عبداللہ – قسط نمبر ۰۱

جس دن ہمیں ائیر پورٹ جانا تھا ،امی نے نہلا دھلا کر اچھے سے کپڑے پہنائے تھے اور ابو نے آ کر پیار کے ساتھ سمجھایا تھا کہ جو بھی ائیرپورٹ پر ہم سے کچھ پوچھے گا ہمیں بتانا ہے کہ ہم تینوں بہن بھائی ہیں اور یہ ہمارے ابو امی ہیں ۔ ہم نے سعادت مندی کے ساتھ سرہلا دیا تھا۔ کچھ غلط تھوڑی تھا اب وہ ہمارے امی ابو ہی تو تھے ۔ ابو میری اور ثمن کی طرف سے بے فکر تھے اور ثانی کی طرف سے فکر مند ۔ انہیں لگتا تھا کہ ثانی کوئی گڑبڑ کر دے گا ۔کیوںکہ وہ بار بار اس سے اس کا نام پوچھتے تھے ۔کبھی تو وہ ثانی بتا دیتاتھا کبھی اس کے منہ سے ”غلام نبی ” نکل آتا تھا ۔ غلام نبی اس کا اس گھر میں نام تھا جس گھر میں ایک مارنے والا ابا رہتا تھا ۔ لیکن ایک دو دفعہ مار کھانے کے بعد ثانی اب trained ہو چکا تھا ۔ ہم ائیرپورٹ کے لیے گھر سے نکل آئے ۔ ابو آہستہ آواز کے ساتھ رستے میں بھی ثانی کو پکارتا ،وہ فوراً جواب دیتا۔ ابو کچھ مطمئن ہو گئے ۔ چیک ان شروع ہوا تو ہم بھی ڈپارچر لاؤنج میں آگئے ۔
بورڈنگ پاسز ابو کے ہاتھ میں دیتے ہوئے ائیر لائن کے عملے میں سے ڈیوٹی پہ موجود اس لڑکی نے پیار سے یونہی مجھ سے پوچھ لیا ۔
”کہاں جا رہے ہو بیٹا ۔”
”اپنی بہن سے ملنے ۔”میں نے ایکسائٹمنٹ میں جواب دیا ۔ابو کے چہرے کا رنگ بدلا ،امی نے ادھر ادھر دیکھا ۔ لڑکی نے تھوڑا مسکرا کرمجھے دیکھا ۔
”ہوں ۔۔۔بہن سے ملنے ۔۔۔کہاں رہتی ہے آ پ کی بہن ۔”
” کوٹھی نمبر پانچ ۔۔۔گلبرگ نمبر دو۔ ”
ایک دم سے ائیرپورٹ پہ کھلبلی مچی تھی اور امی ابو ہراساں نظر آنے لگے تھے ۔
٭٭٭٭٭



نوین انگلینڈ چلی گئی تو آئمہ جہانگیر کی بوریت کے دن شروع ہو گئے ۔ وہ دوستی کے معاملے میں بھی بہت محتاطتھی ،اس لیے آج تک چند گنی چنی دوستیں ہی بنی تھیں ۔ عظمیٰ کو لاہور اچھی جاب ملی تو وہ وہاں چلی گئی تھی اور مرینہ شادی کر کے پیا دیس سدھار چکی تھی۔ آج کل اس کا زیادہ وقت شئن کے ساتھ سیلفیز لیتے ہوتے گزرتا ۔
اس دن شئن کی خدمت پہ مامور ملازم ریکس اس کے لیے ایکسپائرڈ بسکٹ اٹھا لا یا ۔ وہ تو اچھا ہوا کہ اس نے چیک کر لیا ، پھر کیا تھا ، ریکس کی شامت آئی ۔ وہ سر جھکائے سنتا رہا ۔ اس گھر میں ارم جہانگیر تھیں جو ملازموں کے ساتھ نرمی کا برتاؤ رکھتی تھیں ۔ ورنہ باپ بیٹی دونوں گھمنڈی تھے ۔
اچھی طرح کلاس لینے کے بعد وہ شئن کو لے کر سپر اسٹور چلی آئی ۔ اس کے لیے بسکٹس ، ڈرائیڈ لیمب اور چکن لینے کے بعد وہ گاڑ ی کے قریب پہنچیں تو جب خاقان احسن تیزی کے ساتھ چلتا ہوا، کی چین گھماتا ہوا سامنے سے آرہا تھا ۔ دونوں نے ایک ساتھ ایک دوسرے کو دیکھا ۔
”کیسی ہیں آئمہ جہانگیر ؟”
”شکر ہے میرا صحیح نام تو یاد ہوا آپ کو ۔” خاقان کو دیکھ کر اسے خوش گوار سا احساس ہوا تھا ۔
”یاد تو پہلے دن سے ہے ۔ دل پہ لکھا ہے تیرا نام۔۔ دل پہ ۔” اس نے دل والی جگہ پہ مکا مارتے ہوئے معلوم نہیں کس اداکار کی نقل اُتاری تھی ۔
”آپ شادی میں نہیں آئے تھے ؟” ردعمل میں کوئی با ت سمجھ نہ آئی تو پوچھ بیٹھی ۔
”آپ نے مس کیا ؟” بڑی جان دار مسکراہٹ خاقان احسن کے ہونٹوں پہ آئی۔
”میں نے نہیں کیا ۔” اس کے مکرنے کی ،جھوٹ بولنے کی کوشش کی مگر کچھ خاص کامیاب نہ رہی۔
”اچھا ۔” خاقان کی مسکراہٹ گہری ہوئی۔
”نوین کو فکر تھی۔” اس نے بات بنائی۔
”اچھا ۔۔۔ نوین بہت ہی پروا کرنے والی لڑکی ہے ۔ حالاںکہ اس کو تو میں نے بتا دیا تھا کہ اچانک کراچی جانا پڑ رہا ہے ، اس لیے نہیں آسکتا۔”
بدتمیز کے چہرے پہ مسکراہٹ ایسی تھی کہ آئمہ کا چہرہ سُرخ پڑا ۔اسے لگا کہ یہاں سے چلے جانا بہتر ہو گا ۔
”اکیلی آئی ہیں ؟” اسے جانے کے لیے پر تولتے دیکھ کرپوچھا ۔
”نہیں ۔۔۔یہ ہے ناں میرے ساتھ ۔” آئمہ نے فرنٹ سیٹ پہ بیٹھے شئن کی طرف اشارہ کیا۔
”اچھا ۔۔۔یہ کتا ۔”



”کتا نہ کہیں اسے۔” وہ جلدی سے برا منانے والے اندا ز میں بولی ۔
”واقعی کتے کو کتا کہنا اس کی توہین ہے ۔ آخر کتے کی بھی تو کوئی عزت ہو تی ہے ۔ خیر یہ بھی بتا دو کہ بادشاہ سلامت کو کس نام سے پکارا جائے ؟” اس نے کتے کے سامنے کورنش بجا لاتے ہوئے پوچھا۔
”Chien”
”کیا؟” خاقان کو سمجھ نہ آئی تھی، پھر بتانے پہ سمجھ آئی۔
”اچھا ۔۔۔ ” وہ ہنسا اور پھر ہنستا چلا گیا۔
”ہنس کیوں رہے ہو۔”
”کتے کواردو میں ”کتا ” پکارنا نہیں چاہیے البتہ فرنچ میں ”کتا ” پکار نے میں حرج نہیں بلکہ خاصی عزت افزائی ہے ۔” وہ پھر ہنسنے لگا تھا ۔ آئمہ کا چہرہ خفت سے سرخ پڑا ۔ اسے امید نہیں تھی کہ وہ فرنچ جانتا ہو گا ۔
” آپ کو فرنچ آتی ہے ؟”
”کچھ کچھ ۔ میرے ابا جی نے کئی فرنچ کتابوں کا اردو میں ترجمہ کیا ہے ۔”
”رئیلی ۔” وہ متاثر ہوئی ۔
”جی ہاں ۔۔۔ملیں گی ان سے ؟”
”کہاں؟”
”اندر ۔۔۔ امی، اماں جی اور ابا جی کے ساتھ گروسری کر رہی ہیں ۔آؤ ملواتا ہوں ۔”
”امی، اماں جی؟” وہ کچھ کنفیوژ ہوئی۔
”ارے ہم اپنی دادی جان کو ”اماںجی” اور دادا جان کو ” ابا جی ” کہتے ہیں ۔” اس نے قدم آگے بڑھاتے ہوئے وضاحت کی ۔وہ جھجکتی ہوئی اس کے ساتھ دوبارہ سپر اسٹور میں داخل ہوئی۔اس دن وہ خاقان کی امی ، اماں جی اور دانشور ابا جی سے ملی ۔ اسے ان سادہ مگر پر خلوص لوگوں سے مل کر اسے بہت اچھا لگا تھا۔وہ چلی گئی تو اماں جی نے تبصرہ کیا ، انہیں لڑکی نخرے والی لگی تھی۔
”اس عمر میںاکثر بچے ایسے ہی ہوتے ہیں ، خاص طور پر جہاں پیسے کی فراوانی ہو اور اولاد اکلوتی ہو ۔” ابا جی نے کہا تو خاقان مسکرا دیا ۔ اس نے ماں کی طرف دیکھا ، وہ چاہتا تھا کہ امی بھی بتائیں کہ انہیں آئمہ کیسی لگی۔ وہ معصوم سی خاتون تھیں ، جو ہنس کر مسکرا کر ملتا تھا ، انہیں اچھا لگتا تھا۔
٭٭٭٭٭



امی ابو میری طرف سے مطمئن تھے ، سارا اندیشہ انہیں ثانی کی طرف سے تھا کہ کہیں وہ گڑ بڑ نہ کر دے ۔
اور گڑ بڑ کر دی میں نے ۔
پولیس بیگم شاہجہاں کو بھی پکڑ لائی تھی ۔ یہاں کوئی چھوٹا موٹا معاملہ نہ تھا انسانی تجارت کا معاملہ تھا ۔وہ جو میرے امی ابو بنے تھے ناں ، وہ انسانوں کے سوداگر نکلے ۔ تھانے میں کوئی کہہ رہا تھا کہ اگر وہ ہمیں دبئی لے جاتے تو ساری زندگی ہم سے لیبر لیتے یا پھر کوئی اور غلط کام کرواتے ۔ یہ جو ہمارے امی ابو بنے تھے ،انہوں نے پہلے بھی بارہ بچے اسمگل کیے ہیں ۔ ان میں کچھ چھوٹے بچے ایسے بھی تھے ، جنہیںعربوں کے پسندیدہ کھیل یعنی اونٹوں کی ریس میں استعمال کیا گیا ۔ شکر ہے ان کو میری بہن نہیں ملی تھی ۔
غلام نبی کو واپس اس کے گھر بھیج دیا گیا ۔ اس کا ابا آیا تھا اسے لینے اور وہ غلام نبی کو سینے سے لگا کر روتے ہوئے اسے بہت پیار کر رہا تھا۔ جھوٹا غلام نبی۔۔۔بھلا ایسا ابا مار سکتا ہے ؟
ثمن کو لینے کسی گاؤں سے اس کے امی ابو بھی آگئے تھے ۔اس کا اصلی نام عائشہ تھا پولیس نے ان کو لاک اپ میں بند کر دیا تھا ۔ کیوںکہ وہ خود درہم کی لالچ میں عائشہ کو دبئی بھیج رہے تھے ۔ انہوں نے کہا کہ انہیں بتایا گیا تھا کہ عائشہ وہاں کسی ڈاکٹر کے گھر میں ایک بچے کو سنبھالے گی اور بہت اچھی تنخواہ ملے گی۔ وہ بے چارے غریب تھے ،اس لیے بیٹی کو ان کے ساتھ بھیجنے پہ راضی ہو گئے ۔
مجھے کوئی لینے نہیں آیا تھا ۔ میرے امی ابو جو نہ تھے اور جو بنے تھے وہ تو دھوکا نکلے ۔ میں بہت اداس بیٹھا تھا پھر جب میں نے بیگم شاہجہاں کی صورت دیکھی۔ مجھے رونا آگیا ۔ میں ان سے لپٹ جانا چاہتا تھا مگر پولیس والوں نے ہمیں اکیلا نہیں چھوڑ ا تھا ۔ وہ بیگم شاہجہاں سے بہت سوال پوچھ رہے تھے ۔ مجھے ان پر بہت ترس آیا ۔پھر مجھے دوسرے کمرے میں بھیج دیا گیا ، دوسرے کمرے میں جاتے ہوئے میں نے دیکھا دونوں آیا ،سرخ آنکھوں والا چاچا، مینیجر ، اکاؤنٹنٹ اور چوکی دار بھی برآمدے میں رکھے بینچ پہ بیٹھے تھے ۔

Loading

Read Previous

چھوٹی سی زندگی

Read Next

عبداللہ – دوسری اور آخری قسط

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!