لاحاصل — قسط نمبر ۲

”ماما جان! مریم یہ سب کچھ جانتی ہے۔ اس کے باوجود اسے کوئی اعتراض نہیں ہے۔”
”اس کو کوئی اعتراض نہیں ہوگا مگر مجھے اعتراض ہے، وہ میری بیٹی ہے اور اس کی شادی میری مرضی کے بغیر نہیں ہو سکتی۔” اس بار ماما جان کے لہجے میں کچھ سختی تھی۔
”ماما جان! آپ تو اس معاشرے سے تعلق رکھتی ہیں جو ایسی چیزوں کو کوئی اہمیت نہیں دیتا۔ آپ کو تو لبرل ہونا چاہیے۔ انسان کو معاشرے کی اتنی پروا نہیں کرنی چاہیے۔”
”ذالعید! میں اسی معاشرے سے تعلق رکھتی ہوں۔ میں اور میری بیٹی یہاں رہتے ہیں اور شادی کے بعد آپ اور مریم بھی مریخ پر جا کر نہیں رہیں گے… آپ کو بھی یہیں رہنا ہوگا۔ مجھے مریم کی پسند پر کوئی اعتراض نہیں ہے مجھے صرف خوف اس بات کا ہے کہ اگر یہ شادی ناکام ہوئی تو کیا ہوگا؟ اس وقت مریم دنیا کا سامنا کیسے کرے گی۔”
”مگر ماما جان! اگر میرے ماں باپ رضا مند نہیں ہو رہے تو میں کیا کر سکتا ہوں؟ آپ مریم کے لیے میرے خلوص پر شک تو نہ کریں… میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ مریم کو مجھ سے کبھی شکایت نہیں ہوگی۔ میں چھوٹی چھوٹی باتوں پر بھڑکنے والا آدمی ہوں نہ انا پرست ہوں… میں بہت متحمل مزاج ہوں۔ میں مریم کو کبھی طلاق نہیں دوں گا۔” وہ ایک بار پھر انہیں یقین دلانے کی کوشش کر رہا تھا۔
آپ ایک بار کہیں، سو بار یا ہزار بار… میرا جواب وہی ہوگا۔ آپ کے ماں باپ اگر اس رشتہ کے لیے میرے پاس آئے تو میں کوئی اعتراض نہیں کروں گی دوسری صورت میں مریم کی شادی آپ سے نہیں ہوگی۔”
ماما جان نے کھڑے ہو کر کہا اور پھر اس کے سامنے رکھی ہوئی ٹرے اٹھا کر باہر آ گئیں۔
وہ کچھ دیر چپ چاپ کرسی پر بیٹھا رہا پھر کمرے سے باہر نکل آیا۔ ماما جان برآمدے میں چولہے کے پاس ٹرے رکھ رہی تھیں۔
”ذالعید! انگوٹھے کو کیا ہوا؟” انہوں نے اسے دیکھتے ہی پوچھا۔ ذالعید نے اپنی چپل کی طرف دیکھا جس میں سے پلاسٹر میں لپٹا ہوا انگوٹھا نظر آ رہا تھا۔
”ٹھوکر لگ گئی… ناخن ہل گیا ہے۔ ڈاکٹر کہہ رہا تھا نکالنا پڑے گا۔ میں چند دنوں سے مصروف تھا۔ اس لیے اسے آپریٹ نہیں کروا سکا۔” اس نے ان کے استفسار پر کچھ حیران ہو کر بتایا۔
”اچھا تم ذرا اندر بیٹھو۔” وہ خاموشی سے اندر چلا گیا۔
ماما جان دس منٹ کے بعد دوبارہ اندر آئیں۔ ان کے ایک ہاتھ میں ایک پلیٹ اور دوسرے میں روئی اور پٹی تھی۔ ذالعید نے حیران ہو کر اس سامان کو دیکھا۔
”اپنا جوتا اتارو۔ اور یہ پلاسٹر بھی اتار دو۔”
”آپ کیا کرنا چاہ رہی ہیں ماما جان؟”
”میں یہ گرم گھی اور ہلدی لگا کر پٹی کرنا چاہتی ہوں تمہارے انگوٹھے کی۔” وہ ان کا منہ دیکھ کر رہ گیا۔
”چلو۔ میں خود اتار لیتی ہوں۔” وہ اس کے پاس فرش پر گھنٹوں کے بل بیٹھ گئیں۔
ذالعید بے اختیار شرمندہ ہوا، جب وہ اس کی چپل کا اسٹریپ کھولنے لگیں۔





”میں خود اتار دیتا ہوں ماما جان۔” اس نے بے ساختہ ان کا ہاتھ ہٹا دیا اور برق رفتاری سے چپل اتارنے کے بعد پلاسٹر بھی اتار دیا۔
اس کی شرمندگی میں اس وقت اور اضافہ ہوا جب ماما جان نے نرمی سے اس کے انگوٹھے کو گیلی روئی سے اچھی طرح صاف کیا۔
”ماما جان! میں کر لیتا ہوں خود۔”
”کوئی بات نہیں ذالعید! میں کر دیتی ہوں… آپریشن کروانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ دو تین دن اپنے ملازم سے کہو کہ تمہیں ہلدی اور گھی گرم کر دیا کرے یا تم آ جایا کرو، میں کر دیا کروں گی چند دن یہی انگوٹھے پر لگاتے رہو۔ ناخن ٹھیک ہو جائے گا۔ پانی سے بچایا کرو اور کچھ دن زیادہ چلنے سے گریز کرو۔” وہ پٹی کرتے ہوئے اسے ہدایات دیتی رہیں۔ ذالعید حیرت سے انہیں دیکھتا رہا۔
”جی اچھا!” وہ اس کے علاوہ کچھ نہیں کہہ سکا۔
وہاں سے واپس آتے ہوئے ڈرائیونگ کے دوران اس کی نظر بار بار اس انگوٹھے پر جاتی رہی۔ اسے اپنے اس انگوٹھے پر اگلے کئی دن وہی نرم لمس یاد آتا رہا۔ اس نے غیر شعوری طور پر ماما جان کی ہدایات پر عمل کیا۔
—–*—–
”ماما جان! آپ نے ذالعید کو انکار کر دیا؟” مریم نے کالج سے آتے ہی پوچھا۔
”تم کپڑے بدل لو۔ میں کھانا لگاتی ہوں۔” ماما جان نے اطمینان سے کہا۔
”آپ میری بات کا جواب دیں، آپ نے ذالعید کو انکار کیوں کیا ہے؟” وہ مشتعل تھی۔
”میں نے انکار نہیں کیا۔ میں نے صرف یہ کہا کہ وہ اپنے ماں باپ کو رضامند کر لے تب ہی یہ شادی ہو سکتی ہے۔”
وہ سرخ چہرے کے ساتھ انہیں دیکھتی رہی پھر اس نے اپنا بیگ اور فولڈر اٹھا کر دور پھینک دیا۔ ماما جان نے ایک نظر اسے دیکھا اور پھر جا کر بیگ اور فولڈر اٹھا کر ان کی جگہ پر رکھنے لگیں۔
”آپ کو پتا ہے، ذالعید نے مجھ سے کیا کہا ہے۔ اس نے کہا ہے کہ وہ اپنے ماں باپ کو رضامند نہیں کر سکتا مگر وہ ایک کوشش اور کرے گا لیکن وہ کہتا ہے کہ مجھ سے شادی وہ تب ہی کرے گا جب آپ رضامند ہو جائیں گی۔ جب میں نے اس سے کہا کہ اگر آپ رضامند نہ ہوئیں تو؟ وہ کچھ بھی نہیں بولا بس خاموش رہا… ماما جان آپ کی وجہ سے صرف آپ کی وجہ سے میں اس کو کھو دوں گی کیا آپ کو مجھ پر ترس نہیں آتا؟”
”آپ کو احساس ہے کہ میں نے اس کو کتنی دعاؤں سے پایا ہے… ماما جان! وہ میرے لیے سب کچھ ہے… سب کچھ… آپ میری ماں نہیں ہیں۔ آپ میری ماں ہو ہی نہیں سکتیں۔ کوئی ماں اولاد کو اس طرح تکلیف نہیں دے سکتی۔ جیسے آپ مجھے دے رہی ہیں۔”
وہ بالکل ساکت کھڑی اسے روتے اور بولتے ہوئے دیکھ رہی تھیں۔
اس نے اس دوپہر کھانا نہیں کھایا۔ اپنے بستر پر اوندھی لیٹی وہ روتی رہی۔ ماما جان کے سارے ارادے ریت کی دیوار ثابت ہوئے۔ شام چھ بجے وہ اس کے پاس آئیں۔
”ذالعید کو ایک بار اپنے ماں باپ سے بات کر لینے دو، اگر اس کے ماں باپ نہ مانے تو پھر میں اس کے ساتھ تمہاری شادی کروا دوں گی۔”
اس کے آنسوؤں نے ایک بار پھر انہیں چاروں شانے چت کر دیا تھا۔
—–*—–
ڈیپارٹمنٹ اسٹور کے ایک کاؤنٹر پر کھڑی وہ چند کسٹمرز کو والٹ دکھا رہی تھی جب مظہر اس کے قریب آ کر رکا۔ اس نے ایک پروفیشنل مسکراہٹ چہرے پر لاتے ہوئے کاؤنٹر سے سر اٹھا کر اسے دیکھا… اس کی مسکراہٹ غائب ہو گئی۔
”یہ خواب کے علاوہ اور کچھ نہیں ہو سکتا۔” اس کے اندر ایک آواز گونجی۔ سامنے کھڑے شخص کے چہرے پر کوئی مسکراہٹ نہیں ابھری۔
”مجھے والٹ چاہیے۔” خدیجہ بے یقینی سے اسے دیکھتی رہی۔ اس کے چہرے پر شناسائی کی کوئی رمق نہیں تھی۔
”کیا اس نے مجھے نہیں پہچانا؟کیا ممکن ہے کہ مظہر مجھے دیکھے اور نہ پہچانے؟ کیا میرا چہرہ اتنا بدل چکا ہے؟” وہ ایک ٹک اسے دیکھ رہی تھی۔
وہ اب پھر اس کی طرف دیکھے بغیر اسے ایک والٹ نکالنے کا کہہ رہا تھا۔ خدیجہ نے کاؤنٹر کے اوپر وہ والٹ رکھ دیا۔ کاؤنٹر پر کچھ اور کسٹمرز آ گئے۔ وہ ان کی طرف متوجہ ہو گئی۔ ان کے سامنے ان کی مطلوبہ چیزیں رکھنے کے بعد جب وہ دوبارہ اس کی طرف متوجہ ہوئی تو وہ اس وقت کاؤنٹر پر موجود ایک دوسری لڑکی کو ادائیگی کرنے کے بعد رسید لے رہا تھا۔ رسید لینے کے بعد ایک لمحہ کے لیے بھی اس پر نظر ڈالے بغیر وہ بیرونی دروازے کی طرف چلا گیا۔ خدیجہ اس وقت تک اسے دیکھتی رہی جب وہ اس کی نظروں سے اوجھل نہیں ہو گیا۔
”کوئی سوال، کوئی جواب نہیں، غصہ بھری ایک نظر تک نہیں، کسی شکوے کے قابل بھی نہیں سمجھا اس نے مجھے۔”
وہ آنکھوں میں اترتی نمی کو روکتے ہوئے کسٹمرز کو ڈیل کرنے لگی۔
”اس طرح کیوں چلا گیا وہ؟ کیا… کیا اسے تب میرے بارے میں سب کچھ پتا چل گیا تھا۔ ہاں وہ یقینا اس عمارت تک تو گیا ہوگا اور اس نے وہاں مجھے ڈھونڈا بھی ہوگا اور پھر… پھر کیا ہوگا؟ لیکن اس سب کے باوجود اسے مجھ سے بات کرنی چاہیے تھی اس طرح تو نہیں جانا چاہیے تھا… یا پھر… یا پھر میں زیادہ جذباتی ہو کر سوچ رہی ہوں۔ آخر وہ سب کچھ چار سال پہلے کا قصہ تھا۔ چار سال لمبا عرصہ ہوتا ہے۔ جس طرح میں کچھ بتائے بغیر غائب ہو گئی اس کے بعد کیا مجھے یہ توقع رکھنی چاہیے کہ یہ… اس نے شادی کر لی ہوگی یا پھر کوئی اور لڑکی اس کی زندگی میں آ چکی ہوگی اور میں پھر بھی توقع کر رہی ہوں کہ وہ مجھے دیکھے تو… ہاں اس سے بڑی حماقت کیا ہو سکتی ہے جیسی زندگی میں گزار چکی ہوں اس کے بعد بھی میں مظہر کی تمنا کروں۔ میرے لیے وہ کیوں اپنا کوئی رشتہ گنوائے۔ اپنے کسی تعلق کو چھوڑے۔” اس نے خود کو آئینہ دکھانے کی کوشش کی۔
”مجھے اب اس کے بارے میں سوچنا چھوڑ دینا چاہیے اس سے اب میرا کوئی تعلق نہیں چار سال پہلے وہ میری زندگی سے نکل چکا ہے۔” اس نے خود کو سمجھانے کی کوشش کی۔
لیکن اس شام چھٹی کے بعد وہ گھر جانے کے بجائے سیدھا اسی گراؤنڈ میں گئی تھی۔ جہاں وہ مظہر سے پہلی بار ملی تھی۔ سیڑھیوں پر اکیلے بیٹھ کر اس نے گراؤنڈ میں کھیلتے ہوئے لوگوں کو دیکھنا شروع کر دیا۔ ماضی ایک بار پھر اس کے سامنے کسی فلم کی طرح چلنے لگا تھا۔
”ایک بات تو طے ہے میں اس شخص کو بھلا نہیں سکتی۔ نہ آج نہ آئندہ کبھی… کوئی دوسرا شخص میرے لیے مظہر کبھی نہیں ہوسکتا۔” اس دن وہاں سیڑھیوں میں بیٹھے ہوئے بہتے آنسوؤں کے دوران اس نے سوچا۔ ”اور میں اللہ سے دعا کرتی ہوں وہ دوبارہ میرے سامنے کبھی نہ آئے۔”
—–*—–
وہ چوتھے دن ایک بار پھر کاؤنٹر کے دوسری طرف کھڑا تھا۔ خدیجہ اس وقت بھی ایک کسٹمر کو ڈیل کر رہی تھی۔ اس دن اس کے چہرے پر شناسائی بھی تھی اور آنکھوں میں غصہ بھی۔
”میں آپ کی کیا مدد کر سکتی ہوں؟” خدیجہ نے اپنے چہرے پر زبردستی مسکراہٹ لاتے ہوئے کہا۔
”بات کرنا چاہتا ہوں میں تم سے… یہاں سے کب فارغ ہو گی تم؟”
خدیجہ کا رنگ اُڑ گیا۔ وہ ساکت کھڑی اسے دیکھتی رہی۔ اس وقت اسے پہلی بار اندازہ ہوا کہ اس سے بات کرنا اس کے لیے کتنی بڑی قیامت ہوگا۔ اپنے آپ کو عزت دار سمجھنے والے واحد شخص کے سامنے آپ یہ کہیں کہ آپ… وہ جواب دیے بغیر دوسرے کسٹمر کی طرف متوجہ ہو گئی۔ مظہر وہیں کھڑا رہا۔ وہ کسٹمر چلا گیا تو مظہر پھر آگے بڑھ آیا۔
”تم یہاں سے کب فارغ ہو گی؟” اس نے اکھڑ لہجے میں پوچھا۔
خدیجہ نے سنی اَن سنی کرتے ہوئے کاؤنٹر پر موجود چیزیں اٹھانی شروع کر دیں۔ مظہر کا چہرہ ایک لحظہ کے لیے سرخ ہوا۔ ”میں تم سے بات کر رہا ہوں کیتھرین۔” اس بار اس نے قدرے بلند آواز میں کہا۔
”میں آپ کو نہیں جانتی۔” اس نے سر اٹھا کر اپنے لہجے کے ارتعاش پر قابو پاتے ہوئے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا۔ وہ ساکت رہ گیا، وہ کاؤنٹر سے ہٹنے لگی جب اس نے کاؤنٹر پر دھرے ہوئے اس کے ہاتھ پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔
”مجھ سے اس طرح مت پیش آؤ کیتھرین کہ مجھے واقعی یہ یقین آنے لگے کہ میں نے تمہارے لیے اپنی زندگی کے چار سال ضائع کیے ہیں۔” مظہر کی آنکھوں میں نمی تھی۔ وہ اس کے چہرے سے نظریں نہیں ہٹا سکی۔ یہ وہ واحد شخص تھا جس نے اسے ہمیشہ عزت دی تھی اور اس نے اس عزت کے بدلے اسے اپنے دل میں وہاں لا بٹھایا تھا جہاں وہ کسی دوسرے کو نہیں بٹھا سکتی تھی اور اس لمحے چھ سال بعد اس نے پہلی بار خود سے سوال کیا تھا۔
”چھ سال پہلے کیوں میں نے اپنا جسم بیچنا شروع کر دیا تھا کیا بہتر نہیں تھا کہ میں بھوک اور بیماری سے مر جاتی؟ کم از کم یہ لمحہ میری زندگی میں کبھی نہیں آتا کہ مجھے اس شخص کی آنکھوں میں آنسو دیکھنا پڑتے۔”
اور چھ سال میں پہلی مرتبہ ہی اس نے خدا سے شکوہ کیا تھا۔
”میرے ساتھ یہ سب کچھ کیوں ہوا میرے اللہ کہ اب میں اس شخص کے سامنے سر اٹھانے تک کے قابل نہیں؟” اس کا دل چاہتا تھا، وہ کسی ننھے بچے کی طرح اس سے لپٹ کر رونے لگے۔ بلند آواز میں۔ اس بات کی پروا کیے بغیر کہ لوگ اسے دیکھ رہے ہیں، اس بات کی فکر کیے بغیر وہ اس کے بارے میں کیا سوچیں گے۔
اس نے سر جھکا کر آہستہ سے مظہر کے ہاتھ کے نیچے سے اپنا ہاتھ نکال لیا۔
”میں آٹھ بجے باہر آؤں گی۔” اس نے دھیمے سے کہا۔
”میں باہر پارکنگ میں تمہارا انتظار کروں گا۔” وہ کہتا ہوا چلا گیا۔
باقی کا سارا وقت وہ لفظوں کا انتخاب کرتی رہی کس طرح اسے مظہر کو وضاحتیں دینی تھیں۔ مگر وہ جانتی تھی دنیا کے خوبصورت ترین لفظ بھی ان حقیقتوں کی بدصورتی کو نہیں چھپا سکیں گے جن سے اسے مظہر کو آگاہ کرنا تھا اور اس وقت بے اختیار اس کا دل چاہا تھا وہ مر جائے… ابھی یہیں… اسے مظہر کو کچھ بھی بتانا نہ پڑے۔
آٹھ بج کر دس منٹ پر وہ باہر پارکنگ میں آ گئی۔ متلاشی نظروں سے اس نے مظہر کو دیکھنا شروع کیا اور تب ہی وہ گاڑی ڈرائیو کرتا ہوا اس کے پاس آ گیا۔ کچھ کہے بغیر اس نے فرنٹ سیٹ کا دروازہ کھول دیا۔ وہ خاموشی سے اندر بیٹھ گئی۔
وہ گاڑی سڑک پر لے آیا، بہت دیر وہ کچھ کہے بغیر گاڑی چلاتا رہا۔ خدیجہ سوچتی رہی، وہ بات کہاں سے شروع کرے۔ معذرت سے یا ماضی سے… اسے اپنی مجبوری کا قصہ سنائے یا حالات کا… اس سے ملنے سے پہلے کے ایک سال کے بارے میں بتائے یا پچھلے چار سال کے بارے میں…
وہ بات شروع کرنے کی ہمت نہیں کر سکی۔ مظہر نے اچانک ایک عمارت کی پارکنگ میں گاڑی روک دی۔ وہ یقینا اسی عمارت میں رہتا تھا۔
”ہمیں یہیں بات کرنی چاہیے۔” خدیجہ نے اس کے کچھ کہنے سے پہلے ہی کہا۔ وہ چہرہ موڑ کر اسے دیکھنے لگا۔
”میں سمجھ نہیں پا رہا۔ میں تم سے کیا کہوں۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک شخص کے ساتھ آٹھ ماہ گزارے جائیں اور اس کے بعد اسے کوڑے کے ڈبے میں پھینک دیا جائے، یہ تو تب ہی ہوتا ہے جب اس سے محبت نہ ہو لیکن آٹھ ماہ میں نے تمہاری آنکھوں میں اپنے لیے محبت کے علاوہ کچھ نہیں دیکھا یا پھر شاید میں نے تمہیں سمجھنے میں غلطی کی شاید میں نے تم سے بہت زیادہ توقعات وابستہ کر لیں مگر جو بھی تھا ایک بار ہم دونوں میں بات تو ہونی چاہیے تھی تم اس طرح مجھے کیسے چھوڑ کر جا سکتی تھیں۔ میں سمجھتا تھا تمہیں مجھ پر اعتماد ہے۔ مگر یہ غلط تھا۔ تمہیں مجھ پر اعتماد نہیں تھا۔ میں جتنا ان سب چیزوں کے بارے میں سوچتا ہوں مجھے لگتا ہے، میں پاگل ہو جاؤں گا۔” وہ سمجھ نہیں پا رہی تھی کہ وہ کیا کہنا چاہ رہا ہے۔
”کیا تم نے کبھی سوچا ہے کہ جب میں نے واپس آ کر تمہیں غائب پایا ہوگا تو کیا محسوس کیا ہوگا۔ میرا انتظار کرنے کے بجائے تم وہ جگہ ہی چھوڑ کر چلی گئیں۔ تم نے سوچا میں واپس چلا گیا۔ اب دوبارہ کبھی نہیں آؤں گا یا پھر شاید تم مجھ سے شادی کرنا ہی نہیں چاہتی تھیں اور یہ بھی ممکن ہے تمہیں مجھ سے بہتر کوئی مل گیا ہو۔”




Loading

Read Previous

لاحاصل — قسط نمبر ۱

Read Next

لاحاصل — قسط نمبر ۳ (آخری قسط)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!