لاحاصل — قسط نمبر ۲

پھر وہ انہیں دسترخوان پر مختلف چیزیں رکھتے دیکھتا رہا۔ دسترخوان پر رکھے جانے والے برتنوں سے اسے یہ اندازہ ہو گیا کہ ماما جان نے کھانے سے اس کے انکار کو کوئی اہمیت نہیں دی۔ دسترخوان پر دو آدمیوں کے لیے برتن رکھے گئے تھے۔
”آؤ ذالعید…” وہ آخر میں چپاتیاں لے کر آئیں۔ وہ کچھ کہے بغیر نیچے زمین پر بیٹھ گیا۔ ماما جان کے دسترخوان سے یہ ذالعید کا پہلا تعارف تھا۔ ان کا کھانا سادہ ہوتا ہوگا۔ اسے اندازہ تھا مگر اتنا سادہ ہوگا یہ اسے اندازہ نہیں تھا۔
چپاتیاں، ہلکے نمک مرچ میں پکے ہوئے سادہ آلو اور دہی میں ڈالا ہوا پودینہ… ذالعید کے لیے ان میں سے کوئی بھی چیز قابل قبول نہیں تھی۔ وہ اس قسم کے کھانے کا عادی نہیں تھا۔ اس وقت بھی دسترخوان کو دیکھ کر وہ عجیب قسم کے احساسات سے دوچار ہو رہا تھا۔
”مریم کو ہر ماہ ماما جان کو کچھ پیسے ضرور دینے چاہئیں۔ ہمیں ان سے اتنی بے خبری اور لاپروائی تو نہیں برتنی چاہیے۔” وہ دسترخوان کو دیکھتے ہوئے سوچ رہا تھا۔
”شروع کرو، ذالعید…” ماما جان نے اس سے کہا۔ ذالعید نے خاموشی سے ایک پلیٹ میں تھوڑے سے آلو نکالے اور چپاتی لے کر کھانے لگا۔ دو لقمے کھانے کے بعد اسے احساس ہوا کہ اسے بھوک لگ رہی ہے۔ چپاتی نرم تھی اور سالن بہت اچھا تھا۔ ماما جان نے اس کی پلیٹ میں کچھ دہی بھی ڈال دیا۔ ذالعید نے یاد کرنے کی کوشش کی پچھلی دفعہ اس نے کب چپاتی کھائی تھی۔ وہ یاد نہیں کر سکا، شاید دو ماہ پہلے، اس نے اندازہ لگایا، مگر اس چپاتی کا ذائقہ ایسا نہیں تھا اس نے اعتراف کیا۔
دوپہر کا کھانا وہ بہت ہلکا پھلکا لیا کرتا تھا۔ سوپ، سلاد، کوئی سینڈوچ یااسی قسم کی دوسری چیز… یہ اس کی عادت تھی اس دن وہاں بیٹھے بیٹھے اس نے تین چپاتیاں کھا لیں مگر اس کے باوجود وہ بہت فریش محسوس کر رہا تھا۔
کھانا کھانے کے بعد اس نے اٹھ کر باہر نلکے کے تازہ پانی سے ہاتھ دھوئے اور واپس اندر چارپائی پر آ کر بیٹھ گیا۔ ماما جان دسترخوان سے برتن سمیٹ رہی تھیں۔
”میں برتن دھو کر آتی ہوں۔” انہوں نے ذالعید سے کہا اور باہر چلی گئیں۔ ذالعید جوتے اتار کر چارپائی پر لیٹ گیا۔
چھت کا گھومتا ہوا پنکھا، نیم تاریک کمرہ اور رات کی بے خوابی… یہ تینوں چیزیں اس کے لیے کسی مسکن دوا کام کر رہی تھیں۔ ماما جان کے کمرے میں آنے کا انتظار کرتا ہوا وہ کب سو گیا۔ اسے احساس نہیں ہوا۔
ماما جان جب کمرے میں داخل ہوئیں تو وہ گہری نیند میں تھا۔ وہ بہت دیر دوسری چارپائی پر بیٹھی اسے دیکھتی رہیں۔ پھر ان کی آنکھوں میں نمی آنے لگی۔
—–*—–





وہ کتنی دیر تک سوتا رہا۔ اسے اندازہ نہیں ہوا۔ قریبی مسجد میں ہونے والی اذان کی آواز نے یک دم اسے بیدار کیا تھا۔ اس نے چونک کر آنکھیں کھول دیں۔ کمرے میں اب مکمل تاریکی تھی مگر برآمدے میں کھلنے والی کھڑکی سے ہلکی ہلکی روشنی اندر آ رہی تھی۔ وہ کچھ دیر تک اندازہ نہیں لگا سکا کہ وہ کہاں ہے۔ پھر اسے یاد آیا کہ وہ دوپہر کو ماما جان کے پاس آیا تھا۔ اس نے ان کے ساتھ کھانا کھایا اور پھر وہ… وہ اٹھ کر بیٹھ گیا۔ اس نے کلائی پر باندھی ہوئی رسٹ واچ کے ریڈیم ڈائل پر نگاہ دوڑائی اور دم بخود ہو گیا۔ گھڑی پونے آٹھ بجا رہی تھی۔ اسے یقین نہیں آیا۔ کیا میں اتنی دیر سوتا رہا؟ مگر کیسے؟ میں تو سلیپنگ پلز لے کر بھی اتنی لمبی نیند نہیں سو پاتا اور پھر دن کے وقت… وہ الجھنے لگا۔
چارپائی سے کھڑے ہو کر اس نے اپنے جوتے پہنے۔ دروازہ بند تھا وہ دروازہ کھول کر باہر برآمدے میں آ گیا۔ برآمدے کا بلب آن تھا اور ماما جان رات کے لیے کھانا پکا رہی تھیں۔ اسے دیکھ کر مسکرائیں۔
”تم اٹھ گئے؟”
”ہاں ،آج بہت سویا… میں کبھی بھی دوپہر کو نہیں سوتا… آپ مجھے جگا دیتیں۔”
”تم اتنی پرُسکون اور گہری نیند سو رہے تھے کہ میں جگا نہیں سکی۔ منہ ہاتھ دھو لو۔”
”میں اب چلوں گا۔”
”نہیں میں نے تمہارے لیے خاص طور پر کھانا پکایا ہے… کھانا کھائے بغیر کیسے جا سکتے ہو تم؟”
”اس کی کوئی ضرورت نہیں تھی… دوپہر کو میں نے اتنا کھا لیا کہ بھوک ہی نہیں ہے۔”
”پھر بھی میں تمہیں اس طرح جانے نہیں دوں گی، جاؤ ہاتھ منہ دھو لو چاول پکنے والے ہیں… بس تھوڑی دیر میں کھانا لگا دیتی ہوں۔”
ذالعید نے اپنی بات پر اصرار نہیں کیا اور صحن میں جا کر ہاتھ دھونے لگا۔ ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی اور صحن میں لگے ہوئے موتیے اور گلاب کے پھولوں کی خوشبو ہر طرف پھیلی ہوئی تھی۔ ذالعید کو عجیب سے سکون کا احساس ہو رہا تھا۔ کل رات کی بے چینی اور دوپہر کا اضطراب یک دم کہیں غائب ہو گیا۔ وہ منہ دھونے کے بعد برآمدے کی سیڑھی میں بیٹھ گیا۔
”آپ اداس نہیں ہو جاتیں؟” اس نے پوچھا… ماما جان اس وقت بلی کے برتن میں دودھ ڈال رہی تھیں۔
”اداس کیوں؟” انہوں نے مسکراتے ہوئے ذالعید سے پوچھا۔
”آپ اکیلی ہوتی ہیں اس لیے۔”
”نہیں اکیلی تو نہیں ہوتی… یہ جانور ہوتے ہیں… پودے ہیں محلے میں سے کوئی نہ کوئی آ جاتا ہے۔ دن کس طرح گزر جاتا ہے پتا بھی نہیں چلتا۔” وہ بلی کو دودھ چاٹتے ہوئے دیکھ کر اس سے کہہ رہی تھیں۔
”پھر بھی مریم یاد تو آتی ہوگی آپ کو؟” ذالعید نے اصرار کیا۔
”ہاں یاد تو آتی ہے… تم بھی یاد آتے ہو ذالعید!” انہوں نے اس طرح کہا کہ ذالعید بے اختیار انہیں دیکھ کر رہ گیا۔ وہ ایک بار پھر بلی کی طرف متوجہ تھیں۔
”آپ ہمارے پاس آ جائیں۔” اس کی بات پر وہ چونک گئیں۔
”تمہارے پاس؟”
”ہاں ہمارے پاس۔”
”نہیں!”
”کیوں؟”
”تمہارے پاس آ کر رہنے سے کیا ہوگا؟” ذالعید کی سمجھ میں نہیں آیا وہ انہیں کیا جواب دے۔
”آپ اکیلی تو نہیں رہیں گی۔”
”وہاں بھی تو میں اکیلی ہوں گی۔ تم دونوں تو سارا دن گھر سے باہر رہتے ہو۔” ذالعید کچھ نہیں بولا۔
—–*—–
ذالعید اور مریم کے درمیان پہلی تلخ کلامی تب ہوئی تھی جب مریم امید سے ہوئی۔ ان دنوں مریم بہت زیادہ مصروف تھی۔ وہ کبھی کراچی جا رہی ہوتی اور کبھی اسلام آباد اور اسے یہ نئی ذمہ داری ایک بڑی مصیبت ہی لگ رہی تھی۔
ذالعید نے ماما جان کو یہ خبر سنائی تھی اور وہ بہت زیادہ خوش ہوئی تھیں مگر اس کے ساتھ ہی انہیں مریم کی فکر ہونے لگی تھی۔
”اسے آرام کرنا چاہیے۔ زیادہ وقت گھر پر گزارنا چاہیے۔” ماما جان نے ذالعید سے کہا۔
”وہ بہت مصروف ہے ماما جان۔”
”اسے اپنی مصروفیت اب کم کر لینی چاہیے۔ گھر اور اولاد سے بڑھ کر تو کچھ بھی نہیں ہوتا۔ تم اس سے کہو کہ اب وہ دوسرے شہروں میں جانا چھوڑ دے، کون خیال رکھے گا دوسرے شہر میں اس کا۔” ماما جان نے اسے ہدایت کی۔
”میں اس سے کہوں گا مگر مشکل ہے کہ وہ میری بات مانے۔”
”تم اس کو اچھے طریقے سے سمجھانا، وہ سمجھ جائے گی۔” ماما جان نے اس سے کہا۔
ذالعید نے مریم سے اس سلسلے میں اسی رات بات کی۔
”تمہارا مطلب ہے اب میں سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر گھر کے اندر بیٹھ جاؤں۔” وہ ناراض ہونے لگی۔
”تھوڑی بہت مصروفیات تو تمہیں کم کر لینی چاہئیں۔”
”ذالعید! تم جانتے ہو میرا کیرئیر کس اسٹیج پر ہے… اب مجھے پہچان اور شناخت ملنے لگی ہے تو میں خود کو گھر میں بند کر لوں۔”
”مریم! بچے کی پیدائش کے بعد تم دوبارہ سے یہ سب کچھ کر سکتی ہو۔ میں تمہیں پینٹ کرنے سے نہیں روک رہا میں صرف یہ چاہتا ہو کہ تم اب اتنی پارٹیز میں مت جایا کرو کم از کم اس سے تمہارے کیریئر پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔”
”کیوں نہیں پڑے گا۔ پارٹیز میں لوگوں سے ملنا ملانا ہوتا ہے۔ آپشنز کا پتا چلتا ہے۔ بات چیت ہوتی ہے تو…”
ذالعید نے اس کی بات کاٹ دی۔ ”یہ سب تمہارے لیے ضروری نہیں ہے مریم…! ضروری یہ ہے کہ تم اپنا خیال رکھو… بچے کا خیال رکھو اور اس کی پیدائش کے بعد بھی اس کے ساتھ گھر پر وقت گزارو۔”
ذالعید کی سنجیدگی اسے بری لگ رہی تھی۔
”اور میرے کیریئر میں جو اتنا لمبا گیپ آ جائے گا وہ… اس کا کیا ہوگا؟”
”یار! تم گھر پر کام کرتی رہنا، تم کو منع کون کر رہا ہے۔ اپنی پینٹنگز کی نمائش بھی کروا لینا۔ میں تو صرف یہ چاہ رہا ہوں کہ ابھی کچھ عرصہ تم اپنی روٹین کو بدل لو۔” ذالعید نے اس بار پہلے سے زیادہ نرمی سے اسے سمجھایا۔
”ذالعید! تمہیں کیا ہو گیا ہے، تم خود اچھی خاصی سوشل لائف گزار رہے تھے۔”
”گزار رہا تھا مگر اب میں نے اپنی سرگرمیوں میں کچھ کمی کی ہے۔ میں بھی تمہارے لیے وقت نکالوں گا۔”
”مجھے صرف یہ بتاؤ۔ تمہیں یہ ساری باتیں کون بتاتا ہے۔ تم نے یہ سب کچھ خود سے تو نہیں سوچا ہوگا۔” مریم کو اچانک شک ہوا۔
”کیا مطلب ہے تمہارا؟” وہ الجھ گیا۔
”ماما جان نے کہا ہے نا یہ سب کچھ؟” اس نے تلخی سے پوچھا۔ وہ خاموش رہا۔
”بتاؤ نا، انہوں نے کہا ہے نا؟”
”ہاں! انہوں نے کہا ہے مگر انہوں نے کچھ بھی غلط تو نہیں کہا۔ وہ تمہارے لیے پریشان ہیں اس لیے کہا ہے اور میں…”
مریم نے غصے سے اس کی بات کاٹ دی۔ ”ایک تو میں ماما جان سے بہت تنگ ہوں۔ وہ کیوں پریشان ہیں میرے لیے… ساری زندگی یہی ہوتا رہا ہے میرے ساتھ۔ انہوں نے ہمیشہ میری ترقی اور خوشی کی راہ میں روڑے اٹکائے ہیں اور اب جب میں اس گھر سے آ گئی ہوں تب بھی وہ مجھے چین کا سانس نہیں لینے دے رہیں… یہاں بھی سب کچھ ان کی مرضی سے ہوگا کیونکہ تمہارے جیسا ایک مرید ان کو مل گیا ہے۔”
”مریم! تم فضول باتیں مت کرو۔ تم ہر بات کا غلط مطلب نکال لیتی ہو۔” ذالعید نے اسے جھڑک دیا۔
”ہاں! میں تو بے وقوف ہوں نا… اس لیے ہر بات کا غلط مطلب ہی نکالوں گی… مگر مجھے تمہاری اور ماما جان کی نصیحتوں کی ضرورت نہیں ہے۔ میں اپنا اچھا برا خود سوچ سکتی ہوں اور میں ایک بات تمہیں صاف صاف بتا دینا چاہتی ہوں… میں نے تم سے شادی اس لیے نہیں کی تھی کہ گھر پر بیٹھ کر بچے پالوں گی۔ مجھے اپنی فیلڈ میں بہت کام کرنا ہے۔ بہت آگے جانا ہے۔ تم مجھے اس طرح کے مشورے دوبارہ مت دینا۔ بہتر ہے ماما جان کے مشورے تم اپنے لیے رکھو۔ میں ان سے خاصا فائدہ اٹھا چکی ہوں۔”
اس نے بیڈ پر لیٹ کر چادر سے خود کو سر سے پاؤں تک ڈھانپ لیا۔ ذالعید ایک گہرا سانس لے کر رہ گیا۔ اس نے دوبارہ کبھی مریم سے اس سلسلے میں بات نہیں کی۔
—–*—–
ماما جان کے پاس جانا ذالعید کو اچھا لگتا تھا ان سے باتیں کر کے اس کی ٹینشن ریلیز ہوتی تھی۔ وہ جانتا تھا کہ مریم کو اس کا ان کے پاس زیادہ جانا پسند نہیں ہے۔ وہ یہ بھی جانتا تھا کہ ماما جان کے حوالے سے اس کی کہی ہوئی ہر بات مریم کو بری لگتی ہے۔ اس لیے وہ مریم سے ماما جان کے حوالے سے زیادہ باتیں نہیں کرتا تھا۔
ماما جان کی باتیں جس طرح اس کی سمجھ میں آتی تھیں۔ اس طرح مریم کی سمجھ میں نہیں آتی تھیں یا پھر شاید مریم کو ان باتوں کی ضرورت ہی نہیں تھی۔
—–*—–
”ذالعید! آنکھیں کیوں سرخ ہیں؟ طبیعت تو ٹھیک ہے؟” اس دن ماما جان نے اسے دیکھتے ہی پوچھا، وہ پھر دوپہر کو ان کے پاس گیا تھا۔
”ہاں! طبیعت ٹھیک ہے، بس میں رات کو ٹھیک سے سو نہیں سکا۔”
”کیوں…؟”
”بس ایسے ہی، دو تین دن سے ڈپریس ہوں اس وجہ سے۔” ماما جان اس کا چہرہ دیکھتی رہیں، وہ اب آنکھیں مسل رہا تھا۔
”آپ پریشان نہ ہوں ماما جان! میں اینٹی ڈیپریسنٹ لے لوں تو ٹھیک ہو جاؤں گا بس بعض دفعہ ذرا زیادہ ڈپریشن ہو جاتا ہے۔” ذالعید نے ان کے چہرے پر فکر مندی دیکھتے ہوئے تسلی دی۔
”آپ اینٹی ڈیپریسنٹ نہ لیا کریں ذالعید! آپ پانچ وقت کی نماز پڑھ لیا کریں۔” ماما جان اب اٹھ کر اس کے لیے چائے بنانے لگیں۔ وہ ان کی بات سن کر خاموش رہا۔
وہ کچھ دیر بعد چائے لے کر دوبارہ کمرے میں آئیں۔
”نماز تو آتی ہوگی؟” وہ اسے کپ تھماتے ہوئے بولیں۔
ذالعید کے چہرے پر ایک محجوب سی مسکراہٹ نمودار ہوئی۔
”بچپن میں دادا نے سکھائی تھی مگر استعمال کبھی نہیں کی۔” انہوں نے حیرت سے اسے دیکھا اور پھر کھلکھلا کر ہنس پڑیں۔
”نماز استعمال کرتے ہیں ذالعید! نماز ادا کرتے ہیں۔” وہ کچھ جھینپ گیا۔
”عید پر نماز کے لیے جاتا ہوں۔ اصل میں وقت نہیں ملتا پھر عادت بھی نہیں ہے بس اسی لیے…” اس نے بات ادھوری چھوڑ دی۔
”آپ کے پاپا نے کبھی آپ سے اس بارے میں نہیں کہا؟” ماما جان کچھ سنجیدہ ہو گئیں۔
”نہیں… پاپا تو خود نہیں پڑھتے۔” ذالعید نے وضاحت کی۔
”نماز نہیں پڑھتے وہ؟”
”نہیں مذہبی نہیں ہیں، وہ ہمارے گھر کا ماحول بہت لبرل ہے۔ کوئی بھی نماز نہیں پڑھتا، ہو سکتا ہے کبھی کبھار کوئی پڑھ لیتا ہو مگر یہ آپشنل ہے، پاپا نے یا ممی نے کبھی فورس نہیں کیا پاپا تو ویسے بھی اپنی فرم اور بزنس میں بہت مصروف رہتے ہیں، ان سے تو کبھی اس موضوع پر بات ہی نہیں ہوئی، ممی کی بھی سوشل ایکٹیوٹیز ہیں۔ وہ بھی مصروف ہوتی ہیں میں ویسے بھی گھر پر ان کے ساتھ رہا ہی نہیں ہاں بچپن میں دادا دادی نے خاصا زور دیا اس پر مگر پھر بورڈنگ چلا گیا۔ وہاں نماز وغیرہ سکھاتے تو تھے مگر باقاعدگی سے پڑھنے کے لیے کوئی سختی نہیں تھی۔” وہ چائے پیتے ہوئے انہیں بتاتا رہا۔
”اب پڑھ لیا کریں ذالعید! میں سکھا دوں؟” ماما جان نے بڑے پیار سے کہا۔
”ماما جان! میں خود سیکھ لوں گا۔” وہ کچھ اور شرمندہ ہوا۔ ”مگر باقاعدگی سے نماز پڑھنا یہ بہت مشکل کام ہے۔”
”کوشش تو کی جا سکتی ہے نا؟”
”ہاں! کوشش کر سکتا ہوں مگر رات کی نہیں پڑھ سکتا، تھکا ہوا ہوتا ہوں۔”
”ٹھیک ہے، رات کی مت پڑھو۔ باقی چار پڑھ لو۔” ماما جان فوراً مان گئیں۔
”صبح والی بھی نہیں پڑھ سکتا، اس وقت سو رہا ہوتا ہوں۔ نیند سے اٹھنا بہت مشکل ہے۔”
”ٹھیک ہے، وہ بھی مت پڑھو، باقی تین پڑھ لو۔” ماما جان نے کوئی تعرض نہیں کیا۔
”دوپہر والی بہت لمبی ہوتی ہے ماما جان…! اس وقت فیکٹری میں ہوتا ہوں۔ بہت کام ہوتا ہے پھر لنچ بھی کرنا ہوتا ہے۔” وہ اب سوچ میں پڑ گیا۔
”ٹھیک ہے۔ باقی دو پڑھ لو۔”
ماما جان! شام والی بھی بہت مشکل ہے، اس وقت بھی فیکٹری میں ہوتا ہوں ،دوست آ جاتے ہیں۔ کبھی ڈنر پر جانا ہوتا ہے۔ کبھی شاپنگ کرنی ہوتی ہے۔” اسے اپنے سارے کام یاد آنے لگے۔
”اچھا ٹھیک ہے، عصر کی تو پڑھ سکتے ہو نا۔ وہ لمبی بھی نہیں ہوتی اور اس وقت کئی بار تم یہاں آئے ہو یا پھر فیکٹری میں ہوتے ہو، ہے نا۔”
”ہاں وہ پڑھ سکتا ہوں۔” اس نے کچھ دیر سوچتے رہنے کے بعد بالآخر آمادگی ظاہر کی۔
”تو بس ٹھیک ہے، پڑھ لو اذان کافی دیر پہلے ہو چکی ہے۔ گلی میں مسجد تو تم نے دیکھی ہی ہے۔ وہاں چلے جاؤ۔ ٹوپی میں تم کو دے دیتی ہوں۔” ماما جان اٹھ کر ایک صندوق کھولنے لگیں۔ وہ ہکا بکا انہیں دیکھنے لگا۔
”ابھی… آج ہی…؟”
”ہاں کیوں؟”
”میں سوچ رہا تھا، کل سے شروع کروں گا۔”
ماما جان ایک ٹوپی نکال لائی تھیں۔ ”آج سے کیوں نہیں؟” انہوں نے ٹوپی اس کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔
اس نے ٹوپی پکڑ لی اور کچھ سوچنے لگا۔
”کیا ہوا ذالعید؟”
”وضو کروا دیں ماما جان! میں مسجد میں چلا تو جاتا ہوں مگر نماز آتی نہیں ہے مجھے وہاں کروں گا کیا میں؟” وہ اب خاصا بے بس نظر آ رہا تھا۔
”عید کی نماز تو پڑھتے ہو…”
ذالعید نے ان کی بات کاٹ دی۔ ”ماما جان! وہ بھی ایسے ہی پڑھ کر آ جاتا ہوں سب لوگوں کے ساتھ سجدہ وغیرہ کر لیتا ہوں، بعد میں دعا مانگ لیتا ہوں۔”
اس نے پہلی بار صاف گوئی کا مظاہرہ کیا، ماما جان کو بے اختیار ہنسی آ گئی۔
”ٹھیک ہے، آج مسجد میں بھی اسی طرح نماز پڑھ لینا، آؤ میں تمہیں وضو کروا دیتی ہوں۔”
وہ اسے باہر لے آئیں۔ ان کی ہدایات کے مطابق اس نے وضو کر لیا اور باہر چلا گیا۔
پندرہ منٹ بعد وہ واپس آیا، تو اس کا چہرہ خاصا سرخ تھا، ماما جان نے دروازہ کھولا تو وہ ٹوپی ہاتھ میں پکڑے اندر آ گیا۔
”نماز پڑھ لی؟” ذالعید نے سر ہلایا۔ ماما جان نے اس کا ماتھا چوم لیا۔ ”دیکھا، اب چہرے پر نور آ گیا ہے۔” انہوں نے کسی بچے کی طرح اسے بہلایا، وہ ہنس پڑا۔
”نور نہیں ہے ماما جان! چہرہ شرمندگی سے سرخ ہو رہا ہے۔ پٹھان ہوں نا۔”
”آج تم واپسی پر نماز کی کوئی کتاب خرید لینا پھر کوئی مسئلہ نہیں ہوگا۔” ماما جان نے اسے ہدایت دی۔
اس نے ایسا ہی کیا تھا، شروع میں اسے کچھ دقّت ہوئی، مگر پھر آہستہ آہستہ وہ فیکٹری کی مسجد میں عصر کی نماز باقاعدگی سے ادا کرنے لگا۔ اگر اس وقت ماما جان کے ہاں ہوتا تو محلے کی مسجد میں چلا جاتا اس کی وہ ابتدائی جھجک ختم ہو گئی تھی۔
—–*—–




Loading

Read Previous

لاحاصل — قسط نمبر ۱

Read Next

لاحاصل — قسط نمبر ۳ (آخری قسط)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!