لاحاصل — قسط نمبر ۲

”بیٹوں کی بات اور ہوتی ہے۔” عاصم کچھ دیر بعد دوبارہ بولنے لگا۔
”مگر کل کو اگر اس عورت سے تمہاری کوئی بیٹی ہوئی تو کیا کرو گے؟ کال گرل کے طور پر اپنی زندگی کا ایک بڑا حصہ گزارنے والی عورت تمہاری بیٹی کو کیا سکھائے گی۔ نسلوں کا تعین اگر خون سے ہوتا ہے تو اس عورت کا خون تمہاری نسل کو خراب کر دے گا۔ ابھی صرف ایک بیٹا ہے تمہارا اور وہ بھی بہت چھوٹا ہے۔ ابھی اس سے الگ ہو جاؤ گے تو سب کچھ بچ جائے گا۔ ابھی وقت اور حالات تمہاری مٹھی میں ہیں۔ کچھ وقت اور گزر گیا تو تم کہیں بھی پیر جمانے کے لیے زمین نہیں پاؤ گے۔
وہ اس کے کانوں میں صور پھونک رہا تھا۔ ونڈاسکرین اب برف سے بالکل ڈھک چکی تھی۔ برف نے باہر نظر آنے والی دنیا کو چھپا دیا تھا… مظہر کو اب دنیا دیکھنے کی خواہش بھی نہیں رہی تھی۔ عاصم نے اسٹیرنگ پر دھرے اس کے بائیں ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھ دیا۔ ”تم ٹھیک تو ہو؟”
مظہر نے خالی نظروں سے اسے دیکھا۔
”میری باتوں پر غور کرنا مظہر! میں کسی فیصلے کے لیے تمہیں مجبور نہیں کر رہا ہوں، ہر فیصلہ تمہیں خود ہی کرنا ہے۔ دوست ہونے کے ناتے میں تمہیں دھوکے میں نہیں رکھ سکتا تھا۔ آج نہیں تو کل کبھی نہ کبھی تم کیتھی کے بارے میں سب کچھ جان جاتے اور… اس وقت تمہیں یہ شکایت ہوتی کہ میں نے تمہیں بے خبر کیوں رکھا۔ تمہیں اس وقت حقیقت سے آگاہ کیوں نہیں کیا جب تم اس سب کچھ سے نکل سکتے تھے۔”
اس کی بات کے جواب میں کچھ کہنے کے بجائے مظہر نے گاڑی اسٹارٹ کر دی، عاصم نے اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ سے ہٹا لیا۔ وہ مظہر کی دلی اور ذہنی کیفیت کا اندازہ لگا سکتا تھا۔
عاصم کے کزن کا گھر آنے تک گاڑی میں مکمل خاموشی رہی۔ گفتگو کے لیے موضوع نہیں رہا تھا، یا پھر وقت… یا پھر لفظ… ان دونوں میں سے کوئی بھی اس کا اندازہ لگانے سے قاصر تھا۔
عاصم کے کزن کے گھر کے سامنے گاڑی روکنے پر بھی عاصم کچھ دیر گاڑی سے نیچے نہیں اترا بلکہ مظہر کو دیکھنے لگا۔ ”میرے اس انکشاف سے اگر تمہیں…”
اس نے مظہر کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کچھ کہنے کی کوشش کی۔ مگر مظہر نے بڑی نرمی کے ساتھ اپنے کندھے سے اس کا ہاتھ ہٹاتے ہوئے اس کی بات کاٹ دی۔
”اب اور کچھ نہیں، کوئی بھی بات مت کرو… کچھ بھی مت بولو… مجھے سب کچھ خود سمجھنے دو… اب تم جاؤ۔”
اس سے نظریں ملائے بغیر مدھم آواز میں اس نے عاصم سے کہا۔ وہ کچھ دیر اسے دیکھتا رہا پھر گاڑی کا دروازہ کھول کر نیچے اتر گیا۔
مظہر نے گاڑی آگے بڑھا دی۔ زندگی میں کبھی کوئی سڑک اسے اتنی طویل اور سیاہ نہیں لگی تھی جتنی اس رات اپنے سامنے موجود سڑک لگ رہی تھی اس نے پچھلے تین سالوں کو اپنی نظروں کے سامنے بھربھری ریت کی طرح بکھرتے دیکھا۔ وہ کون تھی خدیجہ نور… کیتھرین براؤن… یا پھر Dusky Damsel۔
کیا وہ اتنا بے وقوف تھا کہ ایک کال گرل کو پہچان نہیں سکا۔ یا پھر اتنا بدقسمت تھا کہ اسے بیوی کے روپ…
بہت آگے جا کر اس نے گاڑی روک لی۔ سگریٹ لائٹر نکال کر اس نے سگریٹ لگایا، لمبے لمبے کش لیتے ہوئے اس نے سڑک پر آتی جاتی اکا دکا گاڑیوں پر نظر جما دی۔
”میرا نام، میرا نام کیتھرین براؤن ہے، تم مجھے کیتھی کہہ سکتے ہو۔”
شاک، غصہ، غم، بے یقینی، اس نے اپنے احساسات کو پہچاننے کی کوشش کی۔





”میں نے اس عورت کو کیا دیا اور اس عورت نے میری آنکھوں میں دھول جھونک دی۔” وہ آہستہ آہستہ اس شاک سے باہر آنے لگا۔
تین سال میں ایک بار بھی اس عورت میں اتنی جرأت نہیں ہوئی کہ یہ مجھے اپنے بارے میں سب کچھ بتا دیتی۔”
اسے یاد نہیں اس رات وہاں گاڑی میں بیٹھے بیٹھے اس نے کتنے سگریٹ پیے تھے، وہ چین اسموکر نہیں تھا مگر اس رات وہ ایک کے بعد ایک سگریٹ سلگاتا گیا پھر ایک وقت وہ آیا جب اس کے پاس موجود سارے سگریٹ ختم ہو گئے، سڑک پر ٹریفک ختم ہو چکی تھی۔ کھڑکیوں کے شیشے دھندلے تھے۔ ونڈاسکرین برف سے ڈھک چکی تھی۔ گاڑی دھویں سے بھری ہوئی تھی۔ اس نے گھڑی دیکھنے کی کوشش نہیں کی۔ بعض دفعہ زندگی میں آنے والی ہر چیز دھندلا جاتی ہے اور انسان کو یوں لگتا ہے جیسے وہ کسی برمودا ٹرائی اینگل میں آ گیا ہے، جہاں سے نکلنے کا کوئی راستہ دکھائی نہیں دیتا۔
—–*—–
ہوا کے جھونکوں میں شدت آتی جا رہی تھی۔ پھوار کے قطروں میں تیزی آ گئی۔ اس کا لباس بھیگ کر اس کے جسم سے چپک گیا۔ اس نے آنکھیں کھول دیں۔ بارش میں کھڑے ہونا اب مشکل ہو رہا تھا۔ کچھ دیر پہلے کی مسحور کن خاموشی ختم ہو چکی تھی۔ ماربل کے فرش پر موسلا دھار بارش عجیب سا شور پیدا کر رہی تھی۔مٹی کے کچے فرش پر شاید ایسا شور پیدا نہ کرتی۔ اس نے پہلی بار سوچا، ہوا کے تیز جھونکوں کی شدت اسے چبھنے لگی۔ آسمان اب بھی پہلے کی طرح صاف تھا مگر اب آسمان کی طرف دیکھنا اس کے لیے مشکل ہو گیا تھا۔ اس نے واپس سیڑھیوں کی طرف جانے کے لیے پیر اٹھایا اور دوبارہ فرش پر قدم رکھنا اس کے لیے مشکل ہو گیا۔ موسلا دھار برستی بارش نے چکنے فرش کی پھسلن کو اور بڑھا دیا اور اس قدر چکنے فرش پر چلنا مشکل ہو گیا تھا۔ وہ دوسرا پیر نہیں اٹھا سکی۔ وہ اپنی جگہ گھٹنوں کے بل بیٹھ گئی۔ اور ایک ننھے بچے کی طرح ہاتھوں کے پنجوں اور گھٹنوں کے بل آہستہ آہستہ محتاط طریقے سے واپس جانے کی کوشش کی۔ فضا میں ہوا اور بارش نے عجیب سا شور برپا کیا ہوا تھا۔ وہ آہستہ آہستہ اس جگہ پہنچ گئی جہاں سیڑھیاں تھیں۔ بہت محتاط طریقے سے وہ پھسلنے سے خود کو بچاتے ہوئے کھڑی ہو گئی۔ نیچے جانے کے لیے پہلی سیڑھی پر قدم رکھنے کے لیے اس نے نیچے جھانکا، اور وہ ہل نہیں سکی۔ خوف کی ایک لہر نے اس کے وجود کو اپنے حصار میں لے لیا۔
—–*—–
وہ ہمیشہ کی طرح ماما جان کے کمرے میں مریم کے بستر پر لیٹا ہوا تھا، ماما جان تھوڑی دیر پہلے نہا کر آئی تھیں اور اس وقت وہ اپنے بستر پر بیٹھی اپنے بالوں میں کنگھی کر رہی تھیں۔ ذالعید ان کے ساتھ باتیں کر رہا تھا۔ اس نے پہلی بار ماما جان کو چادر کے بغیر دیکھا اور اسے احساس ہوا کہ وہ بے حد خوبصورت ہیں۔ ان کے سنہری بال جنہیں وہ کچھ دیر پہلے باہر صحن میں تولیے سے خشک کر کے آئی تھیں۔ اب ان کے کندھوں اور پشت پر بکھرے ہوئے تھے۔ وہ بات کرتے کرتے رک کر انہیں دیکھنے لگا۔
”ماما جان! آپ بہت خوبصورت ہیں۔” چند لمحوں کے بعد مدھم آواز میں اس نے ان سے کہا۔
”اچھا…” وہ بے اختیار ہنسیں۔
”انگریز عورتیں اتنی خوبصورت تو نہیں ہوتیں۔” وہ ایک بار پھر ہنسیں۔
”کتنی انگریز عورتوں کو جانتے ہو تم؟”
وہ مسکرا دیا۔ ”میرا دل چاہ رہا ہے میں آپ کو Paint کروں آپ کو پتا ہے آپ کی آنکھیں اور بال کتنے خوبصورت ہیں۔”
ذالعید کو آج انہیں دیکھتے ہوئے بہت عجیب سا احساس ہوا۔ ماما جان بھی اب ایک ٹک اسے دیکھ رہی تھیں۔
”بہت عرصے بعد آج کسی نے تعریف کی ہے میری۔” ان کے چہرے پر بہت عجیب سے تاثرات تھے وہ انہیں دیکھتے ہوئے جیسے ایک ٹرانس میں آ گیا۔ ”میں تم سے ایک فرمائش کرنا چاہتی ہوں، ذالعید، اگر تم مان سکو تو…”
ذالعید کا دل چاہا وہ ان سے کہہ دے کہ وہ اس سے کچھ بھی مانگ سکتی ہیں۔ وہ اب اپنے بال سمیٹ رہی تھیں۔ وہ ایک بار پھر ان کی آنکھیں دیکھ رہا تھا اسے ان کی آنکھیں دیکھ کر پہلی بار ایک عجیب سا احساس ہوا، وہ ان سے ایک بات کہنا چاہتا تھا۔ وہ نہیں جانتا تھا وہ کیا سوچیں گی؟ وہ کس ردعمل کا اظہار کریں گی مگر خود کو روک نہیں پایا۔ اس نے انہیں چند لمحوں کے لیے بالکل ساکت پایا۔ پھر اس نے ان کے چہرے پر عجیب سی چمک دیکھی۔ وہ آہستہ آہستہ چلتے ہوئے اس کے پاس آ گئیں۔ اس کے پاس بستر پر بیٹھ کر انہوں نے جھک کر اس کی دونوں آنکھوں کو چوم لیا۔ وہ شاکڈ رہ گیا۔
—–*—–
مریم نے اپنے جسم کے گرد ساڑھی لپیٹتے ہوئے ڈریسنگ ٹیبل کے آئینے میں ذالعید کو کمرے میں داخل ہوتے دیکھا۔ وہ جس خاموشی کے ساتھ اندر آیا تھا، اسی خاموشی کے ساتھ بیڈ پر لیٹ گیا۔ اس نے مریم کو نظرانداز کیا تھا یا دیکھا ہی نہیں تھا۔ مریم جان نہیں سکی۔
بالوں میں برش کرتے ہوئے اس نے مڑ کر ذالعید کو دیکھا۔ وہ جوتوں سمیت بیڈ پر سیدھا لیٹا ہوا تھا۔ اس نے اپنا دایاں بازو اپنی آنکھوں پر رکھا ہوا تھا۔
”ذالعید۔” مریم نے اسے مخاطب کیا، وہ کچھ نہیں بولا۔ نہ ہی اس نے اپنے چہرے سے بازو ہٹایا۔
”ذالعید!” مریم نے وہیں کھڑے کھڑے اسے دوبارہ اپنی موجودگی کا احساس دلانے کی کوشش کی۔ اس کے جسم میں اب بھی کوئی حرکت نہیں ہوئی تھی۔
مریم کچھ پریشان ہو کر اس کی طرف آئی۔ اس کے پاس بیڈ پر بیٹھ کر اس نے ذالعید کے چہرے سے بازو ہٹانے کی کوشش کی۔ ذالعید نے بازو نہیں ہٹایا۔
”تم ٹھیک ہو؟” مریم نے پوچھا۔
”ہاں میں ٹھیک ہوں۔” اس کی آواز سُتی ہوئی تھی۔
”بازو تو ہٹاؤ۔” مریم نے زبردستی اس کا بازو ہٹا دیا اور وہ چونک گئی۔ ذالعید کی آنکھیں سرخ اور سوجی ہوئی تھیں۔ یوں جیسے وہ بہت دیر تک روتا رہا ہو۔
”ذالعید! کیا ہوا تمہیں؟” مریم نے کچھ پریشان ہو کر پوچھا۔
”کچھ نہیں… میں بالکل ٹھیک ہوں۔” ایک گہری سانس لے کر اس نے آنکھیں بند کر لیں۔
”تم روتے رہے ہو؟”
”کم آن، میں کیوں روؤں گا۔” وہ اسی طرح آنکھیں بند کیے بولا۔
”پھر تمہاری آنکھیں کیوں سرخ ہیں۔ سوجی ہوئی ہیں۔ کیا بات ہے ذالعید؟ فیکٹری میں تو سب کچھ ٹھیک ہے۔”
ذالعید نے آنکھیں کھول دیں۔ اس کے چہرے پر اب ناراضگی تھی۔ ”کچھ نہیں ہوا میں ٹھیک ہوں۔ شاید کچھ فلو ہو رہا ہے اور بس۔ تم خوامخواہ…”
اس نے بات ادھوری چھوڑ کر ایک بار پھر آنکھیں بند کر لیں۔
مریم نے اطمینان کا سانس لیا۔
”تو تم ڈاکٹر کے پاس چلے جاتے۔” اس نے فوراً کہا۔
”گیا تھا۔” بہت مختصر جواب آیا۔
”کھانا لگوا دوں؟”
”مجھے بھوک نہیں۔”
”تھوڑا سا تو کھا لو۔”
”میں آرام کرنا چاہتا ہوں۔”
”کھانا کھا کر سو جانا۔”
ذالعید نے آنکھیں کھول دیں۔ ”تم کہیں جا رہی تھیں؟”
”ہاں وہ مسز یزدانی نے ڈنر دیا ہے آج اور…”
ذالعید نے اس کی بات کاٹ دی ”تو پھر جاؤ، تمہیں دیر ہو رہی ہوگی۔”
”ہاں دیر تو ہو رہی ہے مگر تم کھانا کھا لیتے تواچھا تھا۔”
ذالعید نے ایک بار پھر آنکھیں بند کر لیں۔
”میں کچھ دیر آرام کرنے کے بعد کھا لوں گا۔ تم فکر مت کرو۔”
”یہ ڈنر بہت امپورٹنٹ ہے ورنہ میں کبھی بھی تمہیں چھوڑ کر نہ جاتی۔ میں کوشش کروں گی جلدی آنے کی۔” مریم نے اس کا چہرہ دیکھتے ہوئے کہا۔




Loading

Read Previous

لاحاصل — قسط نمبر ۱

Read Next

لاحاصل — قسط نمبر ۳ (آخری قسط)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!