مارو گولی — سارہ قیوم

”ہمت تو ہے۔” ناصر نے ارشد سے زیادہ جیسے خود کو یقین دلایا۔
”لگتا تو نہیں” ارشد معنی خیزی سے مسکرایا۔
ناصر بے چارگی سے اسے دیکھنے لگا۔ ارشد کو اس پر ترس آگیا۔ اس نے ڈبیہ میں سے ایک سگریٹ نکال کر اس کی طرف بڑھائی۔
”چل یہ ایک سگریٹ پی لے، پھر نکلتے ہیں۔”
ناصر نے تشکر سے سگریٹ اس کے ہاتھ سے لے لی۔
٭…٭…٭
راحت نے چابیوں کے گچھے میں سے چابیو ڈھونڈ کر الماری کا لاک کھولا اور پھر سے گچھے کو ٹٹولنے لگیں۔ اب وہ لاکر کی چابی ڈھونڈ رہی تھیں۔
سعدیہ نے الماری میں جھانکا۔
”اُف کتنی چیزیں رکھی ہوئی ہیں آپ نے سیف کے آگے۔” راحت کو چابی مل گئی تھی۔
”اسی لئے تو چور خانے میں بنایا ہے سیف۔ نکالو یہ چیزیں۔” سعدیہ چیزیں نکالنے لگی۔ جوں جوں چیزیں نکالتی جاتی تھی، اس کا دل ڈوبتا جاتا تھا۔ باہر نکالے جانے والی ہر چیز… اون سلائیاں، تصویروں کے البم، پرانی ڈائریاں اور چھوٹے موٹے ڈیکوریشن پیس اسے اس زیور کے قریب تر کر رہے تھے جو وہ بیچ دیئے جانے کے لیے لے جانے والی تھی۔
٭…٭…٭
”مجھے تو بڑی خوشی ہوئی جب تم نے زیور نکالنے کا کہا” راحت نے ڈبے اس کے سامنے رکھتے ہوئے کہا۔
زیور پہنا کرو بیٹا۔ پہننے کے لیے دیا تھا، رکھنے کے لیے تو نہیں دیا تھا۔”
”پہنتی تو ہوں امی۔” اس نے آہستہ سے کہا۔
”کہاں پہنتی ہو؟” وہ ناراضی سے بولیں۔
”سال میں ایک آدھ مرتبہ پہن لیا تو پہن لیا ورنہ میرے پاس پڑا رہتا ہے۔”
اس نے صفائی دینی چاہی” وہ تو آپ کے پاس سیف لاکر ہے نا، اس لیے رکھوانا پڑتا ہے۔ پھر زیور پہنتے ہوئے ڈر بھی تو لگتا ہے نا امی۔ سیکیورٹی کے حالات تو آپ جانتی ہی ہیں۔”
راحت بڑ بڑانے لگیں:
”رہنے دو سیکیورٹی کے حالات، حالات کے پیچھے انسان زندگی جینا تو نہیں چھوڑتا۔ ابھی تمہاری عمر ہے پہننے اوڑھنے کی۔ پھر کیا میری عمر میں پہنو گی یہ بھاری بھر کم سیٹ؟”
وہ خاموش ہوگئی۔ ان باتوں کا اس کے پاس کوئی جواب نہ تھا۔ راحت بڑھاپے کی بات کررہی تھیں۔ یہ سیٹ تو اس کے پاس بس آج دوپہر تک تھے۔ راحت کے سوال کا جواب ٹالنے کے لیے اس نے اوپر والا ڈبہ اٹھا لیا۔ ڈبہ کھول کر وہ کتنی ہی دیر اس گلوبند کو دیکھتی رہی جو راحت کے زیورات میں سب سے بھاری اور خوبصورت تھا۔ اسے یک ٹک زیور کو دیکھتے ہوئے دیکھ کر راحت نے آگے ہوکر ڈبے میں جھانکا۔ ان کے چہرے پر روشنی سی کھل اٹھی۔ ہاتھ بڑھا کر انہوں نے نرمی سے ڈبہ سعدیہ کے ہاتھ سے لے لیا۔
”پائل کا ڈیزائن تھا یہ۔” انہوں نے پیار سے گلوبند پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کئی بار کی سنائی ہوئی یہ دہرائی۔ ان کے چہرے پربھولی بسری جوانی کی میٹھی یادوں نے روشنی سی کردی۔
”جب تمہاری نانی زیور پسند کرنے کے لیے مجھے ساتھ لے کر گئیں تو مجھے ایک پائل نظر آئی۔ میں نے سنار کو کہا اس ڈیزائن کا ہار بنا دیجئے۔ امی اللہ بخشے جڑائو زیور بنوانا چاہتی تھیں۔ انہوں نے مجھے منع کردیا۔”
سنار نے کہا
”باجی بچی ٹھیک کہہ رہی ہے، اس ڈیزائن کا گلوبند جو چیز بنے گی، آپ کے خواب و خیال میں نہ ہوگی۔” راحت خاموش ہوگئیں، یادوں میں کھو گئیں۔ مسکراتے ہوئے گلوبند پر ہاتھ پھیرے گئیں۔
”اور جب یہ بن کر آیا تو پورے خاندان میں دھوم مچ گئی۔” سعدیہ نے آنسو پیتے ہوئے، مسکرانے کی کوشش کرتے ہوئے کہانی مکمل کی۔
”ہاں!” راحت ہنس پڑیں۔ ڈبہ بند کرکے انہوں نے دوسرا ڈبہ اٹھالیا۔ اس میں نیلم جڑا نازک سا سیٹ تھا۔ سعدیہ کا دل بیٹھ گیا۔ اس سیٹ سے جڑی کہانی سننے کی اس میں تاب نہیں تھی۔
راحت نے نیلم کے سیٹ کے سنہری ڈوری بڑی نرمی سے درست کی۔
”تمہارے ابو نے شادی کی پندرہویں سالگرہ پر تحفہ دیا تھا یہ سیٹ۔ انتقال سے صرف تین ماہ پہلے۔ صرف ایک مرتبہ پہنا میں نے…”،
سعدیہ نے تیزی سے ایک اور ڈبہ اٹھا کر کھول لیا۔ وہ مزید نہیں سن سکتی تھی۔ یہ زیور نہیں تھا، زندگی کی حسین اور غم ناک اور رنگینی اور بھرپور یادوں کے تحائف تھے جو لاکر میں نہیں دلوں میں سنبھالے گئے تھے۔
”امی ذرا دیکھئے گا۔” سعدیہ نے اپنا اور راحت کا دھیان بٹانے کی غرض سے کہا:
”یہ کندن ذرا کالا نہیں پڑ گیا؟”
راحت چونک گئیں۔





”دکھائو تو ذرا۔” انہوں نے ڈبہ سعدیہ کے ہاتھ سے لیتے ہوئے کہا۔
”ہاں کچھ ماند پڑ گیا ہے۔ اسی لیے تو کہتی ہوں پہنا کرو۔ رکھے رکھے خراب ہورہا ہے سب کچھ۔ ٹھہر میں ابھی سوڈے اور سرف سے دھوتی ہوں، منٹوں میں چمک جائے گا۔” سعدیہ نے جلدی سے ڈبہ ان کے ہاتھ سے لے لیا۔
”نہیں امی مجھے دیر ہورہی ہے۔ میں گھر جا کر دھو لوں گی۔ آپ فکر نہ کریں۔”
راحت کے چہرے پر کچھ مایوسی کے آثار ابھرے۔
”کچھ دیر بیٹھتیں، زیور چیک کرلیا نا تم نے؟ دیکھو وہ جڑائو سیٹ ہے نا جو بڑے ماموں نے تمہاری شادی پر تحفہ دیا تھا؟”
”جی امی میں نے دیکھ لیا…” سعدیہ نے کچھ کہنے کی کوشش کی۔
”اور وہ جوڑے کا کلپ جو تمہاری نانی کے جہیز کا تھا۔” راحت سنی ان سنی کرکے کہے گئیں۔
”اور وہ ست لڑا تو شاید تم لے گئی تھیں؟”
سعدیہ نے ٹھنڈا سانس بھر کر کہا:
”نہیں امی، واپس دے گئی تھی آپ کو۔”راحت نے ماتھے پر ہاتھ مارا۔
”ارے ہاں یاد آیا۔ وہ تو ڈبے سے نکال کر پوٹلی میں رکھا تھا میں نے۔ خاص طور پر مخمل کی پوٹلی سی تھی اس کے لیے۔ بس بیٹا اب زیور اپنے پاس رکھو۔ مجھے بھول جاتی ہیں چیزیں۔ بہت سنبھال لیا میں نے زیور۔ تمہاری امانت تھی، میں نے ادا کردی، اب خود سنبھالو۔ کتنے کتنے مشکل دن آئے تمہارے ابو کے انتقال کے بعد لوگ مجھے کہتے تھے زیور بیچ دو۔ میں نے ایک چھلا تک نہیں بیچا۔ میں نے کہا میری سعدیہ اور عروج کی امانت ہے۔ اللہ خوشیوں سے پہننا نصیب کرے۔”
”چلتی ہوں امی!” سعدیہ نے بلند آواز سے کہا
”احمد کی چھٹی کا ٹائم ہونے والا ہے۔”
وہ کچھ دیر اور بیٹھی رہتی تو پھوٹ پھوٹ کر رونے لگتی۔
راحت نے اس کے رنگ بدلتے چہرے کو ذرا حیرت سے دیکھا۔
”دیر ہو جائے مجھے جانے میں تو رونے لگتا ہے۔” سعدیہ نے بات بنائی۔
راحت پیار سے مسکرائیں۔
”پانچ سال کا ہی تو ہے بے چارہ۔ اچھا چلو پھر تم دیر نہ کرو۔”
انہوں نے ڈبے سمیٹنے شروع کیے۔ اچانک انہیں کچھ خیال آیا۔ ان کا ہاتھ رک گیا۔ چہرے پر تردد کی پرچھائیاں اتر آئیں۔
”یہ اتنے سارے ڈبے لے کر جائو گی؟ حالات بڑے خراب ہیں۔ ٹھہرو میں سارا زیور کسی رومال میں باندھ کر لفافے میں ڈال دیتی ہوں۔”
”جی امی۔” سعدیہ نے پھیکی سی مسکراہٹ سے کہا۔
”آپ کو کیا بتائوں امی، اس کے دل نے کرلاکر کہا، اس زیور کی گھات لگائے کون بیٹھا ہے۔”
ارشد نے کالے رنگ کے بیگ میں پستول ڈال کر بیگ گردن میں لٹکا لیا۔
”چل بھئی تیاری پکڑ۔” اس نے ناصر کے کندھے پر ہاتھ مار کر کہا۔
ناصر نے تائید میں سر ہلا دیا۔
”ٹینکی بھر والی ہے میں نے موٹرسائیکل کی۔ دور جانا ہے۔” ارشد نے کہا
”کتنی دور؟” ناصر نے پوچھا۔
”شہر کے پرے سرے” ارشد نے اطمینان سے کہا۔
”یہ گُر کی بات ہے یاد رکھ۔ اپنے علاقے میں کبھی واردات نہیں کرنی۔ شہر کے پرے کنارے جائو، واردات کرو اور دستی واپس آئو۔ پکڑ جانے کا چانس کم ہو جاتا ہے۔”
”صحیح بات ہے استاد” ناصر نے استاد کی ہوشیاری سے متاثر ہوکر کہا۔
ارشد بولا:
”اور ویسے بھی اس علاقے میں تگڑی اسامی کدھر ملے گی؟ بندہ ڈیفنس شیفنس جائے تو بات بنے۔”
ناصر نے پھر تائید میں سر ہلایا:
”گُر کی باتیں تو استاد کو ہی پتا ہیں۔”
”اور تیری گُر کی بات کیا ہے؟ یاد ہے؟” ارشد نے پوچھا۔
ناصر نے سوالیہ نگاہوں نے ارشد کو دیکھا۔ ارشد نے ایک ایک کرکے انگلیاں کھڑی کرنی شروع کیں۔
”عورت ہو، امیر ہو، اکیلی ہو اور پھر کیا ہو؟”
”کیا ہو؟” ناصر نے پیش بندی کے طور پر پوچھا۔
”مارو گولی” ارشد نے اونچی آواز میں کہا اور قہقہہ لگا کر سننے لگا۔ ناصر بھی اس کی ہنسی میں شریک ہوگیا۔
٭…٭…٭





سعدیہ کچن کائونٹر کے پاس کھڑی راحت کو ایک ایک ڈبے میں سے زیور نکال کر رومال میں رکھتے دیکھتی رہی۔ راحت بڑے پیارے سے ایک ایک زور کو اٹھاتیں، کسی کی ڈوری درست کرتیں، کسی کو روٹی میں لپیٹتیں اور رومال میں رکھ دیتیں۔ اس وقت اگر کوئی کیمرہ ان ماں بیٹی کی وہاں کھڑے تصویر کھینچ لیا تو اس تصویر کو ضرور کسی انعامی مقابلے میں پہلا انعام ملتا۔ ایک وقت میں ایک ہی کام کرتے ہوئے دو عورتوں کے اتنے مختلف تاثرات شاید کبھی کسی نے نہ دیکھے ہوں۔ ایک کے چہرے پر روشنی تھی، دوسری کے چہرے پر اندھیرا۔ ایک کا چہرہ خوشی سے کھلا ہوا تھا۔ دوسری کا دکھ سے مرجھایا ہوا۔ ایک کی آنکھوں میں ماضی کی جوت جلتی تھی۔ دوسری کی آنکھوں میں مستقبل کی تیرگی کنڈلی مارے بیٹھی تھی اور وہ دونوں ساتھ ساتھ کھڑی اس زیور کو دیکھ رہی تھیں جو ایک کے دل کا سرور تھا، دوسری کے دل کا ملال۔
راحت نے رومال کی پوٹلی باندھی اور ادھر ادھر دیکھا۔
”وہ لفافہ پکڑانا۔” انہوں نے پلاسٹک کے شاپر کی طرف اشارہ کیا۔ سعدیہ کے لفافہ اٹھاتے اٹھاتے وہ اپنا ارادہ بدل چکی تھیں۔ لفافہ ہاتھ میں لیے گومگو کے عالم میں کھڑی رہ گئیں۔
”نہیں۔ اس میں محفوظ نہیں۔” انہوں نے خود کلامی کی۔
پھر وہ سعدی سے ناراض ہوگئی۔
”بیٹا تم اکیلی کیوں آئیں؟ اتنی قیمتی چیز لینے آئی ہو۔ ظہیر کے ساتھ آتیں، ابھی چھوڑو، شام کو آکر لے جانا ظہیر کے ساتھ۔”
سعدیہ بوکھلا گئی۔ اس نے جلدی سے کہا۔
”نہیں امی، ظہیر تو گھر پر میرا انتظار کررہے ہیں۔”
راحت نے حیران ہوکر کہا۔
”گھر پر ہے تو ساتھ کیوں نہیں آیا؟”
یا اللہ کدھر پھنس گئی۔
”نہیں میرا مطلب ہے صبح گئے تھے آفس۔ میرے گھر جانے تک واپس آجائیں گے تاکہ میں زیور کے ساتھ گھر میں اکیلی نہ رہوں۔” اس نے بات بنائی۔
لیکن راحت کی ناراضی اس کی وضاحتوں سے دور نہ ہوئی۔ وہ بَڑ بَڑاتی رہیں۔
”آنا چاہیے تھا اسے ساتھ، اتنی قیمتی چیز، میں تو ہوا تک نہیں لگنے دیتی۔ تم کیسے اکیلی اٹھ کر لینے آگئیں۔”
سعدیہ نے تسلی دینے کے لیے کہا۔
”کچھ نہیں ہوتا امی۔”
لیکن یہ تسلی راحت کو الٹا اور ناراض کرگئی۔
”ارے کیسے کچھ نہیں ہوتا۔” انہوں نے خفا ہوکر کہا
”تم لڑکیوں کو کسی چیز کی قدر و قیمت کا اندازہ نہیں۔ پائی پائی جوڑ کر یہ زیور بنوایا تم بہنوں کے لیے۔”
”میں سمجھتی ہوں امی۔” سعدیہ نے ہولے سے کہا۔
لیکن راحت اس کی کہاں سن رہی تھیں۔ اپنی کہے گئیں۔
”آج اللہ رکھے بیٹا ہے، کل بیٹی بھی ہوگی۔ آج اگر زیور کا خیال نہ کیا تو کل کو بچوں کا کیا دو گی؟
”ماں باپ کی عزت ہے بیٹی کو ناک کان سے ڈھک کر رخصت کرنا۔”
اب وہ ادھر ادھر کے دراز اور کیبنٹس کھول کر اندر جھانک رہی تھیں۔
”کدھر گیا؟” انہوں نے ایک دراز میں ہاتھ مارتے ہوئے کہا۔
”کیا ڈھونڈ رہی ہیں؟” سعدیہ نے حیران ہوکر پوچھا۔
راحت نے اپنی تلاش جاری رکھی۔
”سبزیوں والا تھیلا… یہ رہا، کپڑے کا تھیلا ہے نا۔ اس میں سے کچھ نظر نہیں آئے گا۔”
انہوں نے زیور کی پوٹلی تھیلے میں رکھ دی۔ سعدیہ نے تھیلا لینے کے لیے ہاتھ بڑھایا مگر انہوں نے تھیلا پیچھے کرلیا۔
”ٹھہر تو جائو۔ ایسے نہیں لے جانا۔” وہ سبزیوں کی ٹوکری کے پاس گئیں اور تھیلے میں آلو پیاز ڈالنے لگیں۔ ساتھ ساتھ بولتی گئیں۔
”اکیلی آگئیں زوری لینے۔ حالات اتنے خراب ہیں، کچھ پتا ہوتا ہے کہ کون تاک میں بیٹھا ہو؟ یہاں تو لوگ ایک چھلے کے پیچھے جان لے لیتے ہیں، تم تو لاکھوں کا زیور لیے جارہی ہو۔ کسی کو بھنک بھی پڑی گئی تو خدا نہ کرے تمہیں راستے میں ہی لوٹ لے گا۔ اللہ بچائے امان میں رکھے۔”
اس وقت تک وہ تھیلے کو جو بھی سبزی ہاتھ لگی، اس سے بھر چکی تھیں۔ انہوں نے تنقیدی نظروں سے تھیلے کا جائزہ لیا اور مطمئن ہوکر بولیں۔
”ہاں اب ٹھیک ہے۔ آئو تمہیں گاڑی تک چھوڑ آئوں۔”
سبزیوں کے تھیلے کو سینے سے لگائے راحت باہر نکل گئیں۔ سعدیہ وہیں کھڑی رہ گئی۔
”راستے کے ڈاکوئوں سے مجھے کیا ڈر امی؟ میرے تو گھر میں…” اس نے جملہ ادھورا چھوڑ کر اپنے آنسو اندر اتارے اور راحت کے پیچھے باہر نکل گئی۔
٭…٭…٭
سبزیوں والا تھیلا پیسنجر سیٹ پہ رکھ کر اس نے گاڑی سٹارٹ کی۔ راحت جو پاس کھڑی آیت الکرسی پڑھ رہی تھیں، انہوں نے اس پر اور پھر اس کی گاڑی پر پھونک ماری اور ہاتھ اٹھا کر کہا:
”فی امان اللہ۔”
فی امان اللہ، اس نے زیرِلب دُہرایا اور گاڑی نکال لے گئی۔
٭…٭…٭
ارشد نے دروازہ بند کرکے تالا لگایا۔
”ویسے تو کچھ نہیں رکھا یہاں، پر احتیاط اچھی چیز ہے۔” اس نے ناصر سے کہا۔ ارشد نے موٹرسائیکل پر بیٹھ کر کک لگائی، ناصر پیچھے بیٹھا۔ ارشد موٹرسائیکل نکال کر لے گیا۔
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

میں بے زباں —- رفا قریشی

Read Next

آم کے آم — فہمیدہ غوری

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!