مارو گولی — سارہ قیوم

سرخ اشارے پر گاڑی روک کر سعدیہ نے ساتھ بیٹھے احمد کو دیکھا۔ وہ گاڑی میں بیٹھتے ہی اسے اپنے سارے دن کی روداد سنانا شروع کردیتا تھا اور طوطے کی طرح نان سٹاپ بولے جاتا تھا۔ اب بھی اس کی چہچہاہٹ جاری تھی۔ وہ مسکراتے ہوئے اس کی باتیں سننے لگی۔
ارشد سرخ بتی پر رکی گاڑیوں کے بیچ زگ زیگ کی طرح راستہ بناتے رکی ہوئی ٹریفک کے اگلے حصے میں آکر رک گیا۔ اس کے دائیں طرف گرین بیلٹ تھی اور بائیں طرف ایک بڑی سی سفید گاڑی جس میں ایک نوجوان عورت ایک چھوٹے سے بچے کے ساتھ بیٹھی ہوئی تھی۔ ارشد کی عقابی نظروں نے لمحوں میں اس کار اور اس کے مکینوں کا جائزہ لیا۔ عورت تقریباً اکیلی تھی، بچہ اتنا چھوٹا تھا کہ ہوا نہ ہوا برابر تھا، امیرآسامی تھی یہ تو اس کی گاڑی اور اس کے لباس سے ہی ظاہر تھا۔ گاڑی میں سبزیوں کے تھیلے کے علاوہ تو اور کوئی سامان نہ تھا مگر عورت کا پرس بڑا تھا اور پھولا ہوا دکھائی دے رہا تھا۔ ارشد نے عورت کو موٹی اسامی اور موزوں شکار کے طور پر اوکے کردیا۔ اس نے گردن موڑ کر ناصر کو دیکھا۔ ناصر بھی ویسی ہی نظروں سے عورت اور اس کی گاڑی کا جائزہ لے رہا تھا۔ دونوں کی نظریں ملیں۔ ناصر نے سوالیہ نظروں سے اجازت طلب کی۔ ارشد نے اثبات میں سر ہلایا۔ اشارہ سبز ہوگیا۔ گاڑیاں چل پڑیں۔ ارشد نے موٹرسائیکل سفید گاڑی کے پیچھے لگا دی۔
٭…٭…٭





سعدیہ نے سڑک پر گیٹ کے سامنے گاڑی روکی اور گیٹ کھولنے کے لیے گاڑی سے باہر نکلی۔ سڑک اس وقت خالی تھی۔ زیرتعمیر عمارت کے مزدور بھی کام روک کر شاید کھانا کھانے میں مصروف تھے۔ اسی وقت اس عمارت کی اوپری منزل سے کسی مزدور نے جھانک کر نیچے بیٹھے اپنے ساتھی کو آواز دی۔ سعدیہ نے گیٹ کھولا اور گاڑی اندر لے گئی۔
ارشد نے موٹرسائیکل گاڑی کے پیچھے لگا رکھی تھی۔ وہ سنسان سڑک دیکھ کر بہت خوش ہوا تھا۔ مزید خوشی اسے اس وقت ہوئی جب اس نے دیکھا کہ گھر کے گیٹ پر کوئی چوکیدار نہیں تھا۔ عورت خود ہی گیٹ کھولنے اتری تھی۔ بس یہی مناسب وقت تھا اسے جا لینے کا۔ مگر برا ہوا اس مزدور کا جو عین وقت پر ایک زیرتعمیر عمارت کی چھت پر نمودار ہوا اور کسی کو آوازیں دینے لگا۔ ارشد تیزی سے موٹرسائیکل آگے بڑھا لے گیا۔ چند فٹ دور جا کر اس نے ایک درخت کے گھنے سائے میں موٹرسائیکل روکی۔ یہاں کسی کی نظر نہیں پڑ سکتی تھی۔ عورت اتنی دیر میں گاڑی پورچ میں لے گئی تھی۔ ارشد نے پھرتی سے کالے بیگ میں سے پستول نکال کر ناصر کو تھما دی اور اسے عورت کے پیچھے جانے کا اشارہ کیا۔ ناصر نے اثبات میں سر ہلایا اور اپنے سر اور چہرے کو صاف میں لپیٹتے ہوئے تیز قدموں سے گیٹ کی طرف چل دیا۔ سعدیہ نے گاڑی کا دروازہ کھولا اور اپنا پرس اٹھالیا۔ وہ یہ بڑا سا پرس زیور ڈالنے کے لیے لے کر گئی تھی۔ اب اس پرس میں صرف دو سو روپے تھے۔ اس نے سبزیوں والے تھیلے کی طرف ہاتھ بڑھایا جس میں زیور رکھا تھا۔ احمد اتنی دیر میں اپنے بیگ سے ایک کتاب نکال چکا تھا اور سعدیہ کو دکھا رہا تھا۔
”مما آج ہم نے یہ بُک شروع کی۔” وہ سعدیہ کو بتانے لگا۔
سعدیہ نے بیک ویو مرر سے کھلے گیٹ کو دیکھا۔ گل موہر کا درخت اسی شان سے کھڑا تھا۔ کھلے گیٹ سے باہر ایک نوجوان جس نے سر پر صافہ لپیٹ رکھا تھا سڑک پر کھڑا اندر جھانک رہا تھا۔
”چلو بیٹا باہر نکلو، اندر جاکر دیکھتی ہوں میں بُک۔” اس نے احمد سے کہا۔
اسی وقت اسے ایک ہلکا سا کھٹکا سنائی دیا۔ اس نے تیزی سے نظر اٹھا کر بیک ویو مرر میں دیکھا۔ وہی لڑکا جو چند لمحے پہلے گیٹ سے باہر سڑک پر کھڑا تھا، اب کار کے قریب پہنچ چکا تھا۔ سعدیہ کے دیکھتے ہی دیکھتے اس نے پستول والا ہاتھ بلند کیا، کھٹاک سے سیفٹی کیچ ہٹایا اور اگلے ہی لمحے وہ احمد کی کھلی کھڑکی سے پستول سعدیہ پر تانے کھڑا تھا۔
”پرس دے دو” اس نے حکم دیا۔ چہرے پر بندھے ڈھاٹے کی وجہ سے اس کی آواز دبی دبی معلوم ہوتی تھی۔
دہشت سے سعدیہ کا دل اچھل کر حلق میں آگیا۔ احمد نے ڈر کر چیخیں مار مار کر رونا شروع کردیا۔ سعدیہ تھر تھر کانپنے لگی۔
عورت کو ڈرتا دیکھ کر ناصر کی مردانگی شیر ہوگئی۔
”پرس دے دو” اس نے چیخ کر حکم دیا۔
سعدیہ کی آواز اس کے حلق میں گھٹ کر رہ گئی تھی۔ اضطراری طور پر اس نے پرس سینے سے لگالیا۔
”پرس دے دو ورنہ گولی مار دوں گا۔” ناصر نے چیخ کر کہا۔
گولی مار دوں گا… گولی مار دوں گا… اس آواز کی بازگشت سعدیہ کے دماغ کی دیواروں سے ٹکرانے لگی۔ دیکھتے ہی دیکھتے اس کی طرف اٹھی ہوئی پستول کی نالی ایک سکرین میں بدل گئی جس پر اسے اپنی زندگی کی فلم نظر آنے لگی۔
ڈاکو کی آواز میں بہت سی آوازیں شامل ہوگئیں۔
”ڈکیتی کی واردات میں راہ گیر کو گولی مار دی۔”
”مما طلاق کیا ہوتا ہے؟”
”بے شک چھوڑ دو مجھے۔ طلاق لے لو۔”
”طلاق لو اور اور واپس چلی جائو”
”معافی مانگو ورنہ طلاق لے کر گھر جائو گی۔”
”نوٹس مل جائے گا تمہیں یہیں پر”
”مما طلاق گالی ہوتی ہے؟ گولی مارنے سے بھی زیادہ؟”
”تم عورتیں بہت selfishہوتی ہو۔”
”میرے مسائل کا احساس کرو، میڈیکل کی ضد چھوڑو۔”
”ڈرپوک کہیں کی۔”
”رانی بناکر رکھوں گا۔”
”طلاق دے دوں گا… طلاق دے دوں گا… طلاق دے دوں گا۔”
”گولی مار دوں گا۔” ڈاکو نے چیخ کر کہا
اور سعدیہ کے اندر کوئی ایسی چیز چٹخ گئی جو وہ جانتی نہیں تھی کہ اس کے اندر کبھی موجود بھی رہی تھی۔
”مارو” اس نے چلا ّکر کہا۔ اس کا دل دھڑ دھڑ کر رہا تھا اور خون شریانوں میں ابل رہا تھا۔ ناصر نے حیرت سے اسے دیکھا۔ شاید اسے سمجھ نہیں آئی میں کیا کہہ رہا ہوں۔ بہری ہے شاید۔
”گولی مار دوں گا۔” اس نے پھر سے دھمکایا۔
”مارو گولی۔ گولی مارنے کے لیے ہی تو لائی گئی تھی میں اس گھر میں۔”
”ساری زندگی لوگوں کے لیے مرتی رہی، تم بھی مار دو، بلکہ مار ہی دو۔ زندہ رہنے کا فائدہ ہی کیا ہے؟ دیکھتے کیا ہو؟ مار گولی۔” وہ چلاّرہی تھی۔
ناصر نے ہکاّ بکاّ ہوکر بے یقینی سے اسے دیکھا۔ ارے یہ عورت پاگل تھی کیا؟ ایک ڈاکو اس پر پستول تانے کھڑا تھا اور وہ تقریر کررہی تھی اور کیسے چیخ چیخ کر اسے حکم دے رہی تھی کہ مارو گولی۔
سعدیہ نے ہذیانی انداز میں سبزیوں والا تھیلا اٹھایا جس کی تہ میں اس کے لاکھوں کے زیور رکھے تھے۔ تھیلا اٹھا کر اس نے تیزی سے ناصر کی طرف بڑھایا۔
”یہ لو زیور۔ لے جائو۔ وہ بھی تو لوٹنے بیٹھا ہی ہے نا اندر، تو پھر تم ہی لوٹ لو۔ لے جائو زیور۔”
ناصر نے بھونچکا ہوکر تھیلے کو دیکھا جس میں آلو، پیاز اور کریلے بھرے ہوئے تھے۔ اس عورت کے پاگل پن میں اب اسے کوئی شبہ نہیں رہا تھا۔ اس نے ایک نظر اپنی پستول کو دیکھا، دوسری نظر سبزیوں والے تھیلے کو، جس میں سے ایک ٹماٹر لڑھک کر گرنے کو تھا۔ یہ عورت پاگل تھی اور اس پاگل پن میں وہ خطرناک ثابت ہوسکتی تھی۔ اب یہاں سے بھاگ جانا ہی بہتر تھا۔ اس نے پستول جیب میں اڑسی اور بجلی کی سی تیزی سے گیٹ کی طرف دوڑا۔ آخری آواز جو اسے سنائی دی، وہ عورت کی چیخ تھی۔
”جاتے کہاں ہو؟ مارو گولی۔”
سعدیہ دروازہ کھول کر لائونج میں داخل ہوئی۔ اس کے ایک ہاتھ میں سبزیوں کا تھیلا تھا اور دوسرے ہاتھ سے اس نے احمد کا ہاتھ تھام رکھا تھا۔ احمد کے گالوں پر آنسو چمک رہے تھے۔ وہ رونا بند کرچکا تھا مگر سسکیاں لے رہا تھا۔ سعدیہ کا چہرہ دھواں دھواں تھا۔ وہ احمد کا ہاتھ تھامے اسے سیدھی کچن میں لے گئی۔ سبزیوں والے تھیلے کو آلو پیاز کی ٹوکری میں رکھ کر اس نے فریج سے پانی کی بوتل نکالی اور پانی کا گلاس بھر کر احمد کو دیا۔ احمد اب بھی سسکیاں بھر رہا تھا۔ اس نے شفقت سے اس کے آنسو پونچھے اور اپنے ہاتھ میں گلاس پکڑ کر اسے پانی پلانے لگی۔ پانی پلا کر کتنی ہی دیر سینے میں بھینچ کر اسے تھپکتی رہی اور پھر اسے لائونج سے ظہیر کی آواز سنائی دی۔
”سعدیہ۔” وہ اسے پکار رہا تھا۔ وہ اٹھی اور لائونج کی طرف چل پڑی۔





٭…٭…٭
ناصر بھاگتا ہوا گیٹ سے نکلا۔ گیٹ سے ذرا دور درخت کے سائے میں ارشد موٹرسائیکل پر موجود تھا۔ ناصر کو نکلتا دیکھ کر اس نے موٹرسائیکل کو کک لگائی۔ ناصر بھاگ کر موٹرسائیکل پر بیٹھ گیا اور ارشد تیزی سے موٹرسائیکل بھگا لے گیا۔
٭…٭…٭
ظہیر لائونج میں کھڑا تھا۔ احمد بھاگتا ہوا کچن سے نکلا اور ظہیر کی ٹانگوں سے لپٹ گیا۔
”لے آئی زیور؟” ظہیر نے سعدیہ کو دیکھتے ہی کہا۔
”بابا… بابا” احمد نے ظہیر کا ہاتھ پکڑ کر اس کی توجہ اپنی طرف مبذول کرنے کی کوشش کی۔
”بابا چور آگیا تھا۔”
ظہیر چونک گیا۔
”کیا؟ چور؟ کہاں؟ یہ کیا کہہ رہا ہے سعدیہ؟”
سعدیہ خاموش رہی، جواب احمد نے دیا۔
”ابھی ہم سکول سے آئے نا تو باہر چور آگیا، ماما نے اسے بھگا دیا۔”
”بھگا دیا؟” ظہیر نے حیران ہوکر کہا۔
”زیور تو بچ گیا نا؟”
”ہاں، زیور بچ گیا۔” سعدیہ نے ٹھنڈے لہجے میں کہا۔
ظہیر کے چہرے پر اطمینان ابھرا۔
”لائو دو” اس نے ہاتھ بڑھا کر کہا۔
”نہیں” سعدیہ نے مضبوط لہجے میں یک لفظی جواب دیا۔ ظہیر کو مختصر جواب ہی پسند تھے۔
”کیا مطلب؟ نہیں؟” ظہیر حیران ہوا۔
”زیور نہیں لائی تم؟”
”نہیں” وہی ٹھنڈا لہجہ، وہی مختصر جواب۔
ظہیر کا اشتعال سب سے پہلے اس کی آنکھوں سے ظاہر ہوا، پھر گال سرخ ہوئے، پھر ہونٹ بھنچ گئے۔ آنکھیں نکال کر بولا:
”جب میں نے تم سے کہا تھا کہ مجھے آج ہر حال میں زیور چاہیے… تو کیوں نہیں لائی؟”وہ یک دم دھاڑا۔
یہ ایک آزمائی ہوئی تکنیک تھی۔ اس کی اچانک دھاڑ سے سعدیہ تھر تھر کانپنے لگتی تھی۔ اسے ڈرانے کا یہ سب سے آسان طریقہ تھا لیکن یہ سعدیہ وہ نہیں تھی جو اس کی دھاڑوں سے ڈر جاتی تھی۔ اس کے اندر کچھ چٹخ چکا تھا۔ وہ سکون سے کھڑی رہی۔ بڑے اطمینان سے بولی:
”کیوں کہ وہ ”میرا” زیور ہے۔ میرا خاندانی زیور۔ میری ملکیت۔ میں اسے نہیں بیچنے دوں گی۔”
اگر ظہیر کو اس کے اس اطمینان پر حیرت ہوئی بھی تو اس نے ظاہر نہیں ہونے دی۔ وہ غصے سے دانت بھینچنے کھڑا اسے گھورتا رہا۔ پھر قدم بڑھا کر بالکل سعدیہ کے قریب آکھڑا ہوا۔ ایک ایک لفظ چبا چبا کر بولا:
”میں تمہیں طلاق دے دوں گا۔”
سعدیہ بے خوفی سے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کھڑی دیکھتی رہی۔ اس کی آنکھوں میں ایک حقارت آمیز تاثر ابھرا اور اس نے بڑے اعتماد سے کہا
”دو! دو طلاق۔ مارو گولی۔”
ظہیر بھونچکا رہ گیا۔ سعدیہ چند لمحے کھڑی اس کی آنکھوں میں دیکھتی رہی۔ پھر پلٹ کر چل دی۔ اس کا سر اٹھا ہوا تھا اور چہرے پر ایک فاتحانہ مسکراہٹ تھی۔
”ڈرتی بھی نہیں…یہ تو ڈرتی بھی نہیں۔” ظہیر نے حیرت سے خود کلامی کی۔
ارشد نے پانی کی بوتل ناصر کو تھمائی اور خود اس کے پاس پتھر کے بنچ پر بیٹھ گیا۔ ناصر غٹاغٹ پوری بوتل چڑھا گیا۔
”او یہ تو بتا ہوا کیا ؟” ارشد نے بے تابی سے پوچھا۔
”بڑی عجیب بات ہوئی استاد۔” ناصر نے منہ پونچھتے ہوئے جواب دیا۔
”بڑی عجیب عورت تھی، ڈری ہوئی نہیں، نہ دھمکی سے ڈری نہ پستول سے ڈری۔”
ارشد نے حیران ہوکر اسے دیکھا۔
ناصر نے بات جاری رکھی۔
”میرا خیال ہے پاگل تھی شاید، مجھے کہے گئی مارو گولی مارو گولی پھر سبزیاں دے کر کہنے لگی یہ لوٹ لو۔ اب بھلا کوئی آلو پیاز بھی لوٹتا ہے؟”
کتنی ہی دیر دونوں ایسے محیرّ العقول واقعے پر سوچوں میں گم بیٹھے رہے۔ آخر ناصر نے جیسے کسی نتیجے پر پہنچ کر سر اٹھایا اور بولا:
”عورتیں نہیں ڈرتیں استاد، عورتیں تو بالکل نہیں ڈرتیں۔”
”ڈرتی ہیں” ارشد نے فلسفیانہ انداز میں کہا
”ساری عورتیں ڈرتی ہیں۔”
وہ تو جب کسی عورت کا دماغ گھوم جائے نا، وہ نہیں ڈرتی، اٹھ کھڑی ہوتی ہے۔”
ناصر بے ساختہ بولا:
”پھر تو شکر ہے عورتوں کا بھیجا ہر وقت نہیں گھومتا رہتا۔… ہم مردوں کی طرح۔” دونوں بے اختیار ہنسنے لگے۔
”مطلب زیور تھیلے میں تھا؟” عروج نے حیرت اور بے یقینی سے سعدیہ کو دیکھا۔ دونوں اس وقت ایک ریسٹورنٹ میں بیٹھی ناشتہ کررہی تھیں۔ عروج کے سوال کے جواب میں سعدیہ نے اطمینان سے چھری سے آملیٹ کاٹتے ہوئے اثبات میں سر ہلایا۔
”پرس میں نہیں تھا؟” عروج نے پوچھا۔
سعدیہ نے اسی اطمینان سے نفی میں سر ہلایا۔
”تو پرس میں کیا تھا؟”
”دو سو روپے۔”
عروج کا منہ کُھلے کا کُھلا رہ گیا۔ اس نے بے یقینی سے کہا:
”تم نے دو سو روپے کے لیے؟”
”دو سو روپے کے لیے نہیں” سعدیہ نے اس کی بات کاٹی
”پھر؟” عروج کو اب بھی یقین نہیں آتا تھا۔
سعدیہ کچھ دیر خاموش رہی۔ پھر اس نے چھری کانٹا رکھ دیا۔
”اپنے لیے، اپنی پوری زندگی کے لیے، اپنی self respect کے لیے۔”
عروج نے بے یقینی سے سر ہلایا:
”ڈاکو تمہارے سر پر پستول تانے کھڑا ہے اور تمہیں self respect سوجھ رہی ہے؟”
سعدیہ ہنس پڑی۔
”مطلب ڈاکو دیکھ کے mid life crisis ہوگیا تمہیں؟”
”بس یہی سمجھو” وہ چھری کانٹا اٹھا کر پھر سے آملیٹ کاٹنے لگی۔
”ایک بات تو بتائو” عروج نے تجسس سے پوچھا:
”ڈاکو کو بڑے دھڑلے سے کہہ دیا کہ مارو گولی، اگر وہ سچ مچ گولی مار جاتا تو؟”
سعدیہ کچھ دیر خاموش رہی، پھر اس نے اطمینان سے ساسیج کا ٹکڑا کانٹے میں پرویا اور بولی:
”گولی سے ڈر نہیں لگتا صاحب… شادی شدہ زندگی سے لگتا ہے۔”
عروج نے بے اختیار قہقہہ لگایا۔ سعدیہ بھی ہنسنے لگی۔ دونوں بے تحاشہ ہنستی رہیں۔ ہنستے ہنستے سعدیہ کے آنکھوں میں آنسو آگئے۔
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

میں بے زباں —- رفا قریشی

Read Next

آم کے آم — فہمیدہ غوری

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!