لاحاصل — قسط نمبر ۲

”خدیجہ! آج رات کے کھانے پر اچھا خاصا اہتمام ہونا چاہیے۔” مظہر نے صبح ناشتے کی میز پر کہا۔
”کیوں آج ایسی کیا خاص بات ہے؟”
”پاکستان سے میرا ایک دوست آیا ہے عاصم، میں اسے آج رات کو کھانے پر گھر لانا چاہتا ہوں۔” مظہر نے مسکراتے ہوئے کہا۔
”پہلی بار تمہارے اس دوست کا نام سن رہی ہوں، پہلے کبھی تم نے ذکر نہیں کیا۔” خدیجہ نے اس کے لیے چائے کا کپ تیار کرتے ہوئے کہا۔
”وہ کیمبرج میں پڑھتا رہا ہے۔ میرے ساتھ لنکنز اِن نہیں گیا، مگر پاکستان میں ہم ایک ہی بورڈنگ میں تھے۔ تم اس سے نہیں ملی ہو۔ میں تمہیں بھی ملوانا چاہتا ہوں۔” مظہر خاصا پرُجوش نظر آ رہا تھا۔
”میں شام کو آفس سے سیدھا اسے لینے کے لیے جاؤں گا اور پھر اسے لے کر ہی گھر آؤں گا۔”
”اگر مینو بتا دیں تو بہتر ہوگا، میں ان کی پسند کی ڈشز بنا لوں گی۔”
خدیجہ نے کہا، مظہر نے اسے کچھ ڈشز بتا دیں۔
اس نے رات کا کھانا بروقت تیار کر لیا۔ جس وقت مظہر گھر آیا، وہ اپنے بیٹے کو سلا رہی تھی دروازہ کھولنے پر اس نے جس شخص کو اپنے سامنے پایا، اسے دیکھ کر اسے یوں محسوس ہوا جیسے وہ اس سے پہلے بھی اسے کہیں دیکھ چکی ہے۔ مگر کہاں؟ اسے یاد نہیں آیا۔ وہ شخص بھی اس پر نظریں جمائے ہوئے تھا۔ مظہر نے ان دونوں کا تعارف کروایا۔
”عاصم! یہ میری بیوی ہے خدیجہ اور خدیجہ یہ میرا دوست عاصم۔”
خدیجہ نے مسکرا کر اس کا حال احوال پوچھا۔ اسے محسوس ہوا کہ عاصم اس سے بات کرتے ہوئے عجیب سے تناؤ کا شکار تھا۔ خدیجہ نے اس بات کی زیادہ پروا نہیں کی۔
”ہو سکتا ہے، وہ کسی وجہ سے پریشان ہو۔”
خدیجہ نے کچن میں جاتے ہوئے سوچا، مظہر عاصم کے ساتھ لاؤنج میں بیٹھا ہوا تھا۔ خدیجہ کھانا لگانے کی تیاری کر رہی تھی۔ ڈائننگ ٹیبل پر برتن رکھتے ہوئے اس کی نظر عاصم پر پڑی، وہ اسے ہی دیکھ رہا تھا۔ نظر ملنے پر وہ مظہر کی طرف دیکھنے لگا، مظہر اس سے باتیں کرتے ہوئے ہنس رہا تھا، مگر خدیجہ الجھ گئی تھی۔ ایک بار پھر اسے شدت سے احساس ہوا کہ وہ چہرہ اس کا شناسا ہے مگر وہ اب بھی یہ یاد رکھنے میں کامیاب نہیں ہو پا رہی تھی کہ وہ اسے کہاں دیکھ چکی ہے۔
واپس کچن میں جا کر اس نے فریج کھولا اور اس کے دماغ میں ایک جھماکہ ہوا… کیمبرج یونیورسٹی، کیمبرج… عاصم… میرے اللہ… اسے اپنے پیروں کے نیچے سے زمین نکلتی ہوئی محسوس ہوئی تھی۔ وہ بھول گئی تھی، اسے فریج سے کیا نکالنا تھا۔ کانپتے ہوئے ہاتھوں کے ساتھ اس نے فریج بند کر دیا۔
میں نے کبھی یہ نہیں سوچا کہ اگر کبھی میرا کوئی گاہک میرے سامنے آ گیا تو کیا ہوگا؟ میں تب خود کو کیسے چھپا پاؤں گی۔ کیا سب کچھ ختم ہو جائے گا۔ اس طرح اچانک… مگر کیوں…؟ میں تو… میں تو… میرے اللہ اب کیا ہوگا؟





عاصم کی الجھن بھری نظروں سے ظاہر تھا کہ وہ اسے پہچان چکا تھا۔ مگر یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ وہ مجھے نہ پہچانا ہو۔ آخر اتنے سال گزر گئے ہیں اور پھر میں نے چادر اوڑھی ہوئی ہے۔ اور میرا چہرہ سادہ ہے مگر تب میں اور طرح کے لباس میں تھی۔ میک اپ کیے ہوئے، کٹے ہوئے بالوں کے ساتھ اور تب میرا نام بھی تو اور تھا، ہو سکتا ہے اسے صرف شبہ ہو یقین نہ ہو… ہو سکتا ہے اس بار بھی اللہ تعالیٰ مجھے چھپا لے۔ وہ اب سنک کے سامنے کھڑی اپنے چہرے پر پانی کے چھینٹے مار رہی تھی۔ اس کا پورا وجود بے جان ہو رہا تھا۔
دوبارہ ٹیبل پر کھانا رکھتے ہوئے اس میں اتنی ہمت نہیں رہی تھی کہ وہ دوبارہ عاصم پر نظر ڈالے۔ مظہر عاصم کو لے کر کھانے کی میز پر آ گیا۔ عاصم کی نظریں ایک بار پھر اس پر اٹھی تھیں۔
”خدیجہ آؤ، کھانا شروع کریں۔” وہ کچن کی طرف جانے لگی تو مظہر نے آواز دی۔
”نہیں… آپ لوگ کھائیں، مجھے بھوک نہیں ہے۔” اس نے بمشکل مسکراتے ہوئے کہا۔ ”پھر بھی تھوڑا بہت تو کھانا چاہیے۔” مظہر نے اصرار کیا۔
”آپ کھانا شروع کریں۔ کھانا ٹھنڈا ہو رہا ہے۔ مجھے واقعی بھوک نہیں ہے۔” وہ کچن میں گھس گئی۔
”خدیجہ بہت اچھا کھانا پکاتی ہے۔ اس نے سب کچھ خود پکانا سیکھا ہے۔ اور اب ایسے پاکستانی کھانے بناتی ہے کہ تم بھی کھا کر حیران ہو جاؤ گے۔”
مظہر کی آواز کچن میں آ رہی تھی، اس نے عاصم کو جواب میں کچھ بھی کہتے نہیں سنا، مظہر اصرار کر کے اسے کھانا کھلا رہا تھا۔
”میں حیران ہوں، تمہیں ہوا کیا ہے۔ تم اس طرح کے تکلفات برتنے والے انسان تو نہیں تھے۔”
وہ اس سے کہہ رہا تھا اور خدیجہ کو لگا۔ کوئی اس کے پیٹ میں گھونسے مار رہا ہو، ”کیا وہ مجھے پہچان چکا ہے؟ اور اگر ایسا ہے تو کیا وہ… کیا وہ…” وہ آگے کچھ سوچنا نہیں چاہتی تھی۔
کھانے کے بعد اس نے ان لوگوں کو چائے سرو کی اور اس بار خدیجہ نے عاصم کی نظروں میں جو سردمہری اور حقارت دیکھی تھی۔ اس نے اسے لرزا دیا تھا۔ شک کی کوئی گنجائش نہیں رہی تھی۔ وہ اسے پہچان چکا تھا۔ وہ چائے سرو کر کے واپس کچن میں آئی اور اس وقت اس کا دل چاہا، وہ عاصم کے قدموں پر گر کر اس سے کہے کہ وہ اسے نہ پہچانے۔ اس کے اس ماضی کو بے شناخت رہنے دے جسے وہ چھوڑ آئی ہے۔ اس کے گھر کو تباہ نہ کرے… وہ ایسا کچھ بھی نہیں کر سکتی تھی۔
چائے پینے کے کچھ دیر بعد جب وہ برتن اٹھا رہی تھی تو مظہر عاصم کو چھوڑنے کے لیے اٹھ گیا، خدیجہ ایک بار پھر دروازہ بند کرنے کے لیے ان کے پیچھے گئی۔
”میں بس آدھے گھنٹے میں واپس آتا ہوں۔”
مظہر نے دروازے سے نکلتے ہوئے پلٹ کر مسکراتے ہوئے اس سے کہا۔ وہ مسکرا نہیں سکی۔ اس کے گلے میں پھندا ڈالا جا چکا تھا۔
دروازہ بند کرتے ہی اس کا حوصلہ جواب دے گیا تھا۔ وہ پھوٹ پھوٹ کر روتی ہوئی واپس لاؤنج میں آئی، جلے پیر کی بلی کی طرح وہ روتے ہوئے بے تابی سے لاؤنج میں چکر لگانے لگی۔ میں کیا کروں کہ میرا گھر تباہ نہ ہو؟ میں کیا کروں کہ مظہر مجھے نہ چھوڑے… کب سب کچھ ایک بار پھر سے ختم ہو جائے گا؟ میرا سب کچھ ختم ہو جائے گا؟ وہ بچوں کی طرح بھاگتی ہوئی واش روم میں گئی۔
”میرے عیب کو چھپا دے۔ اللہ میرے عیب کو چھپا دے۔” اس نے بے تحاشا روتے ہوئے وضو کیا۔
جائے نماز پر سجدے میں روتے ہوئے اس نے دعا کی عاصم مظہر کو کچھ نہ بتائے۔ ”میں نے کیا ریت کا گھر بنایا تھا کہ پانی کی ایک لہر ہی اس کو بہا لے جائے گی؟ مظہر مجھے چھوڑ دے گا تو میں کیا کروں گی؟” اس نے اس رات وہاں جائے نماز پر ہر وہ دعا ہر وہ آیت پڑھی جو اسے آتی تھی۔
اور پھر اچانک اسے احساس ہوا کہ مظہر کو گئے ایک گھنٹہ ہو چکا ہے اور وہ ابھی تک واپس نہیں آیا۔ ”ٹھیک ہے، عاصم نے اس کو بتا دیا ہوگا۔ مگر مظہر مجھے کبھی نہیں چھوڑے گا تین سال سے میں اس کے ساتھ ہوں۔ اسے مجھ سے محبت ہے… اس کے بیٹے کی ماں ہوں میں… وہ ناراض ہوگا… چیخے گا، چلائے گا مگر مجھے چھوڑے گا نہیں… اپنا گھر کیسے تباہ کرے گا وہ؟ اپنے بیٹے اور میرے بغیر کیسے رہے گا وہ؟ اس نے چار سال میرے لیے انتظار کیا… میرے لیے سب کچھ چھوڑ دیا… ماں باپ، بہن بھائی، یہ تو نہیں ہو سکتا کہ وہ مجھے میرے ماضی کی وجہ سے چھوڑ دے… پھر تین سال میں نے اس کی اطاعت کی ہے۔ وہ میری تعریف کرتا ہے۔ اسے مجھ پر فخر ہے، پھر وہ تو نہیں چھوڑ سکتا مجھے۔ میں اس کو بتاؤں گی کہ میں کس قدر مجبور تھی میرے پاس کوئی راستہ نہیں تھا۔ وہ سمجھ جائے گا۔ وہ کیوں نہیں سمجھے گا آخر محبت ہے اسے مجھ سے۔” وہ اپنے گالوں پر پھسلتے آنسوؤں کو رگڑتے ہوئے خود کو دلاسے دے رہی تھی۔
”وہ قرآن پڑھاتا رہا ہے مجھے… نیکی کے بارے میں جانتا ہے اور معاف کرنا بھی تو نیکی ہوتی ہے۔ جو شخص اتنا مذہبی ہو، جتنا وہ ہے وہ بے رحم تو نہیں ہو سکتا۔ اور مظہر تو کبھی بھی نہیں۔”
گھڑی کی سوئیاں آہستہ آہستہ اپنا سفر طے کر رہی تھیں۔ اس کی زندگی بھی اپنا سفر طے کر رہی تھی، گھڑی کی سوئیاں وقت کو آگے لے جا رہی تھیں۔ اس کی زندگی اسے پیچھے لے جا رہی تھی۔ سوئیوں کو بار بار ایک ہی راستے پر سفر کرنا تھا۔ اس کی زندگی کو بھی بار بار ایک ہی راستے پر سفر طے کرنا تھا۔ زوال سے عروج، عروج سے زوال گھڑی کی سوئیاں بارہ پر پہنچ چکی تھیں، ایک… دو… تین… انہوں نے زوال کی طرف اپنا سفر شروع کر دیا۔
خدیجہ نے قرآن پاک کھول لیا۔ گھڑی کی سوئیوں کو نیچے جانے سے کوئی روک نہیں پا رہا تھا۔ اس کے زوال کو روکا جا سکتا تھا۔ صرف ایک ذات یہ کام کر سکتی تھی اور وہ اسی کے سامنے دامن پھیلائے ہوئے بیٹھی تھی۔ اس سے اس زوال کو روکے جانے کی بھیک مانگ رہی تھی۔ مگر کیا اس کا زوال واقعی زوال تھا؟ اور کیا ہمارا زوال واقعی ہمارا زوال ہوتا ہے؟ یا پھر ہمارا زوال کسی دوسرے کا زوال ہوتا ہے؟
—–*—–
”تم بہت خاموش ہو؟” مظہر نے گاڑی ڈرائیو کرتے ہوئے عاصم کی خاموشی کو محسوس کیا…
”نہیں… ایسی کوئی بات نہیں۔” عاصم مسکرایا۔
”خدیجہ کیسی لگی تمہیں؟” مظہر نے عاصم سے پوچھا، عاصم نے جواب دینے کے بجائے مظہر کے چہرے کو ایک نظر دیکھا۔
”پرانا نام کیا ہے اس کا؟” جواب دینے کے بجائے اس نے سوال کیا۔
”کیتھرین براؤن… میں اس کو کیتھی کہتا تھا۔”
”اس کی فیملی کہاں ہے؟” عاصم نے ایک اور سوال کیا۔
”خدیجہ کی…؟ اس کی کوئی فیملی نہیں ہے۔ والدین کی اکلوتی اولاد تھی۔ باپ پاکستانی تھا، چھوڑ کر چلا گیا اور ماں مر چکی ہے۔ تب سے اکیلی رہ رہی ہے۔” مظہر نے کچھ حیران ہوتے ہوئے اسے بتایا۔
”کیا کرتی تھی شادی سے پہلے…؟”
مظہر اس کے سوالوں پر حیران ہو رہا تھا۔ عاصم کو اتنی لمبی چوڑی تفتیش کی عادت نہیں تھی اور اب اس کی خدیجہ کے بارے میں اس طرح گفتگو…
”کسی اسٹور میں سیلز گرل تھی۔” عاصم اس کے جواب پر عجیب سے انداز میں مسکرایا۔
”سیلز گرل؟ بس…” اس نے الجھے ہوئے انداز میں اسے دیکھا۔ ”کیا مطلب ہے تمہارا؟ اس طرح سے بات کیوں کر رہے ہو؟”
”مظہر تمہیں کیتھی سے شادی نہیں کرنی چاہیے تھی۔” مظہر کو اس کا تبصرہ برا لگا۔
”کیتھی نہیں خدیجہ… اور مجھے اس سے شادی کیوں نہیں کرنی چاہیے تھی؟” اس نے تصحیح کرتے ہوئے عاصم سے پوچھا۔
”خدیجہ نہیں کیتھی۔ وہ جس قسم کی عورت ہے ویسی عورتیں صرف کلمہ پڑھنے سے مسلمان نہیں ہوتیں۔” عاصم نے خاصے تلخ لہجے میں کہا۔
”مائنڈ یور لینگویج عاصم! تم میری بیوی کے بارے میں بات کر رہے ہو اور میں اس کے بارے میں کوئی بے ہودہ تبصرہ نہیں سنوں گا… اگر میں نے اپنے ماں باپ کو اس کے بارے میں کوئی بات کرنے نہیں دی تو تمہیں بھی نہیں کرنے دوں گا۔”
”جس عورت کو تم اپنی زندگی کا حصہ بنائے پھر رہے ہو، اس کے بارے میں کوئی کچھ بھی کہہ سکتا ہے۔ کوئی فرق نہیں پڑتا۔”
مظہر نے چونک کر اسے دیکھا۔ ”تم خدیجہ کو جانتے ہو؟”
”گاڑی کو پہلے کہیں روک دو۔ اس کے بعد بات کرتے ہیں؟”
”تم ایسے ہی بات کرو۔”
”نہیں! تم پہلے گاڑی کو روکو۔” عاصم اپنی بات پر مصر تھا۔
مظہر نے اس بار کچھ کہے بغیر خاموشی سے ایک جگہ تلاش کر کے گاڑی روک دی، عاصم نے اس کے چہرے پر تناؤ کی کیفیت محسوس کی۔
”دیکھو، اگر تم مجھے خدیجہ کے شادی سے پہلے کے کسی افیئر کے بارے میں بتانا چاہ رہے ہو تو مت بتانا… میں نے اسے اس کی ساری خامیوں کے ساتھ قبول کیا ہے۔ وہ جس معاشرے سے تعلق رکھتی ہے وہاں بہت ساری چیزیں زندگی کا حصہ ہوتی ہیں یا بن جاتی ہیں۔ ہمارے اور یہاں کے کلچر اور روایات میں بہت فرق ہے۔ بلکہ اخلاقیات میں بھی۔ اور اس سے شادی سے پہلے بھی میں اس فرق سے واقف تھا، بہت غور کیا تھا میں نے اس پر اور یہ سوچ کر اس سے شادی کی تھی کہ اس سے بہت ساری ایسی غلطیاں ہو چکی ہوں گی جو شاید میرے اپنے معاشرے اور مذہب کی کسی لڑکی سے ہوں تو… لیکن اس کے ساتھ میں نے اپنی زندگی شادی سے شروع کی ہے اور مجھے غرض ہے اس زندگی سے جو وہ شادی کے بعد میرے ساتھ گزار رہی ہے اور میں اس حوالے سے مطمئن ہوں… وہ ایک اچھی بیوی ہے… اچھی ماں ہے اور اچھی مسلمان بھی بننے کی کوشش کر رہی ہے۔”
گاڑی روکتے ہی عاصم کے کچھ کہنے سے پہلے مظہر نے کہنا شروع کر دیا تھا۔
”خود خدیجہ نے بھی شادی سے پہلے اپنی پارسائی کے کوئی دعوے نہیں کیے۔ اس نے مجھے بتایا تھا کہ اس کے کچھ بوائے فرینڈ رہے ہیں، وہ ڈرنک بھی کرتی رہی ہے۔ مگر ٹھیک ہے مجھے اس سب کی توقع تھی کیونکہ یہاں کی عورت کے لیے یہ سب کچھ برا نہیں سمجھا جاتا۔”
”بس کیتھی نے تمہیں یہی سب بتایا ہے یا کچھ اور بھی بتایا ہے؟” عاصم نے بے تاثر آواز میں کہا۔
”کچھ اور…؟ کیا اس کے بارے میں ”کچھ اور” بھی ہے؟” مظہر نے کچھ طنزیہ انداز میں کہا۔
”میرا خیال ہے، نہیں ہے۔”
”تمہارا خیال غلط ہے۔ میری بات بہت تحمل سے سننا… جس عورت کو تم کیتھرین براؤن کے نام سے جانتے ہو۔ میں اسے Dusky Damsel کے نام سے جانتا ہوں۔” عاصم نے ٹھہر ٹھہر کر کہا۔ مظہر ایک لمحے کے لیے ساکت ہوا پھر یک دم مشتعل ہو گیا۔
”تم اسے کسی بھی نام سے جانتے ہو، میں تمہیں بتا چکا ہوں کہ مجھے اس کے پچھلے بوائے فرینڈز کے بارے میں جاننے میں کوئی دلچسپی نہیں۔” عاصم نے اس کی بات کاٹ دی۔
”بوائے فرینڈ میں اور گاہک میں فرق ہوتا ہے۔” مظہر کو لگا اس کے خون کی گردش رک گئی تھی۔ گاڑی کے اندر اسے یک دم سردی لگنے لگی۔ پلکیں جھپکائے بغیر وہ عاصم کا چہرہ دیکھتا رہا۔
”شاید میں نے کچھ غلط سنا ہے یا پھر عاصم کی بات سمجھنے میں غلطی کی ہے۔” اس نے دل ہی دل میں خود کو تسلی دینے کی کوشش کی۔
”وہ ایک کال گرل ہے۔” عاصم نے اپنے لفظوں پر زور دیتے ہوئے کہا۔
”تم بکواس کر رہے ہو۔” اس نے بے اختیار کہا۔ اس کی بات کے جواب میں کچھ کہنے کے بجائے عاصم نے اپنی جیب سے اپنا والٹ نکالا اور اس میں سے کچھ تلاش کرنے لگا۔ چند لمحوں کے بعد اس نے پاکٹ ڈائری نکالی اور ایک نمبر تلاش کر کے بلند آواز میں اسے پڑھنے لگا۔ مظہر کو اپنے پورے وجود پر چیونٹیاں رینگتی ہوئی محسوس ہوئیں۔
”یہ لیسٹر میں کیتھی کے فلیٹ کا فون نمبر ہے۔” مظہر نے اپنے کانپتے ہوئے ہاتھوں کو اسٹیئرنگ پر جما دیا۔ وہ کیسے جانتا تھا کہ وہ لیسٹر میں رہتی رہی ہے؟
”تین سال پہلے ایک دوست نے مجھے اس کا فون نمبر دیا تھا۔ تب ایک رات میں نے بھی اس کے ساتھ گزاری تھی۔” عاصم اب مدھم آواز میں اس کے فلیٹ کا ایڈریس دہرا رہا تھا۔ گاڑی کے باہر پھیلی ہوئی تاریکی مظہر کو اپنے اندر اترتی محسوس ہوئی۔
”یونیورسٹی کے ہاسٹل میں رہنے والے میرے اکثر دوست اس کے مستقل کسٹمرز میں سے تھے۔ میں بھی ایسے ہی ایک دوست کے توسط سے اس تک پہنچا۔” مظہر کو اب سانس لینے میں دقت ہو رہی تھی۔ ”میں نہیں جانتا تھا کہ اس کا نام کیتھرین ہے یا نہیں شاید جس رشتے سے میں اس تک پہنچا تھا وہاں نام کی ضرورت ہی نہیں پڑتی۔
ہم اسے Dusky Damsel کے نام سے جانتے تھے، تمہارے گھر اس کو پہلی نظر میں دیکھتے ہی میں پہچان گیا اور میرا خیال ہے وہ بھی مجھے پہچان گئی، وہاں ہم دونوں کی خاموشی کی وجہ یہی تھی۔”
مظہر کو اپنی ٹانگیں مفلوج لگیں۔
”تمہارے گھر میں تمہاری بیوی کے روپ میں اسے دیکھ کر میں شاکڈ رہ گیا۔ میری سمجھ میں نہیں آیا میں کس ردعمل کا اظہار کروں۔ میں اندازہ نہیں کر سکا کہ تم نے جانتے بوجھتے ایک کال گرل سے شادی کی ہے یا پھر تم اس بات سے بے خبر تھے۔ یہاں گاڑی میں تم سے بات کرتے ہوئے مجھے اندازہ ہوا کہ تم کیتھی کے ماضی کے بارے میں بے خبر تھے۔” مظہر نے عاصم کے چہرے سے نظریں ہٹا لیں، ونڈاسکرین پر گرتی ہوئی برف ہر چیز کو اس کی نظر سے اوجھل کر رہی تھی۔
”مشرق ہو یا مغرب، کوئی بھی مرد کسی کال گرل کو بیوی کبھی نہیں بناتا، آنکھوں دیکھی مکھی کون نگل سکتا ہے۔ میں نہیں جانتا، تمہارے ساتھ وہ کتنی پارسائی کی زندگی گزار رہی ہے۔ ہو سکتا ہے وہ گزار ہی رہی ہو۔مگر کب تک، دو سال، پانچ سال، دس سال، مغربی عورت تو ویسے ہی گھر نہیں بساتی۔ پھر ایسی عورت جو کال گرل بھی رہی ہو تو… کتنی چوکیداری کرو گے اس کی؟ کس کس سے ملنے سے روکو گے؟ جو عورت تمہیں اپنی زندگی کی اتنی بڑی حقیقت سے بے خبر رکھ سکتی ہے وہ اور کیا تم سے چھپائے گی؟ تم اندازہ لگا سکتے ہو؟ ایسی عورت تمہاری نسل کو آگے بڑھائے گی جو…”
عاصم بات کرتے کرتے خاموش ہو گیا بعض دفعہ نہ کہی جانے والی بات زیادہ تلخ ہوتی ہے۔ مظہر نے اس کڑواہٹ کو محسوس کر لیا۔




Loading

Read Previous

لاحاصل — قسط نمبر ۱

Read Next

لاحاصل — قسط نمبر ۳ (آخری قسط)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!