ہوتی گئی۔ وہ اپنی پھوپھی کو ہی اپنی ماں سمجھتی تھی۔ شادو اب بیمار رہنے لگی تھی۔میں اس کی صحت کی طرف سے بہت پریشان رہتا تھا۔ اس کا بخار ٹوٹنے کا نام نہیں لے رہا تھا۔
ایک دن میراں اس کے سرہانے بیٹھی سر دبا رہی تھی۔ میں بھی قریب ہی بیٹھا تشویش سے اسے دیکھ رہا تھا۔
’’شہر چلنے کی تیاری کرو۔‘‘ میں نے بہن سے کہا۔
’’نہیں مجھے شہر نہیں جانا۔‘‘ شا دو نے نحیف آواز میں کہا۔
’’بس بس…زیادہ باتیں نہ کرو ہمیں تسلی کرنے دو۔ میراں بیٹا اپنی پھوپھی کو تیار کرو ہم انہیں ابھی شہر کے بڑے اسپتال لے کر جائیں گے۔‘‘ یہ کہتا ہوا میں اٹھ کر وہاں سے چلا گیا۔ میری دونوں بہوویں اس بات پر بہت ناراض رہتی تھیں کہ حویلی اور ڈیرے وغیرہ کے تمام انتظامات میری بہن کے ہاتھ میں تھے۔ اسی لیے وہ پھوپھی کو دشمن سمجھتی تھیں۔ بہرحال میں شا دواور میراں کو لیے شہر کے ایک بڑے اور مشہور اسپتال لے کر آیا جہاں شادو کا علاج شروع ہو گیا۔
اک رات ڈاکٹر نے میراں سے کہا۔
’’میں کچھ میڈیسن لکھ رہی ہوں یہ منگوا لیں۔‘‘
’’ملازم کھانا کھانے گئے ہیں میں لے آتی ہوں۔ اس نے نسخہ ڈاکٹر کے ہاتھ سے لیتے ہوئے کہا۔
’’نہیں میراں تو اکیلی نہ جا شیرا آجائے گا، تو منگوا لیں گے۔‘‘ پھوپھی نے جلدی سے کہا۔
’’میں بس یوں گئی اور یوں آئی پھوپھی دوائیوں کا اسٹور اسپتال کے اندر ہی ہے۔‘‘
’’اچھا دھیان سے جانا اور جلدی آنا۔‘‘ شادو نے کہا۔ وہ تیزی سے باہر نکل گئی۔ میراں اسٹور سے دوائیاں خرید رہی تھی جب اس کی نظر اس کے گاؤں کے ایک نوجوان پر پڑی تھی جو اسے ہی حیرت سے دیکھ رہا تھا۔ وہ دوائیاں لے کر تیزی سے مڑی کہ اچانک اسے اپنے پیچھے کسی کی آواز سنائی دی۔
’’سنیے!‘‘ وہ رکی اور پلٹ کر دیکھا وہی نوجوان کھڑا تھا۔
’’آپ میراں بی بی ہیں نا چودھری صاحب کی بیٹی۔‘‘ وہ ہچکچاتے ہوئے بولا۔ میراں نے اثبات میں سر ہلایا اور آگے قدم بڑھا دیے۔ وہ تیزی سے اس کے قریب آیا اور اس کے ساتھ ساتھ چلنے لگا۔
’’سب خیر تو ہے کون بیمار ہے؟‘‘
’’پھوپھی کی طبیعت ٹھیک نہیں۔‘‘
’’اوہ کون سے وارڈ میں ہیں؟‘‘

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

اچانک — عائشہ احمد

Read Next

اب اور نہیں — ایمان عائشہ

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!