عبداللہ – قسط نمبر ۰۱

”او ماریہ ۔۔۔او ماریہ ۔ ”
خاقان احسن گنگنایا تو وہ بے اختیار مسکرا دی۔
”او ماریہ ۔۔۔او ماریہ ۔۔۔شادی کرو گی مجھ سے ، کیسے کہوں یہ تجھ سے ۔۔۔یہ بتا ۔۔۔او ماریہ ۔۔اوماریہ۔”
آئمہ جہانگیر جو ائیر فونز لگائے بات کرنے کے ساتھ ساتھ ہاتھوں سے کیوٹیکس ہٹا رہی تھی، یہ کام بھولی ۔ اس کا دل تیزی کے ساتھ دھڑکنے لگا تھا ۔ خاقان بے شک وہ ایک گانا گنگنا رہا تھا مگر اس کا انداز۔ ۔۔
وہ اسے دیکھ نہیں رہی تھی ، صرف سن رہی تھی مگر محسوس کر رہی تھی کہ آج خاقان احسن کسی اور جون میں ہے ۔
”اس کے lyrics یہ تو نہیں ۔” اسے لگا کہ اس چپ میں کہیں اس کے دل کی دھک دھک دوسری طرف بھی سنائی نہ دے جائے ، اس لیے بے نیاز سا بن کر کہنے لگی ۔
”جاوید اختر کے لکھے lyrics پہ مت جاؤ لڑکی ۔ خاقان احسن کے ایڈٹ کیے بول سنو۔ بس۔” وہ فون کان سے لگائے ٹیرس پہ آکھڑا ہوا تھا ۔
”تمہیں کیسے پتا چلاتھا کہ میرا نام ماریہ نہیں اور نوین کا نام۔۔۔”
”ایک تو تم لڑکیاں بھی کتنی کند ذہن ۔۔۔ سوری سوری ۔۔۔کتنی معصوم ہوتی ہو ۔نوین بھی ابھی تک یہ سوال مجھ سے پوچھتی ہے ۔ میم ایکسیڈنٹ والے دن ہی جان گیا تھا میں کہ مادام نے غلط نام بتایا ہے ۔ جب آپ کے ڈیڈی تشریف لائے ، تو دس دفعہ تو انہوں نے آپ کو آپ کے اسم گرامی سے پکارا ، الحمدللہ میں بہرا تو ہوں نہیں ۔ ”
”اور نوین کا نام ؟”
”تم نے اپنے ڈیڈی کو فون پہ اور ان کے آنے کے بعد دس بار بتایا کہ نوین کے گھر جارہی تھی رستے میں ایکسیڈنٹ ہو گیا ۔ اس دن مال میں دیکھ کر میں نے قیاس کیا کہ وہ نوین ہے ، میرا اندازہ صحیح نکلا۔” کُہنیاں ریلنگ پہ ٹکائے آج تو شرافت سے جواب دے رہا تھا ۔
”او اچھا ۔۔۔” آئمہ نے اپنے ماتھے پہ ہاتھ مارا ۔
”ہو گیا ختم سسپنس۔۔۔ اب کام کی بات کی جائے ؟”
”ہوں ۔۔۔بولو۔”
”امی کو لگتا ہے کہ اب میں کمانے لگا ہوں ۔بیوی کا خرچہ اٹھا سکتا ہوں ۔”
”تو ؟”
”تو یہ کہ لڑکیاں بہت کُند ذہن ۔۔۔آئی مین معصوم ہوتی ہیں ۔” خاقان نے ماتھے پہ ہاتھ مارا۔
آئمہ جہانگیر کُند ذذہن نہیں تھی، اسے سمجھ آ رہی تھی مگراقرار و اظہار کی منتظر تھی۔ پہیلیوں پہ وہ قناعت نہ کرتی تھی۔
”اوماریہ۔۔۔او ماریہ ۔۔۔ شادی کرو گی مجھ سے ۔”
وہ پھر گنگنا رہا تھا اور آئمہ جہانگیر دھڑکتے دل کے ساتھ مسکرا رہی تھی ۔
”بے شک اماں جی کو لگتا ہے کہ لڑکی نخرے والی ہے ۔۔۔ پھر بھی ۔۔۔پھر بھی ۔۔۔او ماریہ ۔۔۔او ماریہ ۔”
”اماں جی کو لگتا ہے کہ میں نخرے والی ہوں ؟”
”ہوں۔۔۔” تازہ ہوا کے جھونکے کا لطف اٹھاتے ہوئے وہ مسکرایا ۔
آئمہ ہنس دی تھی ۔
” اتنی قابل تعریف خصوصیت تو نہیں ، پھر ہنسی کیوں ہو ؟”
”اس لیے کہ شکر ہے انہوں نے یہ نہیں کہاکہ آئمہ جہانگیر arrogant(مغرور)ہے۔ اکثر لوگوں کا یہی خیال ہے ۔”
”ہاہا ۔۔۔میر ا بھی یہی خیال ہے ۔۔۔ پھر بھی ۔۔۔ او ماریہ اوماریہ ۔۔۔ شادی کرو گی مجھ سے؟”
آئمہ جہانگیر نے نچلا لب کاٹتے ہوئے ہلکا سا سر ہلایا ۔ فون کی دوسری جانب موجود بندہ اسے دیکھ نہیں رہا تھامگر اس کی چپ پہ بولا۔
”شکریہ۔”
وہ ہنس دی تھی۔
٭٭٭٭٭



گلبرگ کا جو پتا بیگم شاہ جہاں نے مجھے دیا تھا ،وہاں میں اسی دن گیا تھا جس دن میرا میٹرک کا بورڈ کا پہلا پرچہ تھا۔ پرچہ دیتے ہی میں ٹیکسی کرو اکر اس پتے پہ پہنچا تھا مگر پتا چلا کہ وہ لوگ تو بہت پہلے دبئی جا چکے تھے ۔ اصولاً وہ پابند تھے کہ اگر یہاں سے کہیں جاتے تو بیگم شاہ جہاں کو اطلاع دے کر جاتے مگر اصول توڑنا تو یہاں چھوٹی بات ہے ۔
انٹر کے بعد جس دن میںو ہ گھر چھوڑ رہا تھا ، بیگم شاہ جہاں بہت اداس تھیں ۔ بیگم شاہ جہاں نے جن پودوں کی آب یاری کی تھی، ان میں سے جوانی کی دہلیز پہ قدم رکھنے والے ہم چار بچے تھے ، میں ، ثانیہ ، حفصہ اور لائبہ ۔ ہمارے ساتھ باقی جو بچے تھے ، انہیں بے اولاد جوڑوں نے گود لے لیا تھا ، ان کی جگہ اور بچے آ گئے ۔ ان میں سے بھی کئی گئے اور ان کی جگہ دوسرے بچوں نے لی۔ یتیم خانے میں پرورش پاکر میں کئی تلخ حقیقتوں سے آگاہ ہوا۔ یہاں پلنے والا ہر بچہ یتیم نہیں ہوتا بلکہ ان میں سے کئی ایسے ناجائز بچے ہوتے ہیں جن کو جنم دینے کے بعد کچرے کے ڈھیر میں پھینک دیا جاتا یا اس گھر کے دروازے پہ چھوڑ دیا جاتا ۔اس کے علاوہ مجھے لوگوں کا ایک اور گھناؤنا روپ پتا چلا ۔ دور جہالت کے کچھ مرد اس معاشرے میں بھی پائے جاتے تھے ۔ جس طرح پیارے نبی ۖ کی بعثت سے قبل ظلمت کے اُس دور میں بیٹی کو زندہ دفن کر دینے کا رواج تھا ، آج بھی کچھ سفاک بلکہ بدقسمت ایسے بھی ہوتے ہیں جو بیٹی جیسی رحمت پا کر خوش نہیں ہوتے ۔ انہیں یہ لگتا ہے کہ بیٹی ان کے لیے گالی ہے ، طعنہ ہے ۔ بوجھ ہے ۔ وہ یا تو بچی کو ماں کے پیٹ میں ہی ختم کر دیتے ہیں یا پیدا ہوتے ہی انہیں باہر پھینک دیتے ہیں ۔ اب وہ بچی چونٹیوں کی ، کتے بلیوں کی خوراک بنے یا پھر کوئی خدا کا بندہ اسے اٹھا کر یتیم خانے دے جائے، یہ اس کی قسمت۔
کیسے کیسے شقی القلب لوگ ہیں دنیا میں ۔ کیا انہوں نے کبھی یہ سُنا نہیں کبھی یہ پڑھا نہیں کہ نبی کریم ۖ نے فرمایا ۔
جب کوئی لڑکی پیدا ہوتی ہے تو اللہ فرماتا ہے کہ اے لڑکی تُو زمین میں اتر، میں تیرے باپ کی مدد کروں گا ۔
کیسے ہی بدقسمت لوگ ہیں جو اللہ کی مدد کو ٹھکرا نے والے ہیں ۔
میں یہ بھی سوچتا تھا کہ کیا انہوں نے کبھی یہ سنا نہیں ، کبھی یہ پڑھا نہیں کہ قبول اسلام کے بعد جب کوئی صحابی نبی کریمۖ کی خدمت میں حاضر ہوتا اور دور جہالت میں بیٹی کو زندہ دفن کر دینے کا واقعہ سناتا تو آپ ۖ ایسے واقعات سن کر آب دیدہ ہو جاتے اور ایک دفعہ آپ ۖ کی آنکھوں سے اتنے آنسو جاری ہوئے کہ ڈاڑھی آنسوؤں سے تر ہوگئی ۔مگر ان لوگوں کے یہ گناہ اس لیے معاف ہو جاتے کہ وہ اسلام قبول کرنے سے پہلے ا س گناہ کے مرتکب ہوئے تھے ۔مگر ان لوگوں کا کیا ہو گا جوپیدائشی مسلمان ہو کر آج کے دور میں سانس لیتی بیٹیوں کوکتے بلیوں کی غذا بننے کے لیے پھینک دیتے ہیں ۔ یہ سوچ سوچ کر دل غم سے پھٹتا ۔ پھر بیگم شاہ جہاں اور ان جیسا دردمنددل رکھنے والے لوگوں کو دیکھ کر ڈھارس ہوتی، جو اس رحمت کو اٹھا کر سینے سے لگاتی۔
بیگم شاہ جہاں نے نہ صرف ہم بچوں کو پروان چڑھایا بلکہ جب ہم اٹھارہ سال کے ہوئے تو یونہی ہماری انگلی چھوڑ نہ دی بلکہ ایک ماں کی طرح ہمارے مستقبل کے لیے بھی بہتر کوششیں کیں ۔ انہوں نے لڑکیوں کو تعلیم کے ساتھ ساتھ ہنر بھی دیا تھا ۔ حفصہ یہیں چھوٹی بچیوں کو سلائی کڑھائی سکھا رہی تھی۔ لائبہ کی شادی ایک اچھا لڑکا دیکھ کر کر دی تھی۔ثانیہ ڈاکٹر بن رہی تھی۔ میرے لیے وہ چاہتی تھیں کہ میں یہیں رہ کر بچوں کو میتھس پڑھاؤں مگر میں یہاں سے نکلنا چاہتا تھا ۔ اپنی بہن کو ڈھونڈنا چاہتا تھا ۔ مجھے ایک ٹرانسپورٹ کمپنی میں جاب مل گئی تھی،اڈّے پہ ہی رہنے کے لیے ایک کمرا بھی مل گیا تھا ۔میں نے بیگم شاہجہاں سے وعدہ کیا کہ آتا جاتا رہوں گا ۔ وہ یہ بھی چاہتی تھیں کہ میں حفصہ سے شادی کر لوں ۔ میں نے ان سے کہا تھا کہ ابھی میں شادی کے بارے میں نہیں سوچتا ۔ وہ کچھ مایوس نظر آئی تھیں ۔
جب سے اس گھر کو ایک این جی او کی سپورٹ حاصل ہوئی تھی، گھر کے حالات کافی بہتر ہوئے تھے ۔ ثانیہ اسکالرشپ پہ چائنا گئی تھی میڈیکل کی تعلیم حاصل کرنے ۔ مجھے بھی اسکالر شپ آفر ہوئی تھی مگر میں نہیں گیا ۔مجھے ابھی ایک ضروری کام باقی تھا ، اسے نپٹانے سے پہلے میں دنیا بھی نہیں چھوڑنا چاہتا تھا ۔ بیگم شاہ جہاں میرے فیصلوں سے کچھ زیادہ خوش نہیں تھیں ۔
٭٭٭٭٭



جب موسم بہار جوبن پہ تھا ،ہر طرف پھول تھے رنگ تھے۔خوشبوتھی ،انہی دنوں آئمہ جہانگیر کے رخسار گلابی گلاب ہو گئے تھے ۔خود بہ خود مسکرانے لگی تھی۔بات بے بات ہنسنے لگی تھی۔وہ اسے دیکھتا تو بے خود سا دیکھتا چلا جاتا پھر شرمندہ ہو کر نظریں جھکا لیتا۔اس کا دل آئمہ جہانگیر کی مسکراہٹوں کے لیے ہر لحظہ دعا بن گیا تھا ۔گھر میں رونقیں جاگ اٹھی تھیں ۔مہمان آنے لگے تھے ،بازاروں کے چکر لگنے لگے تھے۔
”آئمہ بی بی کی بات پکی ہو گئی ہے ۔”
پائپ اٹھاتے ہوئے اس کا ہاتھ وہیں رک گیا تھا ۔یہ تو اس کے سننے میں آیا تھا کہ جہانگیر عثمان کی بہن اپنے بیٹے کے لیے کافی عرصہ سے اس کا رشتہ مانگ رہی ہیں ۔ مگر جہانگیر عثمان کی طرف سے ہاں نہ ہو رہی تھی ۔ اب یوں اچانک بات پکی ہو جانے کی خبر ۔۔۔ اس کا سکون برباد ہونے لگا تھا ۔اس رات وہ سونے کے لیے لیٹا تو نیند نہ آئی ۔ساری رات بے قراری کے ساتھ کروٹیں بدلتا رہا ۔ صبح اٹھ کر آئمہ کے کمرے کی طرف چلا آیا ۔ وہ اس سے بات کرنا چاہتا تھا ، اسے کچھ کہنا چاہتا تھا ،اس سے کچھ پوچھنا چاہتا تھا۔
وہ دروازے پہ دستک دے کر اس کے کمرے میں داخل ہوا ۔ وہاں کی صورت حال نے اسے پریشان کر ڈالا۔ارم جہانگیر رو رہی تھیں اور آئمہ انہیں چپ کروا رہی تھی۔
”پانی لے کر آؤ۔” اس پہ نظر پڑتے ہی آئمہ نے حکم دیا ۔ اس نے بیڈروم ریفریجریٹر سے پانی کی بوتل نکال کر گلاس بھرا اور آئمہ کی طرف بڑھایا ۔
”ممی ! پانی پئیں آپ۔”
”تم ہی بتاؤ ،اب اس میں میرا کیا قصور ہے ؟” ارم جہانگیر نے گلاس ہاتھ میں تھام کر گھونٹ بھرنے کے بجائے آئمہ سے سوال کیا ۔
” ممی یار ۔۔۔آپ بھی نہ بہت معصوم ہیں ، چپ کر کے سنتی رہتی ہیں ۔ آگے سے پھوپھو کو سنایا کریں تا کہ ان کو پتا چلے کہ آپ کے منہ میں بھی زبان ہے ۔ ان سے کہیں کہ آپ اپنی بیٹی کا رشتہ جہاں چاہیں گے کریں گے ۔وہ کون ہوتی ہیں بیچ میں آنے والی۔ ہے کیا ان کے بیٹے میں ، نہ شکل نہ پیسہ۔ میرے ڈیڈی کی دکان سنبھال کر بڑا جیولر بنا پھرتا ہے ۔ کوئی اور لڑکی تو متاثر ہو گی، میں نہیں ہونے والی۔”
وہ چپ کر کے کمرے سے باہر نکل آیا تھا ۔ کسی کے نجی معاملات میں سن گن لینے کی آج تک اس نے کوشش نہ کی تھی مگر آج وہ بہت سی باتیں جاننا چاہتا تھا ۔ اتنا تو وہ سمجھ گیا تھا کہ جہانگیر عثمان کے بھانجے کے ساتھ رشتہ طے نہیں ہوا اس کا ۔
٭٭٭٭٭
میں ا س د ن بہت عرصے بعد بیگم شاہ جہاں سے ملنے گیا تھا ۔بیمار رہنے لگی تھیں وہ ۔ انہوں نے حفصہ کو اپنے کا م سکھانے شروع کر دیئے تھے۔ انہوں نے اس کی بات ایک لڑکے سے طے کر دی تھی جو کہ یتیم تھا ۔ چچا کے گھر پلا بڑھا ، نوکری کے بعد کچھ لڑکوں کے ساتھ مل کر ایک فلیٹ میں رہنے لگا تھا ۔ اچھا نیک اور شریف لڑکا تھا ۔کسی ورکشاپ میں کام کر لیتا تھا ۔ کمائی اتنی ہو جاتی تھی کہ عزت کے ساتھ کھا سکے اور بیوی کو کھلا سکے ۔ یتیم خانے میں پرورش پانے والی بچیوں کے رشتے محلوں سے نہیں آتے ۔ زیادہ تر وہ لڑکے یا مرد ہی ا س طرف کا رخ کرتے ہیں ، جن کا اپنا کوئی نہیں ہوتا اور وہ گھر بسانے کی خواہش رکھتے ہیں ۔
بیگم شاہ جہاں بچیوں کو سمجھاتی تھیں کہ محلوں سے رشتہ آئے یا جھونپڑی سے ، جو مرد اپنی بیوی کو عزت اور محبت دے ، اپنا نام دے ، وہ شہزادہ ہی ہوتا ہے ۔ حفصہ بھی مطمئن تھی۔بیگم شاہجہاں نے حفصہ کے نام کوارٹر الاٹ کر دیا تھا ، شاد ی کے بعد اسے یہیں رہنا تھااور اس گھر کا انتظام سنبھالنا تھا ۔ اس دن حفصہ کو دیکھ کر میں نے سوچا کہ وہ مجھ سے زیادہ اچھی نکلی ۔ میں بیگم شاہ جہاں کی امیدوں پہ پورا نہ اترا تھا ۔ میں انہیں کیا بتاتا کہ میں ایک جگہ اپنے پاؤں باندھ کر بیٹھ نہیں سکتا ۔مجھے اپنی بہن کو تلاش کرنا ہے جو ملتی ہی نہیں ۔ میں نے پاکستان کا ہر بڑا شہر چھان مارا تھا۔
اس دن بیگم شاہ جہاں سے ملنے کے بعد حسبِ عادت بچوں کے پا س ٹھہر گیا ، آیا حسب عادت ان پہ چلا رہی تھی۔ دو بچوں کو اس نے تھپڑ بھی جڑ دیا تھا ۔ وہ مزید بدمزاج ہو گئی تھی۔ میں نے سوچا ، بیگم شاہ جہاں کو مشورہ دوں گا کہ اب اس آیا کی جگہ دوسری رکھ لیں ۔یہی سوچتے ہوئے میں بچوں میں ٹافیاں بانٹنے لگا ۔ میرا بس چلتا تو میں ان بچوں کے لیے تازہ اور خالص دودھ لے کر آتا ،گوشت اور پھل لے کر آتا مگر ابھی میری جمع پونجی اپنی بہن کو ڈھونڈنے میں استعمال ہو جاتی تھی۔ جب وہ مل جائے گی تو پھر میں ان بچوں کے لیے ا س سے بہتر تحفے لے کر آیا کروں گا ان شا ء اللہ۔ میں نے دل میں سوچا تھا۔
ٹافیاں بانٹ کر باہر نکلا تو آیا کو بُڑبُڑاتے سنا ۔
”دوسروں کے بچے پالتی رہوں اور اپنی بچی کی صورت کو ترس جاؤں ۔۔۔یہ تیرا انصاف ہے مولا؟” وہ آسمان کی طرف منہ کر کے اللہ سے شکوے کر رہی تھی۔ اس کی آواز بھرائی ہوئی تھی۔میں رکنے پہ مجبور ہوا۔
میں نے دیکھا ،آیا رو رہی تھی۔
٭٭٭٭٭
دن گزرتے رہے ۔گلابی گلاب آئمہ جہانگیر کے کمرے میں سجتے رہے ،اس کے عارض دہکتے رہے ۔ گلابوں کے کاشت کار کی نیندیں حرام ہوتی گئیں ۔سجدے طویل ہوتے گئے۔
اس دن وہ pruning shear(شاخوں کی کٹائی والی قینچی ) سے کچھ پودوں کی ترا ش خراش میں مصروف تھا جب اس کے کانوں میں آئمہ کی سُریلی ہنسی نے رس گھولا تھا ۔وہ کچھ دیر رک کر پھر اپنے کام کی طرف متوجہ ہوا مگر جانے پھر کیا ہوا کہ کام چھوڑ کر ا س طرف چلا آیاجہاں سے ہنسی کی آواز اب بھی آرہی تھی۔ وہ کسی سے موبائل پہ بات کر رہی تھی۔اس وقت اس کے عارض سُرخ گلاب کی طرح دہک رہے تھے یوں لگتا تھا کہ ذرا سی چٹکی کاٹی نہیں اور خون ابلا نہیں ۔
”آپ ۔۔۔آپ سے ایک۔۔۔ایک بات پوچھ۔۔پوچھنی تھی۔” اس نے کان سے موبائل ہٹایا تو اس کے سامنے چلا آیا ۔لفظ لکھنا آسان تھا مگر بولنا کتنا مشکل۔
”بولو۔” آج کل وہ نوکروں پہ بھی مہربان رہتی تھی۔
”خا ۔۔۔خا۔۔۔خاقان احسن اچھا بندہ تو ہے ناں ۔آ پ ۔۔آپ نے پتا کروایا اچھی طرح؟”



پہلے تو وہ کچھ دیر منہ کھولے کھڑی رہی، جیسے اسے یقین نہ ہو کہ سامنے والا بندہ اتنی ہمت کر سکتا ہے ، پھر اس کی آنکھوں سے چنگاریاں نکلیں ۔
”تم ۔۔۔تم ۔۔۔حیثیت کیا ہے تمہاری۔تمہاری اتنی جرات بھی کیسے ہوئی کہ تم ایسی بات کرو۔ تم ایک نوکر ۔۔۔ایک مالی ۔۔ایک دو ٹکے کے ۔۔۔تم ۔” وہ اتنی چراغ پا ہوئی کہ اس سے بولنا بھی محال ہوا۔وہ نظریں جھکائے کھڑا رہا ۔
”چراغ دین ۔۔۔چراغ دین۔” وہ اتنا اونچا چلائی کہ چوکی دار ہڑبڑا گیا اور پھر دوڑتے ہوئے آیا۔
”چراغ دین ۔۔اسے بتاؤ کہ ایک نوکر کی حد کیا ہے ۔”
پاؤں پٹخ کر وہ وہاں سے چلی گئی تھی۔ چراغ دین کو کچھ سمجھ آیا ہوتا تو اسے سمجھاتا ناں ۔
”کیا ہوا؟” وہ اسی سے پوچھ رہا تھا ۔اس نے کوئی جواب نہ دیا اور جا کر اپنے کام میں لگ گیا۔
٭٭٭٭٭

(جاری ہے)

Loading

Read Previous

چھوٹی سی زندگی

Read Next

عبداللہ – دوسری اور آخری قسط

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!