عبداللہ – قسط نمبر ۰۱


عرصہ ہوا ،آمنہ فرمان کے لیے دن ایک ہی انداز میں چڑھتا اورایک ہی انداز میں ڈوبتا ۔ اسے لگتا جس طرح روبوٹ programmed ہوتا ہے اسی طرح اس کے اندر بھی دن بھر کی ہدایات فیڈ کر دی گئی ہیں کہ صبح اٹھنا ہے ،یہ کرنا ہے ،پھر یہ کرنا ہے اور پھر یہ۔۔۔ایک طویل فہرست کے بعد آخری انسٹرکشن ہوتی کہ آنکھیں بند کر کے سو جانا ہے ۔
وہ دن بھی طلوع تو اسی انداز میں ہوا تھا مگر غروب ہونے تک آمنہ فرمان کی یکسانیت بھری زندگی میںتغیر آ چکا تھا ۔
اس دن ساتویں پیریڈ میں بچوں کو اردو پڑھاتے ہوئے اس کے پاؤں میں درد شروع ہو گیا تھا ۔ اس سے کھڑے رہنا محال ہو رہا تھا ۔ وہ کرسی پہ بیٹھ کر اپنا پاؤں جوتے میں سے نکال کر دبانے لگی تھی۔
” اب تنخواہ ملے گی تو کوئی آرام دہ جوتا لینا ہے ۔” اس نے ایڑی والی سیاہ جوتی کو گھورتے ہوئے سوچا ۔
دو ماہ سے وہ یہی سوچ رہی تھی۔ بند جوتے کا تلوہ گھس گھس کر نیچے سے پھٹ گیا تو اس نے کسی تقریب وغیرہ میں پہننے کی غرض سے لیا ہوا ایڑی والا جوتا نکال لیا تھا ۔ چا ر پیریڈز تک تو کا م چلتا تھا پھر پاؤں دُکھنے لگتا تھا ۔اس دفعہ اس نے نیا جوتا لینے کا مصمم ارادہ کیا تھا ۔
ٹیچر کو بیٹھے دیکھ کر بچے شور اور شرارتیں کرنے لگے تھے ۔ اس نے جوتے پہنا اور کھڑی ہو گئی ۔ ابھی نظم کے ایک شعر کی تشریح کی تھی کہ پیون ہیڈمسٹریس کی طرف سے بلاوہ لے کر آیا۔ اس کی جان پہ بن آئی ۔اس کے پاؤں میں ابھی بھی تکلیف تھی ۔ چلنا یا کھڑے رہنا دو بھر ہو رہا تھا۔ مشکل سے چلتے ہوئے ڈرتے دل کے ساتھ اس نے ہیڈ مسٹریس کے آفس میں قدم رکھا تھا ۔
”آمنہ! آپ سے کوئی ملنے آیا ہے ؟” ہیڈ مسٹریس نے کرسی پہ بیٹھے بندے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا تھا ۔
کرسی پہ بیٹھے بندے کی پشت کو تکتے ہوئے اسے کوئی ایکسائٹمنٹ یا سسپنس نہ ہوا ۔ یہاں تو والدین ہی آتے تھے شکایتوں کے پلندے اٹھا کر ۔یہ بھی ہو گا کوئی باپ یا بھائی جو چھ سو فیس دے کر امید یہ رکھے گا کہ بچے کو پڑھانے کے لیے بیکن ہاؤس کے اسٹینڈرڈ کا اسٹاف بھرتی ہو ۔ سرکاری اسکول اور کالج سے پڑھی انٹر پاس ٹیچر کو تو کچھ سمجھتے ہی نہ تھے ، کوئی موقع ملا نہیں اور پہنچ گئے اسکول بے عزت کرنے ۔ کاپی چیک کرتے ہوئے ، ٹیسٹ کی ٹوٹلنگ کرتے ہوئے ہو گئی ہو گی کوئی غلطی اور اب یہ جان کھائے گا پورا گھنٹہ ۔
وہ بندہ اٹھ کھڑا ہوا تھا اور اب اس کی طرف دیکھ رہا تھا ۔
”کہیے ۔” آمنہ نے جل تو جلا ل تو کا ورد کرتے ہوئے مری ہوئی سی آواز میں کہا ۔
”آمنہ ۔۔۔آمنہ فرمان۔”
” آمنہ فرما ن ہی ہوں تمہیں کیا کرینہ کپور نظر آ رہی ہوں ۔” اثبات میں سر ہلاتے ہوئے بربڑائی۔
”میں آپ کولینے آیا ہو ں ۔”
سامنے والے کی بات سن کر اسے دھچکا لگا ۔ رکشہ تو کوئی اس نے لگوایا نہیں ، پھر یہ کون اسے لینے آ گیا ۔ویسے سچی بات تو یہ کہ سامنے کھڑا بندہ حلیے سے رکشے والا لگ بھی نہ رہا تھا ۔
”آپ چلیں میرے ساتھ ۔”
”کہاں ؟” ایک پاؤں ے دوسرے پاؤں پہ سارا وزن ڈالتے ہوئے اس نے پوچھا ۔ کن اکھیوں کے ساتھ اس نے ہیڈ مسٹریس کی طرف بھی دیکھا ۔
”آپ ۔۔۔آپ کی امی کے پاس ۔”اس نے آمنہ فرمان کے سر پہ بم پھوڑا تھا ۔
یہ اس کی عبداللہ کے ساتھ پہلی ملاقات تھی۔
٭٭٭٭٭



آئمہ جہانگیرکا دل ایسی جگہوں پہ جا کر سخت گھبراتا تھا جہاں رنگ برنگ کے لوگ ہوں ،سڑکیں آدھی پارکنگ لاٹ بنی ہوں او ر آدھی آلوبخارے اور املی کے شربت والے ، بریانی والے ٹھیلوں نے سنبھال رکھی ہوں ۔ فٹ پاتھ پر بھی فرشی دکانیں سجی ہوں ۔ دکان میں تو شاید اے سی ہو مگر اس سے باہر نکلتے ہی گرمی آگ کی طرح جلانے لگے ۔ اوپر سے بھکاری ۔۔۔ایک سے جان چھڑواؤ تو دوسرے کا ہاتھ آگے ۔ وہ کبھی پنڈی کی اس مارکیٹ کا رخ نہ کرتی اگر نوین نے بہنوں ، کزنز اوور فرینڈز کے لیے جھومر نہ لینے ہوتے ۔
”ماں باپ پیدا کر کے پھینک دیتے ہیں سڑکوں پہ ۔ ” آئمہ نے بڑبڑاتے ہوئے اس چار سالہ بچی کو گھورا جو ہاتھ پھیلائے ان کے ساتھ ساتھ تھی۔ نوین نے اسے دس کا نوٹ تھمایا تو وہ تو پیچھے ہو گئی مگر دو اور بچے آگے آ گئے ۔
”خبردار ۔۔۔ generous بننے کی ضرورت نہیں ۔ تم جیسے درد مند دلوں نے ہی ان کا دماغ خراب کر رکھا ہے ۔”اس نے نوین کی بھی کلاس لے ڈالی۔
”یار میری نئی نئی شادی ہونے والی ہے ۔ کوئی بددعا نہ دے ڈالیں ۔” نوین کی اپنی فکریں تھیں، اسے ہنسی آگئی۔
ایک جیسے جھومر تلاش کرنے میں ، پھر مول کم کروانے میں گھنٹہ بھرسے بھی اوپر لگ گیا ۔ گرمی سے دونوں کا حال برا ہوا جاتا تھا مگر نوین اظہار نہ کر رہی تھی۔ وہ ویسے بھی ایسی مارکیٹس میں شاپنگ کی عادی تھی۔
”یار لوگوں کا حوصلہ ہے جو یہاں شاپنگ کرتے ہیں ۔” پسینہ صاف کرتے ہوئے اس نے بھرے بازار کو دیکھا ۔
”حوصلہ نہیں ۔۔۔مجبوری مائی ڈئیر ۔ اگر ان کا تعلق بھی ملک کے ایک بڑے جیولرکے ساتھ ہوتا توخود میں یہ حوصلہ نہ پاتے ۔”
”چلو ان کی تومجبوری ہے ۔۔۔تمہاری کیا مجبوری ہے ؟” آئمہ نے اس کے طنز کو نذر انداز کیا ۔

Loading

Read Previous

چھوٹی سی زندگی

Read Next

عبداللہ – دوسری اور آخری قسط

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!