لاحاصل — قسط نمبر ۲

اس کے گھر آنے کے چوتھے دن مریم کالج کے لان میں اپنی ایک پینٹنگ مکمل کر رہی تھی جب وہ اس کے پاس آیا۔ رسمی علیک سلیک کے بعد وہ واپس جانے کے بجائے وہیں کھڑا اسے پینٹنگ پر اسٹروک لگاتا دیکھتا رہا۔ مریم وہاں اس کی موجودگی سے کچھ ڈسٹرب ہونے لگی۔ اسے محسوس ہو رہا تھا جیسے وہ کچھ کہنا چاہ رہا ہے اور اس کا یہ اندازہ ٹھیک تھا۔
چند منٹ خاموش رہنے کے بعد اس نے مریم سے کہا۔ ”یہ آپ کا آخری سال ہے یہاں، اس کے بعد کیا کرنا چاہتی ہیں آپ؟”
”پتہ نہیں۔” وہ اسٹروکس لگاتی رہی۔
”کچھ طے نہیں کیا آپ نے اپنے لیے؟”
”فی الحال تو نہیں۔”
وہ ایک بار پھر خاموش ہو گیا۔
”اپنی شادی کے بارے میں کبھی سوچا ہے آپ نے؟” مریم نے سر اٹھا کر اسے دیکھا۔ کینوس پر چلتا ہوا اس کا ہاتھ رک گیا۔
”میرا مطلب ہے۔ آپ کا کوئی پرپوزل آیا ہو۔”
”نہیں! میرا ابھی کوئی پرپوزل نہیں آیا اور نہ ہی میں نے اس بارے میں سوچا ہے۔” وہ ایک بار پھر کینوس پر ہاتھ چلانے لگی۔
”اچھا اگر میں آپ کو پرپوز کروں تو؟” وہ دم بخود رہ گئی۔
”آپ مذاق کر رہے ہیں؟” اس نے بے اختیار کہا۔ اس بار حیران ہونے کی باری ذالعید کی تھی۔
”مذاق؟ میں مذاق نہیں کر رہا ہوں۔”
وہ نروس ہو گئی۔ ”آپ صوفیہ کے ساتھ انگیجڈ ہیں۔”
”انگیجڈ نہیں ہوں، میری اس کے ساتھ دوستی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ آپ نہ ہوتیں تو میں اس کو پرپوز کرتا۔ وہ اچھی لڑکی ہے۔” ذالعید نے بڑے نارمل انداز میں کہا۔
وہ یک دم برا مان گئی۔ ”اگر وہ اچھی لڑکی ہے، آپ کی اس کے ساتھ دوستی ہے، انڈر اسٹیڈنگ ہے تو پھر آپ مجھ سے شادی کیوں کرنا چاہتے ہیں۔ صوفیہ سے کریں۔”
”مریم! مجھے آپ سے محبت ہے، میں نہیں جانتا کیوں مگر میں پچھلے دو ماہ سے آپ کو اپنے ذہن سے نہیں نکال پا رہا ہوں اور پچھلا پورا ہفتہ میرے لیے بہت تکلیف دہ رہا ہے۔ میں راتوں کو ٹھیک سے سو بھی نہیں پاتا۔ مریم! اس سے زیادہ تکلیف دہ چیز کوئی اور نہیں ہوتی کہ جس سے آپ محبت کرتے ہوں۔ وہ آپ کو ناپسند کرتا ہو… آپ کو دیکھتا تک نہ ہو۔”
وہ بے یقینی کے عالم میں اسے دیکھنے لگی۔ وہ اس کے منہ سے بالکل وہی لفظ سن رہی تھی جو اس نے اس رات ماما جان سے کہے تھے۔





”وہ سب سے بات کرتا ہو بس آپ سے بات نہ کرے۔ آپ کے رویے سے مجھے جس قدر تکلیف ہوئی تھی۔ وہ میں لفظوں میں بیان نہیں کر سکتا۔ کیا آپ یقین کریں گی کہ میں صرف آپ کو دیکھنے کے لیے یہاں آتا تھا اور یہاں سے جانے کے بعد میں سوچتا تھا کہ اب دوبارہ نہیں آؤں گا… مگر میں پھر یہاں آ جاتا تھا۔ میں جتنی دیر یہاں رہتا تھا۔ آپ نظر نہ بھی آتیں تو بھی مجھے سکون رہتا تھا مگر اس گیٹ سے ایک قدم باہر نکالتے ہی میں… بہت مشکل ہے یہ بتانا کہ میں کیا محسوس کرتا تھا اور پچھلا پورا ہفتہ تو… میں آپ کی طرف کیوں آتا ہوں۔ میں نہیں جانتا مگر کوئی چیز ہے جو مجھے… آپ کا آرٹ… یا پھر آپ خود… مجھے نہیں پتا”… اس کے چہرے پر اب اضطراب اور بے بسی تھی۔
”پھر میں نے سوچا اگر کسی عورت سے اتنی محبت ہو جائے تو پھر اس سے شادی کر لینی چاہیے۔ صوفیہ بہت اچھی ہے مگر میں نے اس کے لیے کبھی یہ سب کچھ محسوس نہیں کیا… آپ کے ساتھ میرا رشتہ کچھ اور طرح کا ہے۔ جیسے ابھی میں آپ کے پاس کھڑا آپ سے بات کر رہا ہوں تو مجھے یوں لگ رہا ہے جیسے میں اپنے مدار میں ہوں… مگر میں آپ کو کسی دھوکے میں رکھنا نہیں چاہتا۔ میری فیملی اس شادی کو قبول نہیں کرے گی اس سے مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ میں ہر لحاظ سے سیٹل ہوں اور میں فیملی کی مرضی کے بغیر بھی آپ سے شادی کر سکتا ہوں۔ یہ خاصی ناخوشگوار صورت حال ہے لیکن میں آپ کو کوئی بھی گارنٹی دینے کو تیار ہوں آپ کو مجھ سے کبھی بھی کوئی شکایت نہیں ہوگی۔ مجھے محسوس ہوتا ہے کہ میں آپ کے ساتھ بہت خوش رہوں گا اور صرف میں ہی نہیں آپ بھی ۔کیا آپ شادی کریں گی مجھ سے؟”
وہ ذالعید کا چہرہ دیکھتی رہی۔ ”ہاں… آپ گھر آ کر ماما جان سے بات کر لیں۔” ذالعید کے چہرے پر اطمینان بھری مسکراہٹ نمودار ہوئی۔
”کیا آپ کو یقین ہے۔ آپ کی ماما جان مان جائیں گی؟”
”ہاں۔”
”ٹھیک ہے میں ان سے بات کر لوں گا۔”
وہ چند منٹ اس کے پاس رکا اور پھر چلا گیا۔ کینوس پر نظر جمائے ہوئے بھی مریم جانتی تھی کہ وہ اس سے کچھ اور بھی کہنا چاہ رہا تھا اور جب وہ اس کے پاس سے چلا گیا تو اس نے پینٹنگ بند کر دی۔ وہ کتنی ہی دیر بے یقینی کے عالم میں اپنی آنکھیں بند کر کے اس کے لفظوں کو دہرانے کی کوشش کرتی رہی۔
—–*—–
ذالعید کو اپنے پاپا کی طرف سے اس پر پوزل پر اعتراض کی توقع نہیں تھی۔ وہ بہت مطمئن تھا کہ پاپا اسے اس شادی کی اجازت دے دیں گے مگر ایسا نہیں ہوا تھا۔ انہوں نے بہت صاف الفاظ میں اس سے کہہ دیا تھا کہ وہ کسی غیر ملکی عورت کی اولاد سے اس کی شادی نہیں کریں گے۔
”اس کے علاوہ تم جہاں چاہو، میں تمہاری شادی کر سکتا ہوں۔” انہوں نے اس سے کہا۔
”غیر ملکی عورت کی بیٹی میں کیا خرابی ہے۔ میں خود ایک غیر ملکی عورت کا بیٹا ہوں۔” وہ ان کی منطق پر حیران ہوا۔ ”پھر مریم کی امی بہت مختلف عورت ہیں۔ مسلمان ہیں اور انہوں نے مریم کی بہت اچھی تربیت کی ہے۔”
”ایسی عورتوں کے اسلام کو تو تم رہنے ہی دو۔ شادیوں کے لیے یہ اسلام قبول کر لیتی ہیں اور پھر وفاداری اور پارسائی کا ڈرامہ کرتی ہیں۔ مغرب کی عورت کیسی ہوتی ہے۔ تم بہت اچھی طرح جانتے ہو۔”
”پاپا اگر کل آپ میرا پرپوزل کہیں لے کر جائیں اور وہ لوگ بھی اسی بنیاد پر انکار کر دیں کہ میں ایک غیر ملکی عورت کا بیٹا ہوں تو؟” اس نے نرم اور مدھم آواز میں ان سے کہا۔
”تمہاری تربیت کسی غیر ملکی عورت نے نہیں کی ہے۔ تمہاری تربیت میں نے کی ہے اور تم کسی غیر ملکی عورت کے حوالے سے نہیں میرے نام سے پہچانے جاتے ہو۔”
”مگر پاپا! ہم کون سا بہت مذہبی ہیں… بہت لبرل ماحول ہے ہمارے گھر کا… ہم تو عملی مسلمان بھی نہیں جو ہمیں یہ خوف ہو کہ شاید مریم اس طرح یہاں ایڈجسٹ نہ کر پائے یا ہماری روایات پر عمل نہیں کر پائے گی۔”
”ہم عملی ہوں یانہ ہوں لیکن ہم پیدائشی مسلمان ہیں۔” پاپا نے پہلی بار قدرے بلند آواز میں اس سے بات کی۔ ان کی آواز میں فخر تھا۔
”بہرحال پاپا! میں اُمّ مریم سے ہی شادی کرنا چاہتا ہوں۔مجھے ایک شادی کرنی ہے اور میں اپنی مرضی کی لڑکی سے ہی کروں گا۔”
”میری ناپسندیدگی کے باوجود؟”
”پاپا! آپ کی ناپسندیدگی کی کوئی قابل قبول وجہ ہو تو میں اس پر ضرور غور کروں مگر جو وجہ آپ مجھے بتا رہے ہیں۔ وہ تو کوئی وجہ نہیں ہے۔ چلیں مریم سے شادی نہیں کرتا اگلی بار پھر مجھے کوئی اس جیسی لڑکی پسند آ گئی جو غیر ملکی ہوئی یا اس کی ماں غیر ملکی ہو تو آپ پھر یہی کہیں گے کہ میں اس سے بھی شادی نہ کروں گا۔ پھر میں کیا کروں گا۔ میرے لیے تو ملکی اور غیر ملکی لڑکی میںکوئی فرق ہی نہیں ہے میں اس کو کوئی ایشو نہیں مانتا۔ آپ کی طرح میں بھی مذہبی نہیں ہوں تو پھر پرابلم کیا ہے۔ جو آپ کو اچھا لگے اس سے شادی کر لینی چاہیے اور پھر مریم کو تو آپ غیر ملکی کہہ ہی نہیں سکتے۔ وہ پاکستانی ہے ہر لحاظ سے۔ شکل و صورت سے، بول چال سے، طور طریقے سے، ہر طرح سے، پھر صرف یہ کہا جائے کہ اس کی ماں ایک غیر ملکی عورت ہے، اس لیے… جبکہ میں بتا بھی رہا ہوں کہ وہ ایک بہت اچھی خاتون ہیں۔ کم از کم مجھے بہت اچھی لگی ہیں۔” وہ اسی طرح نرم مگر سنجیدہ آواز میں ان سے کہتا رہا۔
”ذالعید! تم شادی کرنا چاہتے ہو تو کر لو… میں تم پر اپنی مرضی مسلط کرنا نہیں چاہتا… مگر میں یا میری فیملی تمہاری شادی میں شریک نہیں ہوگی۔ تم ویسے بھی پہلے ہی خود مختار ہو۔ تم کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ ٹھیک ہے کر لو۔” پاپا نے میز پر پڑا ہوا اخبار اٹھاتے ہوئے پرُسکون انداز میں کہا۔ وہ سنجیدگی سے ان کا چہرہ دیکھنے لگا۔
“But this is not fair” (لیکن یہ غلط بات ہے پاپا) کچھ لمحے خاموش رہنے کے بعد اس نے کہا۔
”یہ ٹھیک ہے کہ میں خود مختار ہوں مگر میں یہ چاہتا ہوں کہ میری شادی میں آپ کی مرضی شامل ہو اور پاپا! آپ ایک غلط بات کو ایشو بنا کر مجھے فیملی سے کاٹ دینا چاہتے ہیں۔” اسے تکلیف ہوئی۔
”میں نہیں کاٹ دینا چاہتا، تم خود یہ کرنا چاہتے ہو۔”
وہ اگلے کئی گھنٹے ان کے ساتھ اس موضوع پر بات کرتا رہا مگر پاپا اپنی بات پر ڈٹے رہے۔
”ٹھیک ہے پاپا! پھر اگر آپ یہی چاہتے ہیں کہ صحیح بات پر بھی میرا بائیکاٹ کر دیں تو آپ کر دیں مگر مجھے شادی وہیں کرنی ہے۔” وہ خاصی دل گرفتی اور سنجیدگی کے عالم میں ان کے پاس سے اٹھ آیا۔ نزہت سے اس نے اس سلسلے میں کوئی بات نہیں کی کیونکہ وہ یہ سمجھتا تھا کہ اس معاملہ میں نزہت کا کوئی رول نہیں ہے اور نہ ہی وہ اس کی مدد کریں گی۔
اس نے مریم کو اس بارے میں پرپوز کرنے کے ساتھ ہی بتا دیا تھا اور وہ یہ جان کر خاصا مطمئن ہو گیا کہ وہ اس سے پھر بھی شادی کرنے پر تیار ہے۔
—–*—–
”ذالعید کو اگر تم سے شادی کرنا ہے تو اسے یہ کام اپنے گھر والوں کی مرضی سے کرنا ہے۔ ورنہ میں تمہارے لیے اس کے پرپوزل کو کبھی قبول نہیں کروں گی۔”
اس دن مریم نے گھر آ کر بڑے جوش سے ماما جان کو ذالعید کے پرپوزل کے بارے میں بتایا تھا اور اس کے ساتھ اس نے یہ بھی بتا دیا تھا کہ ذالعید کی فیملی اس پرپوزل پر رضامند نہیں ہے مگر وہ پھر بھی اس سے شادی کرنا چاہتا ہے۔ ماما جان نے سب کچھ سننے کے بعد بڑے نرم اور مستحکم لہجے میں کہا تھا کہ ذالعید کے ماں باپ کی مرضی کے بغیر وہ مریم کی شادی اس سے نہیں کریں گی۔
وہ ان کی بات پر ہکا بکا رہ گئی۔ ”مگر ماما جان! آپ جانتی ہیں کہ ذالعید کسی پر انحصار نہیں کرتا ہے وہ الگ گھر میں رہتا ہے۔ اس کا اپنا بزنس ہے۔ جائیداد میں سے پہلے ہی اسے اس کا حصہ مل چکا ہے۔ پھر اس شادی میں اس کے ماں باپ کی مرضی ہونے یا نہ ہونے سے کیا فرق پڑتا ہے؟”
”فرق پڑتا ہے مریم۔”
”ماما جان! اس نے مجھے بہت واضح الفاظ میں یہ بتا دیا ہے کہ اس کے ماں باپ کبھی بھی مجھ سے اس کی شادی پر تیار نہیں ہوں گے نہ آج نہ ہی آئندہ کبھی… مگر وہ ان کی ناراضی کے باوجود مجھ سے شادی کرنا چاہتا ہے۔”
”اس کے والدین کیوں اعتراض کر رہے ہیں۔ کیا وہ اس کی شادی کہیں اور کرنا چاہتے ہیں؟” ماما جان نے بہت سنجیدگی سے پوچھا۔
”یہ مجھے نہیں پتا۔ اس کی ممی کی ایک بھانجی ہے صوفیہ۔ میں نے آپ کو پہلے بھی اس کے بارے میں بتایا ہے۔ ذالعید کی اس کے ساتھ خاصی انڈر اسٹینڈنگ تھی۔ اس کی ممی کا خیال تھا کہ وہ اس کے ساتھ شادی کرے گا بلکہ صوفیہ بھی یہی سمجھتی تھی مگر اب… وہ صوفیہ کے ساتھ شادی کرنے کا تو نہیں کہہ رہے مگر وہ میرے علاوہ کسی بھی لڑکی سے اس کی شادی پر تیار ہیں۔”
”تم سے کیوں نہیں؟” ماما جان نے اپنے سوال پر مریم کے چہرے پر کچھ تذبذب دیکھا، وہ کچھ کہنا چاہ رہی تھی مگر خاموش رہی۔
”ذالعید سے کہو۔ اپنے ماں باپ سے بات کرے، انہیں منائے۔”
”ماما جان! میں نے اس سے شادی کا وعدہ کر لیا ہے اور اس کے ماں باپ نہ بھی مانیں تو بھی اس سے شادی کر لوں گی۔” وہ غصے میں اٹھ کھڑی ہوئی۔ ”اور اگر آپ نہ مانیں تو پھر میں آپ کی مرضی کی پروا بھی نہیں کروں گی۔ میں اس گھر سے چلی جاؤں گی اور آپ کی مرضی کے بغیر اس سے شادی کر لوں گی۔” ماما جان اس کا چہرہ دیکھتی رہ گئیں۔ وہ اچانک بہت متفکر نظر آنے لگی تھیں۔
”ذالعید نے کہا ہے کہ وہ یہاں خود آ کر آپ سے اپنے پرپوزل کی بات کرے گا۔ آپ اس پرپوزل کو قبول کر لیں اور اس سے میری شادی طے کر دیں۔”
اس کے لہجے میں بے رخی تھی وہ ماما جان سے نظریں نہیں ملا رہی تھی۔ ماما جان نے اس کی بات کے جواب میں کچھ نہیں کہا۔ وہ ایک گہری سوچ میں ڈوبی ہوئی تھیں۔
—–*—–
”ذالعید! آپ نے مریم کو پرپوز کیا ہے؟” ماما جان نے اسے چائے کی پیالی تھماتے ہوئے پوچھا۔
وہ مریم کے کہنے پر ان سے ملنے آیا تھا۔
”جی۔”
”آپ کے گھر والوں کو اس بارے میں پتاہے؟”
”ہاں، وہ جانتے ہیں۔”
”تو کیا یہ بہتر نہیں تھا کہ آپ کے پرپوز کرنے کے بعد آپ کے گھر والے اس سلسلے میں یہاں بات کرنے آتے۔” انہوں نے بہت نرم لہجے میں اس سے کہا وہ سر جھکائے خاموش بیٹھا رہا۔
”مریم نے آپ کو بتایا ہوگا… میرے گھر والے رضامند نہیں ہیں۔” کچھ دیر بعد اس نے سر اٹھا کر بڑی صاف گوئی سے کہا۔
”تو پھر کیا یہ مناسب نہیں ہے کہ آپ مریم سے شادی کی خواہش نہ کریں۔”
وہ ان کے چہرے کو دیکھتے ہوئے کچھ سوچنے لگا۔
”ماما جان! اگر میں مریم سے شادی نہیں کر سکا تو پھر میں کبھی کسی اور سے شادی نہیں کر پاؤں گا۔”
”کیا آپ نے یہ بات اپنے گھر والوں سے کہی؟”
ان کا لہجہ ابھی بھی اسی طرح پرُسکون تھا۔
”ہاں، میں ان سے بہت کچھ کہہ چکا ہوں مگر میں انہیں اپنی بات سمجھا نہیں سکا۔”
”آپ کو ایک بار پھر کوشش کرنی چاہیے۔”
”ماما جان! میں انہیں قائل نہیں کر سکتا، یہ میں اچھی طرح جانتا ہوں۔ بابا نے کہا ہے کہ میں خود مختار ہوں۔ ان کی مرضی کے خلاف شادی کرنا چاہتا ہوں تو کر لوں لیکن وہ اس شادی کے سلسلے میں آپ سے بات کرنے یہاں آئیں گے نہ ہی میری شادی میں شرکت کریں گے۔ میں جتنی دفعہ بھی ان سے بات کروں گا… ان کا جواب یہی ہوگا۔”
”انہیں کس چیز پر اعتراض ہے؟” ماما جان نے پوچھا۔
ذالعید کہہ نہیں سکا۔ ”انہیں آپ پر اعتراض ہے۔” وہ ماما جان کو تکلیف پہنچانا نہیں چاہتا تھا۔
”انہیں بہت ساری باتوں پر اعتراض ہے… ماما جان! دیکھیں میں واقعی خود مختار ہوں۔ میرا اپنا گھر ہے… بزنس ہے… میں کسی بھی لحاظ سے اپنی فیملی پر انحصار نہیں کرتا۔ شادی سے پہلے بھی الگ گھر میں رہتا ہوں شادی کے بعد بھی الگ ہی رہوں گا۔ اس شادی سے مجھے کسی قسم کا کوئی نقصان ہونے کا خدشہ نہیں ہے۔ میری فیملی میری شادی میں شرکت نہ بھی کرے تب بھی بعد میں سب لوگ آہستہ آہستہ اس رشتے کو قبول کر لیں گے۔” اس نے بہت سنجیدگی سے ماما جان سے کہا۔
”اور اگر ایسا نہ ہوا…؟”
”تو بھی مجھے یا مریم کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا… میں جانتا ہوں، آپ کے دل میں بہت سے خدشات ہوں گے۔ لیکن میں آپ کو ہر قسم کی سیکیورٹی دینے کے لیے تیار ہوں۔ آپ چاہیں تو میں مریم کے نام گھر کرنے کو تیار ہوں۔ آپ جتنی رقم چاہیں، میں حق مہر میں دے سکتا ہوں، اس کے علاوہ بھی میں آپ کو ہر قسم کی گارنٹی دینے کو تیار ہوں۔”
”آپ کو لگتا ہے، ذالعید رشتے انسانوں سے نہیں ان چیزوں سے باندھے جاتے ہیں۔ شادی ناکام ہونے کی صورت میں کیا عورت کے لیے یہ کافی ہے کہ اس کے پاس گھر ہو اور اکاؤنٹ میں ڈھیروں کے حساب سے پیسہ ہو… باقی ساری زندگی گزارنے کے لیے کیا یہ دونوں چیزیں کافی ہیں؟”
ذالعید کچھ بے بسی کے عالم میں ماما جان کا چہرہ دیکھنے لگا۔ ان کے چہرے پر بے پناہ سنجیدگی تھی۔
”میں نے یہ نہیں کہا ماما جان…! میں تو صرف سیکیورٹی کی بات کر رہا ہوں۔”
”مریم کو اس معاشرے میں رہنا ہے… میں آپ کے خاندان کی رضامندی کے بغیر اس کی شادی آپ سے نہیں کر سکتی۔” ماما جان نے قطعی لہجے میں کہا۔
”ماما جان! آپ کو مجھ پر اعتبار کرنا چاہیے۔”
”انسان قابل اعتبار نہیں ہوتے۔” وہ مسکرائیں۔
”سب انسان ایک جیسے نہیں ہوتے۔” ذالعید نے اصرار کیا۔
”سب انسان ایک جیسے ہوتے ہیں ذالعید!… خاص طور پر وہ انسان کسی بھی لحاظ سے مختلف نہیں ہوتے جو اپنے آپ کو مختلف مان لینے پر اصرار کرتے ہیں۔”
”میں نے مختلف ہونے کا دعویٰ نہیں کیا… میں نے صرف یہ کہا ہے کہ میں قابل اعتبار ہوں۔ انسانوں پر بھروسا کیا جانا چاہیے ماما جان۔”
”انسانوں پر بھروسا کر بھی لیا جائے تو وقت اور حالات پر بھروسا نہیں کیا جا سکتا۔ وقت اور حالات وہ چیز ہیں جو ہر جذبہ، ہر رشتہ بدل دیتے ہیں… آج آپ اپنے ماں باپ سے محبت اور خونی رشتہ ہونے کے باوجود ایک لڑکی سے شادی پر بضد ہیں اور وہ آپ کو اس سے روک نہیں پا رہے۔ کل اگر آپ مریم کو چھوڑنا چاہیں گے تو میں اور مریم آپ کو کیسے روک پائیں گے۔”
وہ کچھ بول نہیں پایا۔
”اور پھر اس وقت مریم کیا کرے گی؟… آپ کے دیے ہوئے گھر میں رہے گی؟ آپ کے دیے ہوئے نوٹ کھائے گی، پیے گی، اوڑھے گی ان ہی نوٹوں سے اپنے آنسو خشک کرے گی۔ ان ہی نوٹوں سے اپنے ماتھے پر لگی ہوئی بے عزتی پونچھے گی۔ ان ہی نوٹوں سے لوگوں کی آنکھوں میں اگ آنے والے کانٹے اکھاڑے گی؟ ان ہی نوٹوں سے لوگوں کی زبانوں سے ٹپکنے والا زہر صاف کرے گی۔ اپنے اندر اور باہر لگنے والے سارے زخموں پر وہی نوٹ پلاسٹر کی طرح چپکا دے گی اور پھر انہیں نوٹوں سے اپنے لیے ایک اور تاج محل تعمیر کرے گی۔ نہیں ذالعید! یہ رشتہ اگر ہوا تو آپ کے گھر والوں کی مرضی سے ہوگا ورنہ نہیں ہوگا۔ خاندان کی مرضی کے بغیر مریم کی شادی کروا کر میں اسے کسی برزخ میں ڈالنا نہیں چاہتی۔”




Loading

Read Previous

لاحاصل — قسط نمبر ۱

Read Next

لاحاصل — قسط نمبر ۳ (آخری قسط)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!