لاحاصل — قسط نمبر ۲

ٹرین بہت تیز رفتاری سے اپنا سفر طے کر رہی تھی۔ وقت کے علاوہ ہر چیز کو پیچھے چھوڑتی جا رہی تھی۔ کھڑکی کے شیشوں پر بارش کے قطروں نے ایک جال سا بن دیا تھا مگر اس جال سے باہر بھاگتے ہوئے مناظر میں سے کوئی اوجھل نہیں ہوا تھا۔ اسے ان مناظر سے کوئی دلچسپی نہیں تھی باہر نظر آنے والا کوئی منظر اسے خوش نہیں کر سکتا تھا۔ گاڑی اب کہیں رک رہی تھی۔ قطروں کا جال اب جیسے آنسو بن کر کھڑکی کے شیشوں پر بہنے لگا۔ اس نے ایک طویل سانس لے کر سیٹ کی پشت سے ٹیک لگا لی… آنکھیں بند کر کے اس نے سوچنے کی کوشش کی۔ وہ کتنے سالوں بعد واپس لندن جا رہی تھی۔ اسے زیادہ وقت نہیں لگا وہ جانتی تھی وہ کتنے سالوں بعد لندن جا رہی ہے۔
پچھلے چار سال سے وہ ایک کال گرل کے طور پر کام کر رہی تھی۔ وہ کہاں بھیجی جاتی تھی اسے لے جانے والا کون ہوتا تھا، ملنے والا معاوضہ کتنا ہوتا تھا، اسے کسی چیز سے بھی کوئی دلچسپی نہیں رہی تھی۔ ہر چہرہ ایک جیسا چہرہ ہوتا تھا۔ ہر چہرہ مظہر کا چہرہ ہوتا تھا اور وہ یہ طے نہیں کر پاتی تھی کہ اسے اس سے محبت کرنی چاہیے یا نفرت… وہ واحد چیز جو اس نے اس پورے عرصے کے درمیان سیکھی تھی۔
”میں دوبارہ کبھی کسی شخص پر اعتبار نہیں کروں گی۔ اور محبت تو کبھی بھی نہیں۔” اس رات مظہر کا خیال آنے اور پھر اس احساس نے کہ وہی وہ شخص ہے جس نے اسے دھوکا دیا۔ کیتھرین کو زندگی میں صرف ایک سبق دیا تھا۔ اس رات کے بعد سب کچھ بدل گیا تھا۔ اسے لیسٹر بھیج دیا گیا تھا، اس کے ساتھ کچھ اور بھی لڑکیاں تھیں۔ اس کے لیے اپائنٹمنٹس کون طے کرتا تھا وہ نہیں جانتی تھی۔ معاوضہ کی ادائیگی بھی اسے نہیں کی جاتی تھی۔ لیکن اسے ایک اچھا اپارٹمنٹ دے دیا گیا تھا اور ہر اپائنٹمنٹ کی کچھ رقم بھی۔ وہ اس پیسوں کو جیسے چاہے خرچ کر سکتی تھی۔ جہاں چاہے گھومنے کے لیے جا سکتی تھی۔ مگر وہ جانتی تھی وہ آزاد نہیں تھی، اس پر چیک رکھا جاتا تھا اور جس دن وہ مستقل طور پر وہاں سے بھاگ جانے کی کوشش کرے گی اس دن ایک بار پھر اس کے پر کاٹ دیے جائیں گے… اس نے کبھی بھاگنے کی کوشش نہیں کی۔ اسنے کبھی پولیس کو اطلاع دینے کی بھی کوشش نہیں کی۔ اس نے ہر چیز کے ساتھ سمجھوتا کر لیا تھا۔ وقت کے ساتھ، حالات کے ساتھ… اور اپنی قسمت کے ساتھ۔
اس دن اسے جوزفین نے فون کیا تھا۔ وہ بھی ان کال گرلز میں سے ایک تھی جو اس کے ساتھ لندن سے لائی گئی تھیں۔
”کیتھی! میں جوزفین بول رہی ہوں۔ تم دس منٹ کے اندر اندر اپنا اپارٹمنٹ چھوڑ دو اور میرے بتائے ہوئے ایڈریس پر آ جاؤ۔” اس نے تیز آواز میں ایک ایڈریس اسے بتایا۔
”مگر کیوں؟ کیا بات ہے؟”
”تمہارے اپارٹمنٹ پر کسی بھی وقت پولیس ریڈ کر سکتی ہے۔ باقی باتیں ملنے پر کریں گے۔” فون منقطع ہو گیا۔ کیتھرین نے حیرانی سے ریسیور کو دیکھا ”ریڈ؟” پچھلے چار سال میں ایک بار بھی اسے ایسی صورت حال کا سامنا نہیں کرنا پڑا تھا اور اب… برق رفتاری کے ساتھ اس نے اپنے اپارٹمنٹ سے کچھ ضروری چیزیں اور تمام رقم لے لی اور اپارٹمنٹ چھوڑ دیا۔
بیس منٹ کے بعد وہ جوزفین کے اپارٹمنٹ پر تھی۔ جوزفین بے حد خوش نظر آ رہی تھی۔
”کیا تم جانتی ہو کیتھرین! ہم آزاد ہو چکے ہیں۔” اس نے کیتھرین کو اپنے اپارٹمنٹ کے اندر لے جاتے ہی کہا۔
”مطلب؟” وہ اس کی بات نہیں سمجھی۔





”رچرڈ نے مجھے بتایا ہے کہ فرینک قتل ہو گیا ہے اور گروپ کے ممبرز میں اختلافات بڑھ گئے ہیں۔ ان میں سے کسی نے پولیس کو اطلاع دے دی اور اب پولیس کسی بھی وقت ان تمام جگہوں پر ریڈ کر سکتی ہے جہاں ہم لوگ رہ رہے ہیں۔ رچرڈ نے کچھ دیر پہلے ہی مجھے یہاں منتقل کیا ہے۔ وہ بتا رہا تھا کہ اس افراتفری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے جو لوگ بھی نکل جائیں گے وہ بچنے میں کامیاب ہو جائیں گے تم خوش نہیں ہو؟” جوزفین کو اچانک اس کے بے تاثر چہرے کا احساس ہوا۔
”اگر کچھ دنوں کے بعد ہمیں پھر ڈھونڈ لیا گیا تو؟” اس نے جوزفین سے پوچھا۔
اس کا کوئی امکان نہیں ہے۔ گروپ ختم ہو جائے گا کیونکہ اسکاٹ لینڈ یارڈ کا وہ سراغ رساں جو آزمائشی طور پر رہا ہونے والی یا پوچھ گچھ کے لیے لے جانے والی نوجوان جرائم پیشہ لڑکیوں کے بارے میں فرینک کو اطلاعات فراہم کرتا تھا وہ بھی پکڑا جا چکا ہے اور ظاہر ہے وہ فرینک اور اس کے ساتھیوں کے بارے میں پولیس کو سب کچھ بتا دے گا۔ سب لوگ پکڑے نہ بھی گئے تو بھی یہ ریکٹ چلانا ان کے لیے ممکن نہیں رہے گا۔ تمہیں کیا ہوا؟” کیتھرین خوف اور بے یقینی کے عالم میں اسے دیکھ رہی تھی۔
”اسکاٹ لینڈ یارڈ کے سراغ رساں نے فرینک کو ہمارے بارے میں بتایا؟”
ہاں رچرڈ بتا رہا تھا، پارٹنر شپ تھی اس کی فرینک کے ساتھ… لندن میں رہنے والی لڑکیوں کو ٹارگٹ بناتے تھے یہ لوگ۔ وہ بھی ایسی لڑکیاں جن کی فیملیز نہیں تھیں یا جو جرائم کے سلسلے میں پولیس ہیڈ کوارٹرز لائی جاتیں اور پھر چھوڑ دی جاتیں۔ کیتھرین نے اور کچھ نہیں پوچھا۔
”تو یہ مظہر نہیں تھا۔ چار سال سے میں یہ سمجھ رہی ہوں کہ یہ سب کچھ اس نے کیا ہے مگر مجھے یہ خیال کیوں آیا کہ مظہر میرے ساتھ یہ سب کچھ کر سکتا ہے اور وہ جب واپس آیا ہوگا تو اسے میں نہیں ملی ہوں گی پھر وہ اس عمارت میں گیا ہوگا اور… اسے میرے بارے میں سب کچھ پتا چل گیا ہوگا، تب اس نے کیا کیا ہوگا؟ کیا سوچا ہوگا؟”
”جب تم مسلمان ہو جاؤ گی تو میں تمہارا نام خدیجہ نور رکھوں گا۔ یہ نام مجھے بہت پسند ہے…” ایک آواز اس کے گرد بھنور بن کر لہرائی اور اسے اپنا پورا وجود موم کی طرح پگھلتا محسوس ہوا۔ جوزفین اندازہ نہیں کر سکی کہ وہ کیوں یک دم پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی تھی… وہ کبھی اندازہ نہیں کر سکتی تھی۔
—–*—–
اور اب وہ لندن واپس جا رہی تھی۔
”مجھے واپس وہیں جانا ہے میں اس شہر میں نہیں رہ سکتی۔ چند ہفتے وہاں رہوں گی پھر دیکھوں گی مجھے کیا کرنا ہے۔” جوزفین کے روکنے پر اس نے کہا تھا ”پچھلے چار سال میں وہ ایک بار بھی لندن نہیں آئی تھی۔ لیسٹر سے برمنگھم، برمنگھم سے بریڈفورڈ اور بریڈفورڈ سے کیمبرج وہ مختلف لوگوں کے ساتھ ان چاروں جگہوں پر جا چکی تھی مگر اسے لندن کبھی نہیں بھیجا گیا۔”
ٹرین ایک بار پھر چلنے لگی۔ کیتھرین نے چونک کر آنکھیں کھول دیں۔ کھڑکیوں کے شیشے اب پہلے سے زیادہ دھندلے ہو گئے تھے۔ ”زندگی سے زیادہ دھندلی چیز کیا ہو سکتی ہے؟” اس نے دوبارہ آنکھیں بند کر لیں۔
لندن میں سب کچھ بدل گیا تھا۔ وہ جانتی تھی ایسا صرف اسے محسوس ہو رہا تھا۔ ورنہ شاید باقی سب لوگوں کے لیے لندن پہلے جیسا ہی تھا۔
اس نے ایک سستے ہوٹل میں رہائش اختیار کی اور پھر چند دنوں کے بعد ایک بوڑھی عورت کے ہاں پے انگ گیسٹ کے طور پر رہنے لگی۔ مزید کچھ دنوں کے بعد اس نے ایک فیکٹری میں اپنے لیے کام تلاش کر لیا تھا۔ چند ہفتوں بعد اس نے وہ کام چھوڑ کر ایک بار پھر سے اس نے ایک اسٹور میں کام کرنا شروع کر دیا۔ ایک بار پھر سے اسلامک سینٹر جانا شروع کر دیا اور اس بار اس نے اسلام قبول کر لیا تھا۔
وہ جیسے زندگی کو ایک بار پھر نئے سرے سے شروع کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔ صرف ایک انکشاف نے اسے جیسے ایک بار پھر اپنے پیروں پر کھڑا کر دیا تھا۔
”تو یہ مظہر نہیں تھا جس نے مجھے دھوکا دیا۔ اس نے واقعی مجھ سے محبت کی تھی۔ کم از کم اس شخص کا چہرہ پہچاننے میں میں نے کوئی غلطی نہیں کی تھی۔”
وہ سوچتی اور اسے اپنا ملال کم ہوتا محسوس ہوتا۔
—–*—–
وہ خود کو بے حد ہلکا محسوس کر رہی تھی۔ پرندے کے کسی پر کی طرح… ہوا کے کسی جھونکے کی طرح… پھول کی کسی پتی کی طرح۔ اس کے اردگرد مکمل خاموشی تھی۔ ستاروں کی مدھم روشنی… مکمل روشنی… خوشبودار ہوا کے جھونکے… پیروں کے نیچے فرش کی ٹھنڈک… اسے لگا وہ جنت میں ہے۔
—–*—–
ذالعید کو اسی شام مریم کا پیغام مل گیا۔ اسے توقع تھی کہ وہ ناخوش نہیں ہوگی۔
وہ دوسرے دن کالج اس سے ملنے گیا۔ وہاں جا کر اسے پتہ چلا کہ وہ کالج سے بہت جلدی چلی گئی تھی۔ وہ کچھ دیر سوچتا رہا اور پھر ہوٹل کے اس ڈرائیور کے ساتھ اس کے گھر چلا گیا۔ دروازے پر دستک دینے پر چادر میں لپٹی ہوئی جو عورت باہر آئی تھی۔ اسے دیکھ کر ذالعید کچھ حیران ہوا۔ اردو بولنے کے باوجود پہلی نظر میں یہ جان گیا تھا کہ وہ پاکستانی نہیں ہے۔
”میں اُمّ مریم سے ملنا چاہتا ہوں۔ ان کے کالج گیا تھا، مگر وہاں نہیں ہیں میں نے سوچا، وہ گھر پر ہوں گی۔”
”وہ ابھی گھر واپس نہیں آئی، ہو سکتا ہے کالج سے کہیں چلی گئی ہو۔” اس عورت نے مسکراتے ہوئے کہا۔
”اگر آپ اجازت دیں تو میں اندر آ کر ان کا انتظار کر لوں۔ میرا نام ذالعید اوّاب ہے۔”
”ذالعید نے کچھ جھجکتے ہوئے اپنا تعارف کروایا۔ اس نے اس عورت کو بے اختیار ایک قدم پیچھے ہٹتے دیکھا۔ وہ ایک ٹک اسے دیکھ رہی تھی۔ ذالعید کو اس کے تاثرات بہت عجیب لگے۔ وہ نروس ہو گیا۔
”میں بعد میں آ جاؤں گا۔” اس نے کچھ معذرت خواہانہ انداز میں کہا۔
”نہیں… نہیں، آپ آ جائیں” اس نے دروازہ کھولتے ہوئے کہا۔
ذالعید نے کچھ جھجکتے ہوئے اندر پاؤں رکھا۔ اس عورت نے دروازہ بند کر دیا اور اس کے آگے چلنے لگی۔
”آپ مریم کی امی ہیں؟” ذالعید نے اس عورت کے پیچھے چلتے ہوئے پوچھا۔
اس عورت نے پلٹ کر اسے دیکھا اور مسکرائی۔ ”ہاں!”
ذالعید نے کمرے میں جاتے ہی وہ دونوں پینٹنگز وہاں دیکھ لیں۔ وہاں ان کے علاوہ بھی کچھ مکمل اور ادھوری پینٹنگز پڑی تھیں۔ کمرے کی ایک پوری دیوار مختلف پینٹنگز سے ڈھکی ہوئی تھی۔ ماما جان اسے کمرے میں بٹھا کر باہر نکل گئیں۔ وہ کرسی پر بیٹھا کمرے میں اِدھر اُدھر نظریں دوڑاتا رہا۔
ماما جان کچھ دیر بعد واپس آ گئیں۔
”آپ پاکستانی نہیں ہیں؟” اس نے پوچھا۔
”نہیں میں انگریز ہوں… بہت سال پہلے میں نے اسلام قبول کر لیا۔ پھر میں پاکستان آ گئی۔”
وہ ان کا چہرہ دیکھنے لگا۔ ”کتنے سال سے آپ یہاں ہیں؟”
”بیس سال سے۔”
”بہت لمبا عرصہ ہے۔”
ماما جان کچھ کہنے کے بجائے صرف مسکرا دیں۔
”میری ماں بھی انگلش تھیں… پاپا کی علیحدگی ہو گئی ان سے۔” ذالعید نے کچھ دیر بعد نارمل سے انداز میں بتایا۔
”کیوں؟”
”پتا نہیں، اس موضوع پر کبھی بات نہیں ہوئی پاپا سے… انڈر اسٹینڈنگ نہیں تھی۔ دونوں کے درمیان… آپ کے شوہر کہاں ہیں؟” اس نے کندھے اچکاتے ہوئے ماما جان کو اپنے بارے میں بتایا اور پھر سوال کیا۔
”ان کا انتقال ہو چکا ہے۔ مریم تب چودہ سال کی تھی۔”
”مریم کے کوئی اور بہن بھائی نہیں ہیں؟”
”نہیں!” ذالعید سر ہلانے لگا۔
”وہ بہت اچھی آرٹسٹ ہے۔” اس نے کچھ دیر بعد ماما جان سے کہا۔
”ہاں! وہ بہت اچھی آرٹسٹ ہے۔” ماما جان اٹھ کر باہر چلی گئیں۔
کچھ دیر بعد وہ ذالعید کے لیے چائے کے ساتھ کچھ کھانے پینے کی چیزیں لے آئیں۔ ذالعید نے انکار کیا مگر ماما جان کے اصرار پر وہ چائے پینے لگا۔
مریم جس وقت گھر آئی، اس وقت تقریباً شام ہو چکی تھی۔ ماما جان نے دروازے پر ہی اسے ذالعید کے بارے میں بتا دیا۔ اسے حیرت کا جھٹکا لگا۔ وہ توقع نہیں کر سکتی تھی کہ ذالعید اس کے گھر آ جائے گا۔
وہ اندر کمرے میں آئی تو وہ اسے دیکھ کر کھڑا ہو گیا۔ مریم کی سمجھ میں نہیں آیا وہ اس سے کیا بات کرے۔
”اتنا انتظار تو نہیں جتنا میں نے آپ کو کروایا تھا، بہرحال آج میں نے آپ کا خاصا انتظار کیا ہے اور میں سمجھتا ہوں، اب حساب برابر ہو گیا ہے۔”
وہ مسکرا دی، اسے ذالعید کا یوں اپنے سامنے، اپنے گھر میں کھڑا ہونا ایک خواب سا لگا۔
”آپ کو یہ پینٹنگز کہاں سے ملیں؟” ”میں نے انہیں کہیں سے لیا ہے۔” ”آپ انہیں فریم کروا چکے ہیں۔ میں چاہتی ہوں یہ آپ رکھیں۔”
”مگر یہ آپ کے لیے میرا تحفہ ہے۔”
”تھینک یو، مگر آپ انہیں زیادہ اچھی طرح سے رکھ سکتے ہیں۔” ذالعید کو اس کی بات پر بے اختیار خوشی ہوئی۔
اس کے جانے کے بعد مریم نے ماما جان سے پوچھا۔ ”آپ کو ذالعید اچھا لگا؟”
”ہاں! وہ اچھا ہے۔” مریم کو ماما جان کا لہجہ بہت عجیب لگا۔
”کیا یہ ہو سکتا ہے ماما جان کہ یہ شخص میرے علاوہ کسی اور سے محبت نہ کرے… کیا یہ ہو سکتا ہے کہ میں ہاتھ بڑھاؤں اور یہ میرا ہو جائے۔” اس نے بے قراری سے کہا۔
ماما جان بہت خاموشی سے اسے دیکھتی رہیں۔
”اس کی زندگی میں ایک لڑکی ہے صوفیہ… یہ اس سے محبت کرتا ہے… میں سوچ رہی ہوں ماما جان! یہ یہاں کیوں آیا ہے۔” اس کی باتیں بہت بے ربط تھیں۔
رات کے پچھلے پہر کروٹ لیتے ہوئے مریم کی آنکھ کھلی۔ اس نے ماما جان کو جائے نماز پر بیٹھے ہوئے دیکھا۔ وہ چند لمحے غنودگی کے عالم میں انہیں دیکھتی رہی پھر اس نے کروٹ بدل لی۔
—–*—–




Loading

Read Previous

لاحاصل — قسط نمبر ۱

Read Next

لاحاصل — قسط نمبر ۳ (آخری قسط)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!