مارو گولی — سارہ قیوم

” تو لے لو طلاق…چلی جا گھر اگر میں اتنا برا لگتا ہوں۔ ” ظہیر نے طنز سے کہا ۔
”اب کیا طلاق لوں گی جب وقت تھا تو…… ” اس نے آہستہ سے کہہ کر بات ادھوری چھوڑی اور کھانا گرم کرنے چلی گئی۔
اور جب احمد پیدا ہوا تھا تو تیسرے ہی دن وہ اس کے سر پر کھڑا تھا۔
”گھر چلو ،فریحہ کی شادی ہے۔ امی اکیلیکیسے دیکھیں گی سب کام ؟ اٹھو میں تمہیں لینے آیا ہوں۔” نادر شاہی حکم نازل ہوا تھا،وہ ہکا بکا رہ گئی۔
”میں کیسے جا سکتی ہوں ظہیر ؟ابھی کل ہی تو میں ہاسپٹل سے آئی ہوں۔ میری طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔”اس نے گڑگڑا کر کہا۔
”یہ سب عورتوں کے نخرے ہوتے ہیں۔گھر چلو ساری طبیعت ٹھیک ہو جائے گی ۔” اسے ٹکا سا جواب ملا۔
”پلیز! مجھے مت لے کر جائیں۔ ”سعدیہ نے اس کی منت کی،ظہیر کو طیش آ گیا۔
”ٹھیک ہے پھر تم رہو یہیں … اب گھر مت آنا۔نوٹس مل جائے گا تمہیں یہیں پر ۔”
وہ اپنی بات کہہ کر کھڑا اسے دیکھتا رہا جیسے اپنی دھمکی کا اثر دیکھنا چاہتا ہو۔ سعدیہ نے اسے مایوس نہیں کیا، وہ خاموشی سے اٹھ کر سامان سمیٹنے لگی ۔ظہیر نے فاتحانہ انداز میں کہا:
”میں باہر انتظار کر رہا ہوں دس منٹ میں باہر آجانا۔”سعدیہ کوئی جواب دئیے بغیر سامان اکٹھا کرتی رہی۔ظہیر بھاری قدموں سے دھمک پیدا کرتا باہر نکل گیا۔ اندر آتی عروج نے اسے حیرت سے باہر نکلتے حیرت سے دیکھا۔سعدیہ کو سامان باندھتا دیکھ اس کی حیرت دو چند ہو گئی۔
”ظہیر بھائی کو کیا ہوا ؟ اور یہ تم کیا کر رہی ہو ؟”اس نے حیرت سے سعدیہ سے پوچھا۔
سعدیہ نے ننھے ننھے کپڑے بیگ میں رکھتے ہوئے بے تاثر لہجے میں کہا
” میں گھر جا رہی ہوں۔”
”گھر …کیوں ؟”عروج کو جیسے اپنے کانوں پر یقین نہ آیا ہو۔
سعدیہ کے ہاتھ کام میں مصروف تھے، وہ اسی طرح سپاٹ لہجے میں بولی:
”فریحہ کی شادی میں کام کے لیے میری ضرورت ہے،میں نہ گئی تو وہ مجھے طلاق دے دیں گے۔” عروج سکتے کے عالم میں کھڑی اسے دیکھتی رہی،پھر حیرت اور غصے کے ملے جلے تاثرات لیے بولی:





”اتنا آسان نہیں طلاق دینا، کس بات پر طلاق دیں گے ؟ اس بات پر کہ بچہ پیدا کرنے کے تین دن بعد تم کام کرنے کیوں کھڑی نہیں ہوئیں ؟”
” یہ تو کچھ بھی نہیں۔ ”سعدیہ نے پھیکی مسکراہٹ کے ساتھ کہا:
”مجھے تو شرٹ استری نہ کرنے پر ، روٹی تازہ نہ پکانے پر ،امی کو چائے تاخیر سے دینے پر طلاق کی دھمکیاں ملتی ہیں۔”عروج حیرت زدہ کھڑی اسے دیکھتی رہی،سعدیہ نے بیگ کی زپ بند کر کے بیگ کندھے پہ لٹکایا، بڑھ کر احمد کو گود میں اٹھایا اور کمرے سے نکل گئی۔
احمد اس کے دل کا ٹکڑا، ایک وہی تو تھااس کی زندگی کی واحد خوشی۔ اسے احمد کا خیال آیا ، کیسی تجسس بھری نگاہوں سے وہ کچن میں جھانک رہا تھا۔ اس نے چائے کے کھولتے پانی کے نیچے چولہا بند کیا اور کچن سے باہر نکل آئی۔ احمد اب بھی وہیں بیٹھا انہی نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا۔ وہ خاموشی سے اس کے پاس جا کر بیٹھ گئی۔احمد کی نظریں اس کے چہرے پر ٹکی ہوئی تھیں وہ یوں ظاہر کرنے لگی گویا کچھ ہوا ہی نہیں۔
”پڑھ لیا آپ نے یہ صفحہ احمد ؟” اس نے احمد سے پیار سے پوچھا،احمد کتاب کو دیکھنے لگا۔
”پڑھ لیا یہ صفحہ یہ احمد؟”سعدیہ نے اس کی غائب دماغی محسوس کر کے دوبارہ پوچھا۔
”مما طلاق کیا ہوتا ہے ؟ ” احمد نے معصومیت سے پوچھا اور وہ سن ہو گئی، اسے لگا وہ کمرہ ، اس کمرے کی ہر چیز ، ایک ایک ذرہ ، اس کا ایک ایک رواں اس سے سوال کر رہا ہے کہ طلاق کیا ہوتا ہے ؟
”آپ نے کہاں سنا یہ لفظ ؟” اس نے اضطراری انداز میں پوچھا۔
”بابا آپ کو کہہ رہے تھے اورآپ رو رہی تھیں ۔” احمد نے معصومیت سے کہا ۔
”میں رو رہی تھی ؟” اس نے جیسے خود سے سوال کیا۔
”ہاں! ”احمد نے سر ہلایا۔
”مما طلاق گالی ہوتی ہے؟ ” اس نے راز دارانہ انداز میں پوچھاجیسے کوئی بہت ہی ناموزوں بات پوچھ رہا ہو۔سعدیہ نے گہرا سانس لیا اور بولی:
”ہاں! بیٹا گالی ہوتی ہے ، بہت بڑی گالی۔ بہت بڑا ظلم۔ ”احمد نے ایک نظر ٹی وی کی طرف دیکھااور پھر کہا:
”گولی مارنے سے بھی زیادہ ؟” اس نے آنکھیں پھیلا کر پوچھا۔
سعدیہ کی آنکھوں میں آنسو آ گئے ۔اس نے آنسو پیتے ہوئے سرگوشی میں کہا۔
” ہاں بیٹا !گولی مارنے سے بھی زیادہ۔ ”
٭…٭…٭
”گولی مار دوں گا۔ ”
ارشد نے پستول کی ٹھنڈی نال کو محسوس کیااور آنکھیں بند کر لیں۔
” مجھے نہ مارنا،مجھے نہ مارنا۔”اس نے کانپتی ہوئی آواز میں کہا۔
” پیسے نکال ورنہ گولی مار دوں گا۔ ”پستول تانے ہوئے شخص نے ایک بار پھر دھمکایا۔
”ابے یار! ” ارشد نے بے زاری سے کہا، اس نے ہاتھ گھمایا اور اگلے ہی لمحے پستول اس کے ہاتھ میں آ چکا تھا۔
”ایسی مری ہوئی دھمکی دے گا ؟”اس نے ڈپٹ کر اس کے سر پر ایک چپت لگائی، ناصر کھسیانا ہوگیا۔
”زنخے پیدا کرنے لگی ہیں مائیں۔ ”ارشد پستول کا بلٹ چیمبر گھماتے ہوئے بَڑبَڑایا۔
”مردوں والی تو کوئی بات ہی نہیں۔”اس نے ناصر کو گھورا۔
”ایسی بات نہیں استاد، نیا نیا کام ہے نا تو۔ ”ناصر نے شرمندہ ہو کر صفائی دی لیکن اس کی بات ادھوری رہ گئی، ارشد نے جھپٹ کر ایک بازو میں اس کی گردن دبوچ لی اور پستول کی نال اس کی کنپٹی میں گھسا دی ۔
”استاد….استاد ” ناصر گھبرا کر چلایا ۔
” بکواس بند کر،گولی مار دوں گا ۔” ارشد نے چیخ کر کہا۔
”استاد پستول بھرا ہوا تو نہیں ہے ؟”ناصر کا سانس پھول رہا تھا۔
”بھرا ہوا ہے۔ ”ارشد نے اسی ٹون میں جواب دیا ۔
”استاد!” ناصر گھگھیانے لگا۔
ارشد نے اس کے کانپتے ہاتھوں اور پسینے میں بھیگے چہرے کو دیکھا اور اس کی گردن چھوڑ دی۔ ناصر ہانپتے ہوئے اپنا گلا سہلانے لگا۔
”ایسے تانتے ہیں پستول اور ایسے دیتے ہیں دھمکی۔ ”ارشد نے پستول ہوا میں اچھالتے ہوئے کہا ،ناصر نے اسے پستول کیچ کرتے ہوئے دیکھا ، وہ واقعی سہما ہوا تھا۔
”چل تو نہیں جائے گا ؟” اس نے ڈرتے ڈرتے پوچھا۔
”چلا کے دیکھ! ” ارشد نے پستول اس کے ہاتھ میں زبردستی دیتے ہوئے کہا۔
”ابے مردوں کی طرح پستول پکڑ ڈرتا کیوں ہے؟”ارشد نے اس کا ہاتھ آگے کرکے اس میں پستول پکڑاتے ہوئے زوردار آواز میں کہا،
ناصر نے پستول پکڑ لی۔
”خود نہیں ڈرنا ، اگلے کو ڈرانا ہے۔اچھی طرح پریکٹس کر لے ، کل جانا ہے تو نے پہلی واردات پر۔” ارشد نے اسے نصیحت کرنے کے ساتھ ساتھ کل کے منصوبے سے بھی آگاہ کیا۔





”جانا ضروری ہے استاد ؟”ناصر نے کم زور آواز میں پوچھا۔
”جائے گا نہیں تو سیکھے گا کیسے ؟”ارشد نے ڈپٹ کر کہا:
”چل! اب لے نشانہ، تان مجھ پر پستول۔ ”ناصر نے تھوک نگلی اور پستول ارشد پہ تان لیا۔
پھٹی ہوئی میلی دری پر بیٹھے ، کنارے ٹوٹے گلاس میں کڑک چائے پیتے ناصر نے اس کھولی نما کمرے کو دیکھا جس کی دیواروں پر لگے سالہاسال پرانے داغ ، اکھڑا فرش ، بان ادھڑی چارپائی اور کھڑکی پر لگا بوسیدہ پردہ اس کے مکین کی غربت کی منہ بولتی داستان تھا۔
”بڑا کام کیا کسی زمانے میں میں نے۔ ” ارشد چائے کے گلاس کو انگلیوں میں گھماتے ماضی میں پہنچا ہوا تھا۔
”دولت میں کھیلتا تھامیں، پھر پکڑا گیا ، کم بختوں نے تھانے میں مار مار کر ہاتھ توڑ دیا ، تب سے اس حال میں پڑا ہوں۔ اب تو اور میں مل کر کام کریں گے تو بڑا کمائیں گے ۔ایسے دائو پیچ سکھائوں گا کہ کیا کسی استاد نے سکھائے ہوں گے۔ ”ناصر نے سر ہلایا اور چاپلوسی سے بولا:
”ہاں اب گُر کی باتیں تو استاد کو ہی پتا ہیں نا۔ ”ناصر کی خوشامد پر وہ تھوڑا چوڑا ہوگیا۔
” یہ تو ہے! میرے سے بڑا استاد تجھے نہیں ملنا ، بڑا تجربہ ہے میرا اور میری ایک بات یاد رکھنا، ہمیشہ عورتوں کو لوٹنا۔ ”اس نے بھنویں اُچکا کر کہا۔
” وہ کیوں استاد ؟” ناصر نے دل چسپی سے پوچھا۔
”تابع دار ہوتی ہیں بے چاری۔”ارشد نے حقارت سے کہا۔
”عورتوں کو لوٹنا آسان ہے۔ بڑی جلدی ڈر جاتی ہیں۔ آگے سے بہادری دکھانے کی کوشش نہیں کرتیں بلکہ جو کچھ ہو فورا نکال کر دے دیتی ہیں۔ ”ارشد اسے سمجھاتے ہوئے بولا۔
”صحیح بات ہے استاد! ”ناصر نے کچھ سمجھتے ہوئے تائید میں سر ہلایا ۔
”عورت کو ڈرانا آسان ہے،گولی شولی چلانے کی ضرورت نہیں پڑتی ، دھمکی سے ہی ڈر جاتی ہیں بے چاری۔”ارشد نے ہنستے ہوئے کہا۔
”مطلب بے شک خالی پستول ہی لے جائو ؟”ناصر نے الجھ کر پوچھا۔
ارشد معنی خیز انداز میں مسکرایا ، پاس پڑا پستول اٹھا کر اس کا میگزین کھولا اور ناصر کے آگے کر دیا۔ پستول کا بلٹ چیمبر خالی تھا ، اس میں ایک بھی گولی نہیں تھی۔ ناصر بے یقینی سے آنکھیں پھاڑے اسے دیکھتا رہا۔ ارشد اس کی حالت دیکھ کر قہقہہ لگائے بغیر نہ رہ سکا۔
”بس! دھمکی ذرا زور دار دینا۔ ”ارشد نے کہا۔
ناصر نے ہاتھ بڑھاکر پستول پکڑ لیا اور اسے اپنے سامنے کسی فرضی شخص پر تان لیا۔
”گولی مار دوں گا۔ ” اس نے کڑک کر کہا۔
”شاباش ”ارشد نے بے ساختہ داد دی۔ دونوں ہنس پڑے۔
٭…٭…٭
کتنی ہی دیر سعدیہ دودھ کا گلاس لے کر بیڈ روم کے بند دروزے کے باہر کھڑی رہی۔
وہ ہمت باندھتی ، ذہن میں جملے ترتیب دیتی اور رد کر دیتی ، کیا کہے گی ؟ کیسے کہے گی ؟ خدا کے لیے میرا زیور نہ بیچو ؟ منت سماجت کا کوئی فائدہ نہ تھا اور دلیری اس کے بس کی بات نہ تھی ۔ظہیر غصے کی ایک نظر سے اسے دیکھتا تو وہ کھڑے کھڑے کانپنے لگتی ۔ اس نے بہت ہمت کر کے دروازہ کھولا اور دھڑکتے دل کو سنبھالتی اندر آ گئی ۔ ظہیر بستر پر بیٹھا کچھ کاغذات دیکھ رہا تھا۔ اس نے دودھ کا گلاس سائیڈ ٹیبل پر رکھ دیا اور خود وہیں کھڑی رہی۔ ظہیر اپنے کام میں اتنا مصروف تھا کہ ایک نظر اٹھا کر اسے نہ دیکھا ، وہ گہرا سانس لے کر بستر پر بیٹھ گئی۔
”زیور بیچنا ضروری ہے کیا ؟” اللہ کہنا کیا چاہتی تھی ، منہ سے کیا نکلا ، اس نے خود کو ملامت کی۔
”ہاں! ”یک لفظی جواب آیا ۔
وہ پھر سے ارادے باندھنے ، توڑنے لگی ، فقرے بنانے ، بگاڑنے لگی ۔اپنی بے بسی پر اس کی آنکھوں میں آنسو آنے لگے کیا کہے کہ پھر طلاق کی گالی نہ سننی پڑے ؟
” یہ ہمارا واحدasset (سرمایہ) ہے ” اس نے سرسراتی آواز میں کہا ۔
”تو؟” ظہیر نے اب کے سر اٹھا کر خشمگیں نظروں سے اسے دیکھا۔
”ابھی تو پوری زندگی پڑی ہے، بہت سے کام رہتے ہیں۔ کوئی بھی ضرورت پڑ سکتی ہے جس کے لیے ہمارے پاس کوئی asset، کوئی sawingہونی چاہیے۔”
”مثلاً کیا ضرورتیں؟” ظہیر نے تیوری چڑھا کر پوچھا۔
وہ اٹکنے لگی۔
”احمد کی… آگے اور بھی بچے… تو وہ… ان کی تعلیم، شادیاں… ابھی تو ہمارا گھر بھی نہیں بنا…”
ظہیر نے ہاتھ میں پکڑا کاغذ پٹخ دیا۔
”کمالوں گا ان سب ضرورتوں کے لیے، مر نہیں گیا ہوں۔” اس نے درشتی سے کہا۔
”نہیں میں نے یہ تو نہیں کہا” وہ ہکلائی۔
”تم عورتیں بہت selfishہوتی ہو۔ صرف اپنی ذات کے بارے میں سوچتی ہو۔ میرا asset، میری ضرورتیں، میری Planning، شوہر کا بزنس ڈوب جائے، اس کی ساکھ تباہ ہو جائے، تم اپنی planingلے کر بیٹھی رہو۔” ظہیر نے طنز سے کہا۔
سعدیہ اس کا چہرہ دیکھتی رہی۔ یک ٹک، پلکیں جھپکے بنا، پھر ایک گہرا سانس لے کر وہ اٹھ کھڑی ہوئی۔
”کل گاڑی گھر چھوڑ دیجئے گا، امی کی طرف جائوں گی۔” اس نے آہستہ سے کہا۔ کوئی جواب دیئے بغیر ظہیر پھر سے اپنے کاغات دیکھنے لگا۔ وہ بے مقصد وہاں کھڑی رہی۔ ظہیر کاغذ پڑھتا رہا، وہ خود کو پڑھتی رہی۔
ناصر جس وقت دروازہ کھول کر اپنے گھر میں داخل ہوا۔ اس وقت صحن میں رکھے ٹی وی پر کوئی سوپ چل رہا تھا۔ اس کی ماں، تین جوان بہنیں اور ڈھیر سارے چھوٹے بہن بھائی جی جان سے ٹی وی دیکھنے میں مگن تھے۔
”نہیں نہیں! مجھے طلاق نہ دینا۔ تمہیں خدا کا واسطہ” ٹی وی پر کوئی عورت گڑ گڑا رہی تھی۔
”بے غیرت، نامراد، کیسے ترلے لے رہی ہے بے چاری پر اس ظالم کو ذرا ترس نہیں آرہا۔” ناصر کی ماں کوستے ہوئے تبصرہ کررہی تھی۔
وہ وہیں تخت پر ٹک گیا۔ ٹی وی پر اب مرد چلا رہا تھا۔
”طلاق دے دوں گا۔’
”چچ چچ” ناصر کو ماں اور بہنوں کی ملی جلی آوازیں سنائی دیں۔
”کم بخت نہ ہوتو۔” ماں نے پھر سے ملامت کی۔
”کیسے دھمکا رہا ہے غریب کو۔ عورت تو بے چاری ویسے ہی کم زور ہوتی ہے، کوئی ٹھور ٹھکانہ نہیں۔”
”سلام اماں” اس نے اونچی آواز میں کہا۔
ماں چونکی۔
”آگیا بیٹا؟ جا نادیہ بھائی کے لیے کھانا لا۔”
اس وقت ڈرامہ سین کلائیمکس پر پہنچ گیا۔
”طلاق طلاق طلاق” مرد چلایا، روتی دھوتی، گڑ گڑاتی عورت بے ہوش ہوکر گر پڑی۔
”بیڑا غرق! اس سے تو بہتر تھا بے چاری کو گولی مار دیتا” ماں نے ہاتھ مل کر کہا۔
٭…٭…٭
ناصر اپنی چارپائی پر کروٹیں بدل رہا تھا۔ اسے نیند نہیں آرہی تھی۔ کل صبح پہلی واردات پر جانا تھا۔ اس کے دل کی دھڑکنیں کبھی رک جاتی، کبھی سرپٹ دوڑنے لگتی، کچھ ڈر، کچھ ایکسائٹمنٹ اور بہت سی ٹینشن نے اس کی آنکھوں سے نیند اڑا دی تھی۔ کانوں میں گڈ مڈ آوازوں کا شور تھا۔
”اچھی طرح پریکٹس کر لے، کل جانا ہے تو نے پہلی واردات پر۔”
”پتا نہیں اچھی پریکٹس کی تھی اس نے یا نہیں؟” اس نے گھبرا کرکروٹ بدلی۔
”مردوں کی طرح پستول پکڑ ڈرتا کیوں ہے؟” وہ چت لیٹ کر چھت کو گھورنے لگا۔
”خود نہیں ڈرنا، اگلے کو ڈرانا ہے۔” وہ اٹھ کر بیٹھ گیا اور سر گھٹنوں میں دے دیا، اس کا تو ابھی اپنا ڈر نہیں نکلا، وہ کسی کو کیا ڈرائے گا۔؟”
”ہمیشہ عورت کو لوٹنا۔” ارشد کی آواز
”عورت بے چاری تو ویسے ہی کم زور ہوتی ہے۔” ماں کا تبصرہ
”عورت کو لوٹنا آسان ہے، جلدی ڈر جاتی ہے بے چاری۔” ارشد کی یقین دہانی۔
ناصر چارپائی سے اٹھ کھڑا ہوا۔ اس کا گلا سوکھ رہا تھا۔ زمین پر سوئے ڈیڑھ درجن بہن بھائیوں سے بچتا، پھلانگتا وہ کونے میں رکھے کولر کے پاس جا کھڑا ہوا۔ کولر میں ماں صبح صبح بیس روپے کی برف منگا کر ڈالتی تھی۔ اس وقت تک پانی تتا گرم ہو چکا ہوتا تھا۔ اس نے گرم پانی کا گلاس بھر کر غٹا غٹ چڑھا لیا۔ نیم اندھیرے میں اسے اپنے پیچھے سے ماں کی آواز آئی۔




Loading

Read Previous

میں بے زباں —- رفا قریشی

Read Next

آم کے آم — فہمیدہ غوری

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!