لاحاصل — قسط نمبر ۲

دروازے پر قدموں کی چاپ سنائی دی۔ خدیجہ کی ساری حسیات بیدار ہو گئیں۔ چند لمحوں بعد اس نے کی ہول میں چابی لگنے کی آواز سنی۔ خلاف معمول مظہر نے ڈوربیل نہیں بجائی تھی۔ چند لمحوں بعد دروازہ کھل گیا۔ مظہر اندر آیا۔ وہ اب اپنا کوٹ دروازے کے پیچھے لٹکا رہا تھا۔ خدیجہ اپنی جگہ سے کھڑی ہو گئی۔
وہ کوٹ لٹکانے کے بعد اندر آیا۔ خدیجہ پر اس نے ایک نظر ڈالی اور پھر کچھ کہے بغیر بیڈروم کا دروازہ کھول کر اندر چلا گیا۔ خدیجہ کی ٹانگیں کانپنے لگیں۔ بے اختیار سینٹر ٹیبل کا سہارا لیتے ہوئے وہ صوفہ پر بیٹھ گئی۔ پچھلے تین سالوں میں وہ اس کے ہر انداز ہر نظر کو پہچان چکی تھی۔ مگر چند لمحے پہلے خود پر پڑنے والی نظر سے وہ آشنا نہیں تھی… اس کے تمام خدشات سچ ہو چکے تھے… عاصم اسے پہچان چکا تھا اور اس نے…
”اس نے مظہر کو میرے بارے میں کیا بتایا ہے؟” اس کا دل ڈوبنے لگا۔ ”یہ کہ میں…” اس کا جسم سرد تھا مگر ماتھے پر پسینے کے قطرے چمکنے لگے۔
تین سالوں میں تاش کے پتوں سے بنایا جانے والا گھر ہوا کے ایک ہی جھونکے میں زمین بوس ہو چکا تھا۔ ”اب آگے کیا ہوگا؟ مجھے کیا کرنا چاہیے… مظہر کے سامنے کس طرح…” زوال کا وقت شروع ہو چکا تھا۔ لاؤنج کی خاموشی اس کے اعصاب کو چٹخانے لگی تھی۔
”مجھے اس سے بات کرنی چاہیے۔ اسے بتانا چاہیے کہ میں نے کیوں سب کچھ اس سے چھپایا… میں کن حالات میں کال گرل بنی… وہ تین سال سے مجھے جانتا ہے۔ میں جس طرح کی زندگی گزار رہی ہوں وہ اس کے سامنے ہے… میں اس کے بچے کی ماں ہوں… وہ مجھ سے محبت کرتا ہے۔ میں نے تین سال میں کبھی اسے شکایت کا موقع نہیں دیا… کبھی اس کی حکم عدولی نہیں کی۔ کبھی اسے دھوکا نہیں دیا… وہ صرف میرے ماضی کی بنا پر تو مجھے نہیں چھوڑ سکتا۔ وہ ایک اچھا مسلمان ہے۔ نماز پڑھتا ہے۔ روزے رکھتا ہے۔ زکوٰة دیتا ہے… اسلام کے بارے میں مکمل علم رکھتا ہے۔ وہ مجھے معاف کر دے گا… کچھ دیر کے لیے ناراض ضرور ہوگا، مگر مجھے معاف کر دے گا۔ ہماری زندگی کو نارمل ہونے میں کچھ وقت لگے گا… مگر پھر وہاں کوئی چیز حائل نہیں ہو سکتی۔”
دھیمے قدموں سے چلتے ہوئے وہ بیڈروم کے دروازے تک گئی۔ چند لمحوں تک وہ اپنی ہمت مجتمع کرتی رہی، پھر اس نے کانپتا ہوا ہاتھ دروازے پر رکھ کر دروازہ کھول دیا۔ سامنے موجود بیڈ بے شکن تھا۔ لیکن کمرے کے ایک کونے میں موجود وارڈ روب کھلی ہوئی تھی اور مظہر اس وارڈ روب میں سے اپنے کپڑے نکال کر فرش پر پڑے ہوئے سوٹ کیس میں پھینکتا جا رہا تھا۔
خدیجہ کا دل ڈوب گیا۔ ”کیا وہ گھر چھوڑنے لگا تھا؟”
”مظہر! کیا… کیا کر رہے ہو؟” لڑکھڑاتی ہوئی آواز میں اس نے مظہر کو مخاطب کیا۔





وہ اپنے کام میں مصروف رہا۔ وہ کچھ دیر اس کے جواب کی منتظر رہی، پھر کچھ اضطراب کے عالم میں آگے بڑھ آئی۔
”کیا بات ہے؟” وہ اب بھی بے تاثر چہرے کے ساتھ اپنے کام میں مصروف رہا۔ خدیجہ نے وارڈ روب میں سے ایک سوٹ اتارتے ہوئے اس کا ہاتھ پکڑنے کی کوشش کی۔
”عاصم نے کیا کہا ہے تم سے؟” مظہر نے اس کی بات کے جواب میں برق رفتاری سے بائیں ہاتھ کا تھپڑ اس کے منہ پر مارا۔ وہ بری طرح فرش پر گری۔
”دوبارہ کبھی مجھے ہاتھ لگانے کی کوشش مت کرنا۔” وہ بلند آواز میں چلایا۔ تین سال میں پہلی بار اس نے مظہر کو چلاتے دیکھا تھا۔
خدیجہ کی آنکھوں میں بے اختیار آنسو آ گئے۔ اس کے لیے تشدد کوئی نئی چیز نہیں تھی، سولہ سال سے بائیس سال کی عمر تک وہ جس پیشے سے وابستہ رہی تھی۔ وہاں گالیاں ،مارکٹائی اس پروفیشن کا ایک حصہ تھا (اگر اسے پروفیشن کہا جا سکے تو) مگر مظہر کے ہاتھ کے ایک تھپڑ نے اسے جتنی تکلیف پہنچائی تھی اس سے پہلے اسے اس کا سامنا نہیں ہوا تھا۔
مظہر ایک بار پھر اس کی طرف پشت کیے، اپنے کپڑے نکالنے میں مصروف تھا۔ خدیجہ کو اپنی ناک سے کوئی چیز بہتی محسوس ہوئی۔ اس نے ہاتھ لگا کر دیکھنے کی کوشش کی۔ اس کے ہاتھ کی پوریں خون آلود ہو گئیں۔
قمیض کی آستین سے اس نے ناک سے بہنے والا خون صاف کیا اور ایک بار پھر اٹھ کر کھڑی ہو گئی۔ ”مظہر پلیز! مجھے معاف کر دو… تم مجھے مارنا چاہتے ہو تو مار لو… برا بھلا کہنا چاہتے ہو کہو… مگر یہاں سے مت جاؤ۔” اس نے اپنے دونوں ہاتھ اس کے سامنے جوڑ دیے۔
”یہاں سے نہ جاؤں… اور ساری زندگی ایک کال گرل کے ساتھ گزار دوں۔” وہ اپنے کپڑے ہینگر سے اتارتے ہوئے رک گیا۔ ”تم نے کبھی سوچا ہے میرے ساتھ کیا کیا ہے تم نے؟ میری آنکھوں پر کس طرح پٹی باندھ کر چلا رہی ہو مجھے؟… میری محبت اور خلوص کا کس طرح مذاق اڑایا ہے تم نے… میرا باپ ٹھیک کہتا تھا مغرب میں مرد اور عورت نہیں ہوتے… جانور ہوتے ہیں۔ مہذب اور ترقی یافتہ نظر آنے والے جانور… میرے خاندان کو جانتی ہو تم، وہاں کتا رکھنے سے پہلے اس کی بھی نسل دیکھی جاتی ہے۔ جس لڑکی سے میرا باپ میری شادی کروانا چاہتا تھا، اس کا سایہ تک کسی دوسرے مرد نے نہیں دیکھا… اور تم… تم وہ عورت ہو جو پیسوں کے عوض…” وہ رک گیا۔
خدیجہ کو لگا وہ ایک الاؤ میں کھڑی ہے اور مظہر اس الاؤ میں ایک ایک کر کے لکڑیاں ڈال رہا ہے۔
”مجھے لگتا ہے، مجھے اپنے والدین کی نافرمانی کی سزا ملی ہے تمہاری صورت میں…”
الاؤ میں ایک اور لکڑی گری۔ آگ اور بھڑکی۔ ”مظہر خان کی بیوی ایک کال گرل… Dusky Damsel یہی نام ہے نا تمہارا… جس سے تم یہاں جانی جاتی تھیں۔” وہ پوچھ رہا تھا۔
”میں سب کچھ چھوڑ چکی ہوں مظہر! سب کچھ، میں نے تمہارے ساتھ اپنی زندگی دوبارہ شروع کی ہے۔”
”کتنے عرصہ کے لیے؟ پانچ سال کے لیے یا دس سال کے لیے… اور کیوں جسٹ فار اے چینج یا پھر یہ سوچ کر کہ کبھی کبھی صرف ایک مستقل گاہک بھی تو ہونا چاہیے، میرے جیسا گاہک… جس کی جیبیں نوٹوں سے بھری ہوئی ہوں۔ پڑھا لکھا ہو… خوبصورت ہو… اور ہاں بے وقوف بھی ہو، جو تمہارے ساتھ شادی بھی کر لے، اپنے بچے کی ماں بھی بنا دے… ہے کوئی مظہر جیسا بے وقوف؟” اس کے لہجے کی تلخی بڑھتی جا رہی تھی۔ وہ اب اپنا سوٹ کیس بند کر کے دوسرا سوٹ کیس کھول رہا تھا۔
”میرے ماضی کو مت دیکھو مظہر! میرے ماضی کو بھول جاؤ۔ میری آئندہ زندگی میں تم کوئی برائی نہیں پاؤ گے۔ میں تین سال سے تمہارے ساتھ ہوں… کیا میں نے تین سال میں خود کو اچھی بیوی ثابت نہیں کیا؟ کیا میں اچھی ماں نہیں ہوں؟… کیا تین سال میں، میں نے تمہاری اطاعت نہیں کی…؟ کیا تین سال میں، میں تمہارے علاوہ کسی دوسرے مرد کی طرف گئی؟ کیا میں نے اپنے جسم کو اس طرح چھپائے نہیں رکھا جس طرح تم نے چاہا؟ کیا میں نے اپنی نظروں کو اس طرح جھکائے نہیں رکھا جس طرح تمہاری خواہش تھی؟ کیا میں کبھی تم سے پوچھے بغیر گھر سے باہر نکلی؟ یا کسی ایسے شخص کو گھر میں آنے دیا جسے تم نے ناپسند کیا؟ کیا میں اسلام قبول کرنے کے بعد اس طرح عبادت نہیں کرتی جس طرح حکم ہے؟ کیا شادی سے پہلے میں نے تمہارے سامنے اپنی پارسائی کے ڈنکے بجائے تھے، جس اللہ سے تم محبت کرتے ہو، میں بھی اسی سے محبت کرتی ہوں،جس پیغمبرۖ کو تم مانتے ہو، میں بھی اب اسی کو مانتی ہوں۔ دین کے جس راستے پر تم چل رہے تھے اب میں بھی اسی پر چل رہی ہوں۔”
”تم نے جو کچھ کیا پیسے کے لیے کیا… جو کچھ کر رہی ہو پیسے کے لیے کر رہی ہو۔” وہ اس کی بات پر ساکت رہ گئی۔
”جانتی ہو شادی سے پہلے کس علاقے میں رہتی تھیں اور اب کہاں ہو… کون سی چیز ہے جو میں نے تمہیں مہیا نہیں کی… میرے بجائے کوئی اور تمہیں یہ سب کچھ دیتا، چاہے اس کا تعلق کسی بھی مذہب سے ہوتا تو تم وہی کرتیں جو وہ کہتا… پارسا ہونے کے لیے کہتا تو پارسا ہو جاتیں اور تب تک پارسا ہی رہتیں جب تک سب کچھ ملتا رہتا۔” خدیجہ کا چہرہ زرد ہو گیا۔
”میں تمہاری پارسائی کو تب تسلیم کرتا اگر میرے بجائے کسی بھکاری سے شادی کرتیں جو تمہیں زندگی کی ہر نعمت کے لیے ترساتا اور تم پھر بھی مسلمان رہتیں پھر بھی پارسا رہتیں پھر بھی اس شخص کی وفادار ہوتیں پھر بھی اسی طرح عبادت کرتیں پھر بھی گھر کے اندر رہتیں پھر بھی اپنے شوہر کی اطاعت کرتیں۔ اچھی بیوی بنتیں، اچھی ماں ہوتیں… مگر تب تم کبھی یہ سب کچھ نہ کرتیں، اگر تم میں اتنی قناعت ہوتی تو تم کچھ بھی ہوتیں مگر کال گرل نہ ہوتیں۔” وہ اپنا دوسرا سوٹ کیس بھی اپنی کتابوں اور دوسری چیزوں سے بھر چکا تھا۔
”نہیں تم سے پیسے کے لیے شادی نہیں کی تھی۔ تم سے یہ سوچ کر بھی شادی نہیں کی تھی کہ تم بہت پڑھے لکھے ہو، یا بہت بڑے وکیل بنو گے… تم سے تو اس عزت کے لیے شادی کی جو تم مجھے دے رہے تھے، پیسہ بہت سے لوگوں نے دیا مجھے لیکن عزت کسی نے نہیں دی۔” وہ اب جیسے بڑبڑا رہی تھی۔ ”خواہش ہونے لگی میں ویسی زندگی گزاروں جیسی تم گزارتے تھے۔ مجھے لگا میں تمہارے ساتھ بات کر سکتی ہوں۔ اللہ کے بارے میں بلکہ شاید صرف تم ہی سے بات کر سکتی تھی اللہ کے بارے میں… میں نے ان دنوں اپنے مذہب کے بارے میں کچھ نہ جانتے ہوئے بھی اللہ سے اتنی دعا کی… کہ تم مجھے مل جاؤ کہ تم میرا مقدر بن جاؤ کہ تم کو میرے بارے میں کچھ پتا نہ چلے۔ یقین کرو مظہر! میں نے اس رمضان میں روزے بھی رکھے تھے صرف اس لیے کہ تم رکھتے تھے۔ میں ہر وہ چیز کرتی تھی جو تم کرتے تھے۔ میں نے پیسہ کہاں دیکھا تھا تمہارا۔”
”طوائف کا خدا صرف پیسہ ہوتا ہے… اس کا ہر رشتہ پیسے سے شروع ہوتا ہے، پیسہ پر ختم ہو جاتا ہے۔ وہ اللہ کا نام لے تو یہ بھی ڈھونگ لگتا ہے۔ کیا طوائف کو کبھی اللہ مل سکتا ہے؟” وہ اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے پوچھ رہا تھا۔
وہ کچھ بول نہیں سکی۔ اس نے اعتراف کیا، زندگی میں بہت سے سوال لاجواب کر دیتے ہیں۔
”ہاں، یہ میں نے کبھی نہیں سوچا کہ کیا طوائف کو اللہ مل سکتا ہے؟”
مظہر ایک سوٹ کیس اٹھا کر بیڈروم سے نکل گیا۔ خدیجہ بیڈ پر بیٹھ گئی۔ وہ کچھ دیر کے بعد دوبارہ کمرے میں داخل ہوا اور دوسرے سوٹ کیس اٹھانے لگا۔
”تم ایک اچھے مسلمان ہو! مظہر ایک عملی مسلمان۔ ایک اچھا مسلمان معاف بھی تو کر دیتا ہے۔ تم مجھے معاف کر دو۔” مظہر نے ایک نظر اس پر ڈالی اور دوٹوک انداز میں کہا۔
”نہیں، طوائف کو کوئی معاف نہیں کرتا اور میں نے زندگی میں اتنے گناہ نہیں کیے کہ مجھے اپنی زندگی ایک کال گرل کے ساتھ گزارنی پڑے یا میری اولاد ایک کال گرل کے ہاتھوں میں پرورش پائے۔” وہ ایک بار پھر کمرے سے باہر نکل گیا۔ خدیجہ یک دم لرز گئی۔
”اولاد؟ کیا وہ اپنے بیٹے کو بھی لے جائے گا؟” وہ تقریباً بھاگتی ہوئی بے بی کاٹ کے پاس گئی جہاں اس کا بیٹا سو رہا تھا۔
مظہر کچھ دیر بعد پھر بیڈروم میں آیا۔ اس بار وہ سائیڈ ٹیبل کے پاس گیا۔ ایک کاغذ پر اس نے کچھ لکھا۔ جیب سے چیک بک نکال کر ایک چیک سائن کیا اور پھر بے بی کاٹ کی طرف بڑھا۔ خدیجہ خوف کے عالم میں اسے دیکھ رہی تھی۔ کاغذ اور چیک کو اس نے خدیجہ کی طرف اچھالا اور خود بچے کو اٹھانے لگا۔
”نہیں مظہر! اس کو مت لے جاؤ۔ اسے میرے پاس رہنے دو… یہ بہت چھوٹا ہے۔ میرے بغیر کیسے رہے گا؟” خدیجہ نے دونوں ہاتھوں سے اپنے بیٹے کو پکڑ لیا۔ مظہر نے ایک جھٹکے سے اسے کھینچ لیا۔
”میں نے تمہیں طلاق دے دی ہے، اس لیے اپنے بیٹے کو یہاں چھوڑنے کا تو جواز ہی پیدا نہیں ہوتا۔”
”نہیں مظہر! تم اسے نہیں لے جا سکتے۔ یہ میرا بیٹا ہے، میرے پاس رہے گا۔ کچھ تو میرے پاس رہنے دو۔” وہ روتی ہوئی اس کے سامنے آ گئی۔
”میں اپنی اولاد تمہارے پاس نہیں چھوڑوں گا، تمہارے پاس اسے چھوڑنے کے بجائے میں اسے مار دوں گا۔ تمہارے سامنے مار دوں؟” مظہر نے ایک ہاتھ بچے کی گردن پر رکھ دیا۔ وہ بے اختیارخوف کے عالم میں پیچھے ہو گئی۔
”کبھی اس کے لیے کچھ مت کرنا۔ جس دن تم نے کورٹ کے ذریعے اسے لینے کی کوشش کی، اس دن میں اسے قتل کر دوں گا لیکن تمہیں نہیں دوں گا۔ تمہیں اگر اس سے محبت ہے تو دوبارہ کبھی اس کے پیچھے مت آنا۔ میں حق مہر کا چیک چھوڑے جا رہا ہوں۔ میں تمہیں طلاق دے چکا ہوں۔ کچھ دنوں بعد تمہیں باقاعدہ طور پر طلاق کے کاغذات بھی مل جائیں گے۔” اس کا بیٹا اب اٹھ کر رونے لگا تھا۔
”تم تب تک اس گھر میں رہ سکتی ہو جب تک کرایہ ختم نہیں ہو جاتا۔ اس کے بعد اپنے لیے نیا ٹھکانہ ڈھونڈ لینا اور تمہارے جیسی عورتوں کے لیے تو یہ کوئی مسئلہ نہیں ہے۔” وہ اب بیڈروم سے باہر نکل گیا تھا۔ وہ ماؤف ہوتے ہوئے ذہن کے ساتھ اسے باہر جاتا دیکھتی رہی۔
سب کچھ ختم ہونے میں صرف چند گھنٹے لگے تھے۔ عاصم کی آمد، اس کی روانگی اور اس کے بعد مظہر کا اپنے بیٹے کو لے کر چلے جانا۔
وہ خالی دماغ کے ساتھ بیڈروم سے نکل آئی۔ لاؤنج خالی تھا۔ دنیا بھی خالی تھی۔ باہر کا دروازہ کھلا ہوا تھا، اس کے اندر بھی بہت سارے دروازے کھل گئے تھے۔ اسے یاد آیا، اس کا بیٹا رو رہا تھا۔ وہ یک دم ننگے پاؤں بھاگتی ہوئی بیرونی دروازے سے باہر نکلی۔ وہاں کچھ بھی نہیں تھا۔ کہیں بھی کچھ نہیں تھا سڑک سنسان تھی، بس اس پر برف گر رہی تھی۔
وہ باہر سڑک پر آ گئی۔ دونوں طرف کہیں بھی مظہر کی گاڑی نظر نہیں آ رہی تھی۔ اس کے پاؤں ٹھنڈی برف پرسن ہو رہے تھے۔ اس کے جسم پر موجود لباس پھڑپھڑا رہا تھا۔ وہ فٹ پاتھ پر لگے ہوئے لیمپ پوسٹ کے نیچے بیٹھ گئی۔ وہاں سے گزرنے والا کوئی بھی شخص اس وقت اس حالت میں دیکھ کر اسے پاگل سمجھتا۔
لیمپ کی روشنی میں اس نے اپنے ہاتھ کی ہتھیلی کو پھیلا کر دیکھا۔ اسے یاد آیا۔ بہت سال پہلے اس کے ایک ہندو گاہک نے اس کا ہاتھ دیکھتے ہوئے کہا تھا۔
”تمہیں جس سے محبت ہوگی تمہاری اس سے شادی ہو جائے گی۔” تب اس نے ہنس کر اس شخص سے کہا تھا۔
”میری کبھی شادی نہیں ہوگی۔ کال گرل سے کون شادی کرتا ہے۔”
”تمہاری نہ صرف شادی ہوگی بلکہ ایک ایسا بیٹا بھی ہوگا جس پر تمہیں فخر ہوگا۔” اس شخص نے کندھے اچکاتے ہوئے اس سے کہا۔
”کال گرل کی شادی، اولاد اور فخر؟” وہ بہت دیر تک پاگلوں کی طرح اس شخص کی بات پر ہنستی رہی یہاں تک کہ اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے تھے۔
اور اب برف میں ننگے پاؤں اور ننگے سر لیمپ پوسٹ کے نیچے بیٹھی، وہ اپنے ہاتھ کی لکیروں میں اپنا مقدر ڈھونڈنے کی کوشش کر رہی تھی۔
”مجھے کیا کرنا چاہیے؟ رونا چاہیے؟ چلانا چاہیے؟ یا پھر مر جانا چاہیے؟ میں اس شہر میں کس کو جا کر بتا سکتی ہوں کہ آج رات میں برباد ہو گئی ہوں۔ میرا سب کچھ ختم ہو گیا؟ کچھ بھی نہیں رہا۔ میں کس کے کندھے پر سر رکھ کر رو سکتی ہوں؟”
اسے یاد نہیں وہ وہاں کتنی دیر بیٹھی رہی۔ پچھلے تین سال ایک فلم کی طرح اس کی نظروں کے سامنے چل رہے تھے۔ مظہر سے ہونے والی پہلی ملاقات اور اس سے ہونے والی آخری ملاقات… درمیان میں کیا تھا حقیقت یا خواب۔
پھر اسے یاد آیا اس کا بیٹا رو رہا تھا۔ وہ بے اختیار اپنی جگہ سے اٹھی اور تب اسے پتہ چلا اس پر کتنی برف پڑ چکی ہے۔ اس نے جتنی تیزی سے قدم اٹھایا وہ اتنی ہی تیزی سے منہ کے بل برف پر گری۔ اس کے پیر شاید برف بن چکے تھے۔
”مظہر کے دل کی طرح یا پھر میرے مقدر کی طرح۔” اس نے اٹھنے کی کوشش کرتے ہوئے سوچا۔
”مظہر نے ایک بار بھی نہیں سوچا کہ اس کے بغیر میرا کیا ہوگا۔” گھر کی سیڑھیوں تک پہنچتے پہنچتے وہ تین بار برف میں گری۔
اسے کچھ بھی نظر نہیں آ رہا تھا۔ کچھ بھی سنائی نہیں دے رہا تھا۔ وہ کہاں تھی؟ کیوں تھی؟ وہ یہ بھی سمجھنے سے قاصر تھی، گھر کے اندر پہنچنے کے بعد بھی وہ خالی نظروں کے ساتھ وہاں پڑی چیزوں کو دیکھتی رہی۔
صرف چند گھنٹے پہلے یہ گھر تھا، اب کچھ بھی نہیں تھا۔ ایک شخص کو ایمان داری کا شوق پیدا ہوا تھا دوست سے دوستی نبھانے کا۔ دوسرے شخص کو اچانک یاد آ گیا کہ وہ کتنے اعلیٰ خاندان سے تعلق رکھتا ہے اور تیسرا شخص اب وہاں کھڑا اپنی زندگی کے اڑتے ہوئے پرخچے دیکھ رہا تھا۔
پچھلے تین سال سے وہ اس گھر کے ایک ایک کونے کو سجاتی رہی تھی۔ دیواروںپر لگی ہوئی تصویروں سے لے کر ان ڈور پلانٹس تک ہر چیز کو اس نے اپنے ہاتھوں سے لگایا تھا اور اب وہاں پڑی ہر بے جان چیز یک دم جاندار ہو کر اس کا منہ چڑانے لگی تھی۔
پھر اسے یاد آیا اس کا بیٹا رو رہا تھا، وہ یک دم ہوش میں آ گئی۔ واش روم میں جا کر اس نے اپنے چہرے پر پانی کے چھپکے مارے، سامنے شیشے میں اپنا چہرہ دیکھ کر وہ ہل نہیں سکی۔ اسے یاد آیا۔ نو سال پہلے سولہ سال کی عمر میں جب پہلی بار وہ ایک شخص کے ساتھ کچھ وقت گزار کر آئی تھی تو اسی طرح واش بیسن کے آئینے میں خود کو بہت دیر تک دیکھتی رہی تھی۔ تب اسے اپنے وجود سے بہت گھن آئی تھی۔ اسے یوں لگا تھا جیسے وہ سب کچھ گنوا آئی ہے۔
نو سال بعد آج پھر وہ اسی طرح خود کو آئینے میں دیکھ رہی تھی، آج گھن نہیں آ رہی تھی، ترس آ رہا تھا مگر آج بھی وہ اسی طرح خالی ہاتھ تھی۔
تب ایک رات کے عوض ملنے والے پاؤنڈز سے اس نے کھانا اور ایک سویٹر خریدا تھا۔ آج تین سال کے بدلے ملنے والے چیک سے وہ دنیا کی کون سی آسائش خریدے گی؟
اس کے بالوں اور لباس پر چپکی ہوئی برف اب پگھل کر پانی میں تبدیل ہو رہی تھی۔ اس نے اپنی ناک اور ہونٹوں پر لگا ہوا خون صاف کیا اور پھر اسے کچھ یاد آیا۔ وہ واش روم سے باہر نکل آئی۔
مظہر کے واپس آنے سے پہلے اس نے وہ ساری دعائیں پڑھ لی تھیں جو وہ پچھلے تین سال میں یاد کر سکی تھی۔ وہ ننگے سر قرآن کھول کر بیٹھ گئی۔
”کیا طوائف کو کبھی اللہ مل سکتا ہے؟” مظہر کی آواز اس کے کانوں میں گونجی، اس کا پورا وجود موم کی طرح پگھلنے لگا۔
”میں ساری عمر کیا طوائف ہی کہلاؤں گی۔” ننھے بچوں کی طرح قرآن ہاتھ میں لے کر وہ بلک بلک کر روتی رہی۔
اس نے اپنے آنسوؤں کو قرآن پاک کے صفحوں میں جذب ہوتے دیکھا۔
”سورة یٰس تب پڑھتے ہیں جب کوئی شخص حالت نزع میں ہو۔ اس وقت یہ سورة تکلیف سے نجات دے دیتی ہے۔” اسے یاد آیا ایک بار مظہر نے اسے بتایا تھا، اس وقت بھی اس کے سامنے سورة یٰس ہی تھی۔
”حالت نزع؟ کیا کوئی تکلیف اس تکلیف سے بڑی ہو سکتی ہے جس سے میں گزر رہی ہوں۔” وہ بلند آواز میں سورة یٰس کا ترجمہ پڑھنے لگی۔
”طوائف کا ہر رشتہ پیسے سے شروع ہوتا ہے اور پیسے پر ختم ہو جاتا ہے۔” وہ اور بلند آواز میں سورة یٰس پڑھنے لگی۔
”تو ان کی باتیں تمہیں غمناک نہ کر دیں یہ جو کچھ چھپاتے اور جو کچھ ظاہر کرتے ہیں ہمیں سب معلوم ہے۔” اس کی آنسوؤں میں بھیگی ہوئی آواز کمرے میں گونج رہی تھی۔
”نہیں طوائف کو کوئی معاف نہیں کرتا۔ میں نے اتنے گناہ نہیں کیے کہ مجھے ایک کال گرل کے ساتھ اپنی زندگی گزارنی پڑے یا میری اولاد ایک کال گرل کے ہاتھوں پرورش پائے۔”
”کیا انسان نے نہیں دیکھا کہ ہم نے اس کو نطفے سے پیدا کیا پھر وہ تڑاق پڑاق جھگڑنے لگا۔” خدیجہ کی تکلیف بڑھتی جا رہی تھی۔
”طوائف اللہ کا نام لے تو یہ بھی ڈھونگ لگتا ہے۔ کیا طوائف کو کبھی اللہ مل سکتا ہے؟”
”پھر وہ تڑاق پڑاق جھگڑنے لگا اور ہمارے بارے میں مثالیں پیش کرنے لگا، کیا وہ اپنی پیدائش بھول گیا۔”
چند لمحوں کے لیے وہ خاموش ہو گئی۔ اس نے اپنے بھیگے ہوئے چہرے کو آستین سے صاف کیا۔
”میں اپنی اولاد تمہارے پاس نہیں چھوڑوں گا۔ کبھی میرے بیٹے کے پیچھے مت آنا، جس دن تم نے اسے کورٹ کے ذریعے لینے کی کوشش کی اس دن میں اسے قتل کر دوں گا۔”
اس کی آستین آنسوؤں سے بھیک گئی۔ سامنے دیوار پر اس کے بیٹے کی تصویر لگی تھی۔ اس نے چند لمحوں کے لیے اسے دیکھا… اسے یاد آیا، وہ رو رہا تھا۔ اس کا دل بھر آیا۔
”مجھے مظہر نہیں مل سکتا یا اللہ! مگر میرا بیٹا تو مل سکتا ہے۔ آج نہیں تو کل، کبھی… بس وہ مل جائے۔” اس کے دل میں چند لمحوں کے بعد خواہش پیدا ہوئی۔
اپنی آستین سے اس نے ایک بار پھر اپنا چہرہ صاف کیا۔ سورة یٰس کی آخری چند آیات باقی تھیں۔ اس نے تصویر سے نظریں ہٹا کر سر جھکا لیا۔
”اس کی شان یہ ہے کہ جب وہ کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے تو اس سے فرما دیتا ہے کہ ہو جا تو وہ ہو جاتی ہے۔ وہ ذات پاک ہے جس کے ہاتھ میں ہر چیز کی بادشاہت ہے اور اسی کی طرف تم کو لوٹ کر جانا ہے۔”
—–*—–
مظہر اس رات اپنا سامان اور بیٹا لے کر اپنی بہن کے گھر آیا۔ اس کا بیٹا گاڑی میں کچھ دیر روتا رہا پھر خاموش ہو گیا۔
اس کی بہن دروازے پر مظہر کو دیکھ کر حیران ہوئی مگر اس کا سامان اور بیٹا دیکھ کر اس کے چہرے پر ایک اطمینان بھری مسکراہٹ ابھری۔ اس نے آگے بڑھ کر اس کے بیٹے کو پکڑ لیا۔
”میں نے اسے طلاق دے دی ہے۔” اس ایک جملے کے بعد اسے کسی اور سوال کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ اس کی بہن یا بہنوئی نے اس سے کچھ بھی نہیں پوچھا۔
اس کی بہن نے اسی وقت پاکستان فون کر کے اپنے ماں باپ کو یہ خوش خبری سنا دی تھی۔ تین سال کے بعد پہلی بار اس کے ماں باپ نے فون پر اس سے بات کی۔ اس کا وہ سوشل بائیکاٹ ختم کر دیا گیا تھا جس کا وہ پچھلے تین سال سے سامنا کر رہا تھا۔
تیسرے دن اس نے اپنے بیٹے کو پاکستان بھجوا دیا۔ خدیجہ کو دھمکی کے باوجود اسے خدشہ تھا کہ وہ کبھی بھی پولیس کے ذریعے اپنا بیٹا لینے کی کوشش کر سکتی ہے۔ بیٹے کو پاکستان بھجوانے کے بعد وہ اس حوالے سے مطمئن ہو گیا۔
اگلے چند دن اس نے آفس سے چھٹی کی۔ ایک نیا فلیٹ تلاش کیا۔ اسے فرنشڈ کیا۔ اپنے ذہنی اضطراب کو مختلف سرگرمیوںمیں کم کرنے کی کوشش کی۔
لیکن ایک ہفتہ کے بعد پہلے دن آفس سے واپس آنے کے بعد اسے احساس ہو گیا کہ سب کچھ کبھی بھی پہلے کی طرح نارمل نہیں ہو سکتا۔ تین سال سے گھر آنے پر وہ جس وجود کو دیکھنے کا عادی تھا، وہ اب وہاں نہیں تھا۔ تین سال سے وہ اپنا ہر کام اس سے کروانے کا عادی ہو چکا تھا۔
بیوی اور بچہ اب دونوں ایک جھماکے کے ساتھ اس کی زندگی سے نکل گئے تھے… وہ پہلے صرف سگریٹ پیتا تھا پھر آہستہ آہستہ زندگی میں پہلی بار اس نے شراب نوشی شروع کر دی۔
کبھی کبھار اسے سب کچھ خواب لگتا۔ ایک ڈراؤنا خواب۔ بعض اوقات اس کا دل چاہتا سڑک سے گزرتے ہوئے اسے کہیں کبھی وہ دکھائی دے جائے۔ پھر وہ خود پر لعنت بھیجنے لگتا۔
”اب بھی وہی… اس سب کے باوجود بھی جو میں اس کے بارے میں جان چکا ہوں، مظہر خان! تم کیسے انسان ہو، کیسے مرد ہو۔” وہ خود کو ملامت کرتا۔
اس رات کے بعد وہ عاصم سے دوبارہ نہیں ملا۔ عاصم نے اس سے فون پر رابطہ کرنے کی کوشش کی۔
”میں تم سے ملنا نہیں چاہتا۔ ہماری دوستی بس یہیں تک تھی۔ دوبارہ کبھی مجھ سے رابطہ کرنے کی کوشش مت کرنا۔” اس نے عاصم سے فون پر کہا اور وہ واقعی اپنے لفظوں پر قائم رہا۔
عاصم نے لندن میں اور پھر پاکستان آ کر بھی بہت بار اس سے ملاقات کی کوشش کی۔ اس سے دوستی ختم کرنے کی وجہ جاننا چاہی لیکن مظہر کے پاس ایک مستقل خاموشی کے علاوہ اسے کچھ نہیں ملا۔
وہ انگلینڈ میں زیادہ عرصے تک نہیں رہ پایا، چند ماہ کے بعد واپس پاکستان چلا آیا۔ واپس آنے کے چند ہفتوں بعد اس نے شادی کر لی۔
—–*—–




Loading

Read Previous

لاحاصل — قسط نمبر ۱

Read Next

لاحاصل — قسط نمبر ۳ (آخری قسط)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!