لاحاصل — قسط نمبر ۲

خدیجہ کے ذہن میں ایک جھماکا ہوا۔ ”وہ کیا کہہ رہا تھا؟ کیا وہ میرے بارے میں واقعی کچھ نہیں جانتا۔ یہ کیسے ممکن ہے؟ اسے اس عمارت کا پتا تھا تو پھر اس کے لیے میری جگہ ڈھونڈنا کیا مشکل تھا اور ایک بار یہ میرے فلیٹ تک پہنچتا تو اسے سب کچھ پتا چل جاتا… مگر یہ کہہ رہا ہے کہ…”
وہ پلکیں جھپکائے بغیر اس کا چہرہ دیکھتی رہی۔
”کم از کم تین چار ماہ تو تمہیں میرا انتظار کرنا چاہیے تھا۔ اتنے عرصے کا تو میں تمہیں بتا کر گیا تھا۔ تین چار ماہ کے بعد بھی جب میں نہ آتا تو تم میرے لیے کوئی پیغام چھوڑ کر جا سکتی تھیں میرے کچھ دوستوں سے تم واقف ہو، تم ان سے میرے متعلق پوچھ سکتی تھیں یا اپنے جانے کے بارے میں بتا سکتی تھیں۔”
”مظہر! تم میرے فلیٹ پر گئے تھے؟” خدیجہ نے اپنی آواز پر قابو پانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔
”ہاں! پاکستان سے آتے ہی میں وہاں گیا تھا۔ کیا تم یقین کرو گی کہ میں ایئرپورٹ سے سیدھا اس عمارت میں گیا تھا۔ پھر مجھے یاد آیا کہ میرے پاس تمہارا پورا ایڈریس نہیں ہے۔ لیکن میں نے سوچا میں اس عمارت میں تمہاری رہائش گاہ ڈھونڈ لوں گا لیکن میں ڈھونڈ نہیں پایا۔ ایک ایک دروازے پر دستک دے کر میں نے تمہارا نام اور حلیہ بتا کر تمہارے بارے میں پوچھا۔ کچھ پتا نہیں چلا… میں وہاں سے اس اسٹور میں گیا جہاں تم کام کرتی تھیں تب تک اسٹور بند ہو چکا تھا۔ ساری رات میں ایک لمحے کے لیے نہیں سو سکا… پاکستان سے واپسی میں مجھے تین چار ماہ کے بجائے چھ ماہ لگ گئے تھے اور اس رات مجھے خوف محسوس ہو رہا تھا کہ تم نے یہ سوچا ہوگا کہ میں بھی تمہارے باپ کی طرح تمہیں چھوڑ گیا… اور پتا نہیں تم کہاں ہوگی۔ اگلے دن اسٹور سے پتا چلا کہ تم چار ماہ پہلے بغیر بتائے جاب چھوڑ چکی ہو۔ ان سے میں نے تمہارا پورا ایڈریس لیا۔ وہ اسی عمارت کے ایک فلیٹ کا تھا مگر تب اس فلیٹ میں کوئی اور رہ رہا تھا اور وہ تمہارے بارے میں کچھ نہیں جانتا تھا۔ پھر میں نے آس پاس کے فلیٹس سے تمہارا پتا لگانے کی کوشش کی۔ وہاں رہنے والے بھی حال ہی میں آئے تھے۔ اس کے بعد میں اس عمارت کے مالک سے ملا۔ اس نے بتایا کہ تم چار ماہ پہلے بغیر بتائے وہ جگہ چھوڑ گئی تھیں… اس کے پاس تمہارا کوئی اتا پتا نہیں تھا۔ اس کے بعد اگلے تین ماہ میں نے اس علاقے کی ہر عمارت کو چھان مارا۔ حتیٰ کہ اس بار میں بھی گیا جہاں تم بارمیڈ کے طور پر کام کرتی رہی تھیں۔”
خدیجہ کا سانس رک گیا۔ ”اب وہ آگے کیا کہے گا؟”
”وہاں سے بھی تمہارے بارے میں کچھ پتا نہیں چلا۔” خدیجہ نے لمحے بھر کے لیے آنکھیں بند کرلیں۔





”ہر وہ جگہ جہاں تمہارے کام کرنے یا رہنے کا امکان ہو سکتا تھا۔ میں وہاں گیا… مگر تم کہیں نہیں تھیں پھر مجھے خیال آیا کہ تم میرے جانے کے دو ماہ بعد ہی وہاں سے چلی گئیں، ہو سکتا ہے اس عرصہ میں تمہیں کوئی دوسرا شخص مل گیا ہو… یہ بھی ممکن تھا کہ تم مجھ سے شادی کرنا ہی نہیں چاہتی تھیں، اسی لیے تم وہاں سے چلی گئیں… مگر یہ سب قیاس تھے پچھلے چار سال سے اندازے لگانے کے علاوہ میں اور کچھ نہیں کر رہا اور چار دن پہلے تمہیں اس اسٹور کے کاؤنٹر کے دوسری طرف کھڑا دیکھ کر میرا دل چاہا تھا۔ میں تمہیں شوٹ کر دوں۔ ایک شہر میں رہتے ہوئے یہ کیسے ہوا کہ میں تمہیں ڈھونڈ نہیں پایا اور تم… تم نے مجھ سے رابطہ نہیں کیا۔ وہاں سے نکلتے ہوئے میں نے یہ طے کیا تھا کہ اب میں دوبارہ اسٹور میں نہیں جاؤں گا نہ ہی تم سے رابطہ کروں گا۔ چار سال بے وقوف بننے کے لیے کافی ہوتے ہیں۔ میں نے سوچا تھا کہ میں واپس پاکستان چلا جاتا ہوں اور وہاں دوبارہ اپنی زندگی شروع کروں گا۔ شادی کروں گا، اور اطمینان سے زندگی گزاروں گا لیکن پچھلے چار دن سے تمہارا چہرہ میری آنکھوں کے سامنے ایک لمحے کے لیے بھی ہٹ نہیں سکا۔”
اس کا لہجہ اب شکست خوردہ تھا۔ وہ کسی بت کی طرح ساکت بیٹھی اندھیرے میں ونڈ اسکرین سے باہر دیکھ رہی تھی۔ ”کیا اس سے بڑا معجزہ کوئی ہو سکتا ہے کہ یہ شخص میرے بارے میں پوری کوشش کے باوجود اس طرح لاعلم ہو۔”
”اب تم بتاؤ! تم نے یہ سب کچھ کیوں کیا؟”
وہ اس کا چہرہ دیکھنے لگی۔ ”نہیں! میں اسے کبھی یہ نہیں بتا سکتی کہ میں پچھلے چار سال سے… اگر یہ کچھ نہیں جانتا تو بہتر ہے، یہ کچھ نہ جانے۔”
”کیتھرین! میں تم سے کچھ پوچھ رہا ہوں؟” وہ چونک گئی۔
”میں لندن سے چلی گئی تھی۔” اس نے ایک طویل خاموشی کے بعد پہلا جملہ بولا۔
”کیوں؟”
”پتا نہیں کیوں؟’و اس نے مظہر کے چہرے سے نظریں ہٹا لیں وہ اس سے نظریں ملا کر جھوٹ کبھی نہیں بول سکتی تھی۔
”میں لیسٹر میں تھی… میرا خیال تھا۔ تم کبھی واپس نہیں آؤ گے۔ اس لیے مجھے تمہارا انتظار نہیں کرنا چاہیے۔”
”کیتھرین!” وہ حلق کے بل چلایا۔ ”میں نے تم سے شادی کا وعدہ کیا تھا۔ تم نے سوچا، میں شادی کا وعدہ کر کے بھاگ گیا۔ میں پٹھان ہوں، ہم لوگ کسی سے وعدہ نہیں کرتے اور کر لیں تو پھر جان تو جا سکتی ہے مگر عہد نہیں ٹوٹ سکتا اور تم نے سوچا کہ…”
وہ ونڈاسکرین سے باہر دیکھتی رہی۔ اسے شرم آنے لگی تھی۔ ”یہ شخص مجھے کیا سمجھ رہا ہے اور میں…”
”تمہیں علم نہیں ہے، تمہارے لیے میں کیا چھوڑ کر آیا تھا۔ ہم لوگوں کی فیملی میں رواج ہی نہیں ہے۔ کہیں باہر شادی کرنے کا… اور کسی انگریز لڑکی سے شادی کا تو صرف خواب ہی دیکھا جا سکتا ہے۔ اس کے باوجود میں نے اس گراؤنڈ میں جب پہلی بار تمہیں سیڑھیوں میں بیٹھے دیکھا تھا تو میں نے سوچ لیا تھا کہ میں اگر کبھی کسی سے شادی کروں گا تو وہ یہ لڑکی ہوگی اور میں اس وقت یہ بات اچھی طرح جانتا تھا کہ یہ کتنا مشکل ہوگا۔ میرا باپ اپنے قبیلے کا سردار ہے اگرچہ وہ بیرونِ ملک سے تعلیم یافتہ ہے اور اب ایک عرصہ سے شہر میں رہائش پذیر ہے لیکن قبیلے کی روایات پرعمل کرنا اب بھی ہم اپنا ایمان سمجھتے ہیں اور جرگہ کبھی سردار کی اولاد کو اس طرح غیر ملکی عورت سے شادی کرنے کی اجازت نہیں دے گا… مگر میں جب اپنی بات نہیں منوا سکا تو پھر سب کچھ چھوڑ آیا۔ اس بات کی پروا کیے بغیر کہ دوبارہ اپنے خاندان کے ساتھ ملنا میرے لیے ممکن نہیں ہوگا اور صرف مجھے ہی نہیں بلکہ میری اولاد کو بھی رد کر دیا جائے گا۔ میں نے سوچا تھا، مجھے ڈگری ملنے والی ہے۔ تعلیم مکمل ہو چکی ہے۔ میں بہت آرام سے تمہارے ساتھ زندگی گزار سکتا ہوں، اور جب میں اپنی ساری کشتیاں جلا کر یہاں آیا تو تم وہاں سے غائب تھیں۔ میں نہ ادھر کا رہا نہ ادھر کا کیا تم اس تکلیف کا اندازہ کر سکتی ہو جس کا سامنا میں نے کیا۔ کیا میں تمہیں شکل سے جھوٹا لگتا ہوں؟ تم میری طرف دیکھو۔”
اس نے خدیجہ کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر زبردستی اس کا رخ اپنی طرف موڑا۔
”کیا میں شکل سے جھوٹا لگتا ہوں؟… لگتا ہوں؟”
خدیجہ نے نفی میں سر ہلایا۔
”تو پھر… پھر اس طرح بھاگ جانے کی وجہ کیا تھی؟”
”آپ نے آٹھ ماہ کے دوران کبھی شادی کی بات نہیں کی۔”
”جانے سے پہلے میں نے تمہیں پرپوز کیا تھا۔”
”ہاں۔ مگر اس سے پہلے کبھی بھی آپ نے اس سلسلے میں کوئی بات نہیں کی… کبھی کسی جذبے کا اظہار تک نہیں کیا… میں نے سوچا شاید وہ ایک وقتی بات تھی اور پھر…”
مظہر نے اسے اپنی بات مکمل کرنے نہیں دی۔ ”کیا بات کر رہی ہو تم کیتھرین؟… آٹھ ماہ میں تمہارے ساتھ پھرتا رہا… میں نے تمہیں اپنے ملک کے بارے میں ایک ایک چیز بتا دی… اپنے کلچر کے بارے میں سب کچھ بتایا۔ اپنے مذہب کے بارے میں تمہیں مسلسل گائیڈ کرتا رہا۔ اپنی ہر عادت، ہر خوبی، ہر خامی کے بارے میں بتا دیا۔ مستقبل میں کیا کیا کرنا چاہ رہا تھا، وہ تک بتایا… لندن میں اپنے ہر دوست سے تمہیں ملوایا۔ میری ہر شام تمہارے ساتھ گزرتی رہی۔ تمہارے ایک فون پر میں بے وقوفوں کی طرح حاضر ہو جاتا تھا۔ تو یہ کیا تھا؟… میں کیا سوشل ورک کر رہا تھا یا گائیڈ کے فرائض سرانجام دے رہا تھا، عورت کی حسیات اتنی شارپ تو ضرور ہوتی ہیں کہ وہ یہ سمجھ جائے کہ کون سا مرد اس میں دلچسپی لے رہا ہے اور کیوں؟… اور تم کہہ رہی ہو، میں نے کبھی شادی کی بات نہیں کی… کیا یہ سب کچھ قابل یقین ہے؟” وہ بلند آواز میں تیز سانسوں کے درمیان بولتا رہا اور پھر یک دم خاموش ہو گیا۔
”آئی ایم سوری۔” ایک طویل خاموشی کے بعد خدیجہ نے کہا۔
مظہر نے کچھ کہے بغیر گاڑی اسٹارٹ کر دی۔ ”کہاں رہتی ہو تم؟”
خدیجہ نے اپنا ایڈریس بتایا۔ وہ خاموشی سے گاڑی ڈرائیو کرتا رہا۔
جس وقت اس نے خدیجہ کے گھر کے سامنے گاڑی روکی۔ اس وقت ساڑھے دس بجے رہے تھے۔ وہ دونوں کچھ دیر خاموشی سے گاڑی میں بیٹھے رہے پھر خدیجہ نے مظہر کو بولتے سنا۔
”مرد کو محبت کبھی نہیں کرنی چاہیے۔” وہ ونڈاسکرین سے باہر دیکھتے ہوئے مایوسی سے سر جھٹکتے ہوئے کہہ رہا تھا۔ ”خاص طور پر کسی عورت سے تو کبھی بھی نہیں… بہت خوار کرنے والی چیز ہے یہ… ساری عزت نفس ختم کر دیتی ہے۔ اچھا بھلا زندگی گزار رہا تھا میں اور… دوبارہ اگر میں پیدا ہوا تو میں کسی سے محبت کبھی نہیں کروں گا اور کسی بے وقوف عورت سے تو کبھی بھی نہیں… بس ماں باپ کی مرضی سے کسی بھی عورت سے شادی کر لوں گا اور سکون سے زندگی گزار دوں گا۔ بیوی میرے نخرے برداشت کرے گی۔ میں اس کے نہیں۔ وہ کبھی میرے لیے کوئی پریشانی کھڑی نہیں کرے گی۔ موم کی ناک کی طرح جس طرف موڑوں گا مڑ جائے گی۔ کبھی ایموشنل بلیک میلنگ تک نہیں کرے گی۔ ایسی عورتیں ضد تک نہیں کرتیں۔ کرے گی تو بھی میں کون سی پروا کروں گا۔ خود ہی ضد چھوڑ دے گی۔”
وہ مسلسل ناراضگی کے عالم میں بڑبڑا رہا تھا۔ خدیجہ نے ایک نظر اسے دیکھا اور پھر دروازے کے ہینڈل پر ہاتھ رکھ دیا۔
”مگر اب جب مجھے تم سے محبت ہو چکی ہے تو میں اس زندگی میں تو کم از کم کسی دوسری عورت سے شادی کرنے کے قابل نہیں رہا۔”
اس بار اس کی آواز میں شکست خوردگی تھی۔ خدیجہ نے مڑ کر اس کی طرف دیکھے بغیر دروازہ کھول دیا۔
”کیتھرین! میں تم سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔” خدیجہ نے برق رفتاری سے پلٹ کر اسے دیکھا۔ وہ اس سے کہنا چاہتی تھی کہ وہ اس سے شادی نہیں کرنا چاہتی۔ وہ اس سے شادی کے قابل نہیں ہے کم از کم اب نہیں۔ مگر وہ ایسا کچھ بھی نہیں کہہ پائی۔
”مجھے سوچنے کے لیے کچھ وقت چاہیے۔” اس نے صرف اتنا کہا۔
”اب بھی وقت چاہیے؟ کیوں؟ اب کیوں؟” وہ چلا اٹھا۔ ”اب تو تمہیں میرے بارے میں کوئی شبہ نہیں ہونا چاہیے۔”
”مظہر! مجھے وقت چاہیے۔ کم از کم ایک دن تو۔”
”اس وقت رات کے سوا دس ہو رہے ہیں یعنی میں کل اسی وقت جواب لینے آ جاؤں؟”
اس نے اپنی گھڑی پر نظر دوڑاتے ہوئے بے تابی سے کہا۔ وہ مسکرا تک نہیں سکی۔ خاموشی سے گاڑی سے اتر گئی۔
—–*—–
اس نے اپنے چہرے پر پانی کی چند بوندیں گرتی محسوس کیں۔ پھر بوندیں بڑھتی گئیں۔ اس نے سر اٹھا کر آسمان کی طرف دیکھا۔ آسمان سے بے آواز ہلکی ہلکی پھوار برس رہی تھی اور ستاروں کی مدہم روشنی میں وہ اس پھوار کو دیکھ سکتی تھی۔ آسمان اب بھی اسی طرح صاف اور اجلا تھا۔ کہیں پر بادل کا کوئی ٹکڑا نظر نہیں آ رہا تھا۔ مگر بارش پھر بھی برس رہی تھی۔ ہولے ہولے، بے آواز، نرم پھوار کی صورت میں اور ہوا کی نمی نے ہوا میں موجود خوشبو کو کچھ اور تیز کر دیا تھا۔ پھوار اس کے چہرے، بالوں، لباس اور وجود کو سہلاتے ہوئے بھگو رہی تھی۔ اس نے آنکھیں بند کر کے اپنے دونوں بازو ہوا میں پھیلا دیے۔ ہاتھ کی ہتھیلیوں پر گرتی ہوئی پھوار کو اس نے آنکھیں بند کیے محسوس کیا۔ پیروں کے نیچے مخملیں فرش کی ملائمت کو پانی نے بڑھا دیا تھا۔
اس نے آنکھیں بند کیے دونوں ہاتھ فضا میں پھیلائے اور چہرہ آسمان کی طرف کر کے برستی ہوئی پھوار میں اس فرش پر آہستہ آہستہ چکر کاٹنے لگی، کسی بیلے ڈانسر کی طرح۔ اس کی مستی اور سر شادی میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔
—–*—–
ذالعید چند دن بعد گھر پر آیا۔ مریم گھر پر نہیں تھی۔
”میری ممی کل آپ کے پاس آئیں گی، میرے اور مریم کے بارے میں بات کرنے کے لیے۔” اس نے خاصے مسرور انداز میں ماما جان کو بتایا۔
ان کے چہرے پر مسکراہٹ نمودار ہوئی۔
”اس کا مطلب ہے، تمہاری فیملی رضامند ہو گئی ہے۔”
”ہاں! آپ مریم کو بھی بتا دیجئے۔” اس نے کہا۔
دوسرے دن نزہت ذالعید کے ساتھ ان کے پاس آئیں۔ صوفیہ نے نزہت کو مریم کے بارے میں اچھے ریمارکس نہیں دیے تھے اور فطری طور پر انہیں بھی ذالعید اور صوفیہ کا رشتہ نہ ہونے پر مایوسی ہوئی تھی لیکن اس کے باوجود انہوں نے ماما جان کو اپنے ہاں آنے کی دعوت دی مگر انہوں نے انکار کر دیا۔
”میں ذالعید سے بہت بار مل چکی ہوں اور مجھے وہ پسند ہے، پھر بہتر ہے ہم رسمی قسم کے تکلفات میں نہ پڑیں۔ میں چاہتی ہوں، ہم لوگ آج ہی شادی کی تاریخ طے کر لیں۔”
نزہت کو اس پر کوئی اعتراض نہیں تھا۔ ان لوگوں نے ایک ماہ بعد کی تاریخ طے کر دی۔
—–*—–




Loading

Read Previous

لاحاصل — قسط نمبر ۱

Read Next

لاحاصل — قسط نمبر ۳ (آخری قسط)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!