نجات دہندہ — ردا کنول (دوسرا حصّہ)
کیا کیا تھا جو ما ضی نہیں ہو گیا تھا۔گھر،کاروبار،رہن سہن،تہوار،حسین وادیاں،لباس،اپنے لوگ اور بہت سارا پیار جو اپنی وادی میں تھا اور جو یہاں
کیا کیا تھا جو ما ضی نہیں ہو گیا تھا۔گھر،کاروبار،رہن سہن،تہوار،حسین وادیاں،لباس،اپنے لوگ اور بہت سارا پیار جو اپنی وادی میں تھا اور جو یہاں
بڑے سے کشادہ اور روشن کچن میں اُسے ایک ٹانگ پر کھڑے چار گھنٹے بیت گئے تھے۔کچن اس وقت تمام باورچیوں اور اُن کے معا
سنو! میں شکاگو جاکر اپنی اسٹڈیز پر توجہ دوں گا۔ اچھا ہے وہاں رہتے ہوئے کچھ حاصل ہوجائے۔” ”ہاں… میں بھی یہی سوچ رہی تھی
تمہاری نیم وَا آنکھیں مرے رخسار پر، جب بھی غزل لکھیں اموزِ عشق کے اسرار، مجھ پر منکشف ہوکر سرور و کیف کی، چاہت کی،
میں گرانٹ میڈیکل کالج کلکتہ میں ڈاکٹری کا فائنل کورس کر رہا تھا اور اپنے بڑے بھائی کی شادی پر چند روز کے لئے لاہور
وہ کافی دیر بے مقصدکاموں میں لگی رہی۔ باہر لاؤنج میں بیٹھی میگزین کو اُکٹ پُلٹ کرتی رہی۔ ڈنر کے بعد روحیل اپنے کمرے میں
وہ رات بارہ بجے کے قریب دوستوں سے فارغ ہوا تھا۔ شادی عرشیہ کی عدّت ختم ہونے کے دو ماہ بعد کافی سادگی سے طے
چِڑیوں کی چہچہاہٹ اور پرندوں کے سُریلے گیتوں نے ایک نئی صبح کا آغاز کیا ۔کل رات کی موسلادھار بارش کے بعد موسم نہایت خوشگوار
اُس نے آنکھیں کھولیں تو پہلا خیال دماغ میں یہی آیا تھا کہ قیامت سے گزر کر وہ کسی اندھیری قبر میں جاپہنچی تھی۔ قیامت
گھنٹہ بھر کوشش کرنے کے بعد بھی میں بمشکل چند لائنیں کاغذ پر گھسیٹ پایا تھا۔ جھنجھلاہٹ کے عالم میں قلم کاغذ پر پٹختے ہوئے
Alif Kitab Publications Dismiss