عبداللہ – قسط نمبر ۰۱


ایمرلڈ گرین اور ڈیپ ریڈ کامبینیشن میں ، اسماء حبیب کا تیار کردہ لباس پہن کر جب وہ آئینے کے سامنے آئی تو خود کو خود ہی سراہے بنا نہ رہ سکی۔ میکسی اسٹائل کے زمین کو چھوتے اس لباس میں وہ حسین ترین لگ رہی تھی۔
”پتا نہیں آج وہ اس کے ڈریس پہ کیسا کیسا تبصرہ کرے گا۔۔۔ جو بھی کہے گا ۔ آج برا نہیں لگے گا ۔” روبی اور زمرد سے مزین ایئر رنگز کانوں میں ڈالتے ہوئے اس نے سوچا اور مسکرا دی۔
ممی نے اسے دیکھا تو نظر لگ جانے کے ڈر سے فورا صدقہ اتار کر ایک ملازم کے ہاتھ میں دیا۔
” یہ لو ۔۔۔یہ مالی کو دے دینا ۔ ” اس نے بھی اپنے کلچ میں سے پانچ ہزار کا نوٹ نکال کر ملازم کی طرف بڑھایا ۔
”وہ صدقہ اور زکوة نہیں لیتا میم۔” ملازم نے بتایا تو ایک لمحے کے لیے وہ چپ سی رہ گئی ۔
”مجھے لگا وہ ضرورت مند ہے ۔” آہستہ آواز میں کہتے ہوئے اس نے نوٹ اسی ملازم کو دے دیا ۔” تم رکھ لو ۔” انداز میں رعونت واپس آئی ۔ آئمہ جہانگیر بڑھایا ہوا ہاتھ یونہی واپس لے جانا توہین سمجھتی تھی۔ ملازم کا چہرہ کھل اٹھا ۔
وہ ممی کے ساتھ باہر آئی ۔ شادی میں وہ بھی اس کے ساتھ جا رہی تھیں ۔گاڑی کی طرف قدم بڑھاتے ہوئے غیر ارادی طور پر اس کی نظریں لان کی طرف اٹھیں ۔ وہ اپنے کام میں مگن تھا ۔ ممی کی طرف سے اس گھر کے ملازمین کو صاف ستھرا رہنے کی خاص ہدایت کی جاتی تھی۔و ہ بھی ہمیشہ صاف ستھرا نظر آتا تھا مگر اس کے علاوہ بھی اس میں کوئی خاص بات تھی، جو اس کے ہر انداز میں تمکنت تھی وقار تھا ۔
”غریب پہ اتنا نخرہ جچتا نہیں ۔ ” وہ سر جھٹک کر گاڑی میں بیٹھ گئی تھی۔
میرج ہال پہنچنے تک اس کے خیالوں میں صرف خاقان احسن رہ گیا تھا ، باقی ہر سوچ پیچھے چلی گئی تھی۔ ممی کے ساتھ جب وہ ہال میں داخل ہوئی تو بہت سی نگاہیں اس پہ جم گئیں ۔ اس کی ٹک ٹک کرتی ایڑی کے نیچے بہت سے دل آئے ۔ نوین کا دیور یہ سوچنے پہ مجبور ہوا کہ بھابی کے مشورے پہ عمل کر لیا جائے تو اچھا ہے ۔
اس میں کوئی شک نہیںتھا کہ آئمہ جہا نگیر بہت خوب صور ت تھی اور فیشن کو کیری کرنے کا فن اسے مزید حسین بنا دیتا تھا۔چار چاند تب لگ جاتے جب پتا چلتا کہ وہ سونے اور ہیروں کے بیوپاری کی بیٹی ہے ۔
ہر کسی نے اسے سراہا تھا مگر لا شعوری طور پر اس کے کان صرف ایک بندے کی تعریف سننے کے منتظر تھے ۔ نوین سے باتیں کرتے ہوئے ، اس کے ساتھ سیلفیز لیتے ہوئے اس کی نِگاہ اِدھر اُدھر بھٹکتے ہوئے ایک ہی شخص کو تلاش کر رہی تھی۔
چاہے اپنے مخصوص انداز میں اس کا مذاق ہی اڑائے مگر نظر تو آئے ،مگر وہ کہیں دکھائی نہ دے رہا تھا ۔ وہ آیا ہوتا تو کہیں نہ کہیں سے ضرور ٹپک پڑتا ۔ پس منظر میں رہنے والوں میں سے یا چپ بیٹھے رہنے والوں میں سے تو تھا نہیں وہ ۔
وہ آیا ہی نہیں تھا ۔نوین کی رخصتی تک وہ بُجھ سی چکی تھی۔بارہا اس نے نوین سے پوچھنا چاہا مگر نہ پوچھ پائی۔ اس میں انا تھی۔ پھر اگر خاقان کا نام بھی اس کے سامنے لے لیتی تو نوین نے اس وقت شرمانے کی ایکٹنگ چھوڑ کر اس کے پیچھے پڑ جانا تھا ۔
نوین کا دیور ساری تقریب میں اس کے آگے پیچھے پھرا مگر اس نے برانڈڈسوٹ بوٹ ، برانڈڈ رسٹ واچ اور برانڈڈ گلاسز والے کو کوئی اہمیت نہ دی تھی۔ اسے پائنچوں اور گھٹنوں سے پھٹی جینز پہن کر گھومنے والا بندہ یاد آتا رہا ۔
٭٭٭٭٭



”باجی سونیاکہہ رہی ہے کہ آج آپ بہت اچھی لگ رہی ہیں ۔” اریبہ نے اس کے کان کے پاس آکر سر گوشی کی ۔ اس نے نوٹ بک سے نظر ہٹاکر پہلے اسے دیکھا پھر سونیا کو ۔ سونیا نے شرما کر منہ پہ کتاب رکھ لی ۔ وہ مسکرا دی۔
”شکریہ ۔” اس نے اریبہ سے کہا اور پھر نوٹ بک کی طرف دھیان کر لیا ۔
بچوں کے چلے جانے کے بعد اس نے ہانڈی چڑھائی اور پانچویں کلاس کے ٹیسٹ پیپر لینے اٹھانے کے لیے کمرے میں گئی۔ کھانا پکانے کے ساتھ ساتھ یہ کام بھی نپٹ جاتا تو اچھا تھا ۔ دادی انگلیوں پہ کوئی وظیفہ پڑھ ہی تھیں ۔ وہ ٹیسٹ پیپر اٹھا کر کمرے سے نکلتے نکلتے رُکی اور آئینے کے سامنے آ کھڑی ہوئی۔
آج اسکول میں بھی بچوں نے اور کچھ ٹیچرز نے اس کی تعریف کی تھی۔اس نے بہت عرصے بعد نیا سوٹ پہنا تھا شاید اس لیے ۔ بلیک اینڈ وائٹ کلر کا یہ ڈریس اس پہ جچ بھی بہت رہا تھا۔
حالات اجازت ہی نہ دیتے تھے خود پہ توجہ دینے کی ۔ خود غرض ہوتی تو صرف اپنا سوچتی۔ تنخواہ اور ٹیوشن مل ملا کر اس کے لیے کافی تھی ، وہ اپنی سب ضرورتیں اور چند خواہشیں پوری کر سکتی تھی ۔ مگر جس گھر میں بیمار بندہ ہو ،وہاںکمائی کا بڑا حصہ ڈاکٹر اورفارمیسی کو چلا جاتا ہے ۔ابھی بھی دادی کی آنکھ کا آپریشن کب سے رکا ہوا تھا ۔ کہنے کو دادی کے تین بیٹے اور دو بیٹیاں تھیں مگر جس دادی نے پانچ بچے پالے تھے ، ان بچوں سے ایک ماں نہ پلتی تھی۔
کہیں ماں باپ کے زندہ ہوتے ہوئے بھی بچہ خود کو یتیم محسوس کرتا ہے، کہیں اولاد کے ہوتے ہوئے بھی ماں خود کو بانجھ محسوس کرتی ہے ۔ یہ دنیا اور اس کے نرالے لوگ ۔۔۔آمنہ فرمان تو سمجھنے سے قاصر تھی۔
کچھ بھی تھا ، آمنہ فرمان کی زندگی میں بڑی تبدیلی آئی تھی ۔ وہ خوش رہنے لگی تھی۔ اس کے دن اور رات کسی کے خیالوںسے آباد رہنے لگے تھے ۔ اسے لگتا تھا یہ بات صرف اس کے من کی ہے ، من تک ہی ہے ۔مگر ایسا نہ تھا ۔ یہ دو دن بعد کی بات ہے جب نورین باجی سالن لینے آئی تھیں ۔
”بھنڈی پکی ہے ، تمہیں تو پتا ہے ، میر ا نومی نہیں کھاتا ۔ میں نے سوچا دیکھوں تم نے کیا پکایا ہے ، ورنہ اسے چپس بنا کر دوں ۔”
” میں کریلے بنا رہی ہوں ۔”
”لو ۔۔۔ کریلے دیکھ کر تو اس نے کریلے جیسا منہ بنا لینا ہے ۔”
آمنہ ہنس پڑی۔



”کیا بات ہے ۔بہت نکھرتی جا رہی ہو ۔” نورین باجی نے اس کی کھنکھناتی ہنسی کو بھی محسو س کیا اور اس کی کھلتی رنگت پہ بھی غور کیا ۔
وہ شرما سی گئی اور ڈھکن اٹھا کر دم پہ رکھے کریلوں کو دیکھنے لگی ۔
”او ۔۔۔آمنے ، بتا چکر کیا ہے؟”
”کچھ بھی نہیں ۔۔۔ آپ بھی ناں نورین باجی ۔۔۔” اس کے گندمی رنگ میں سرخی سی گھلی۔
” چل نہ بتا ۔۔۔لیکن دیکھ لے بچے ، ہم نے بھی دنیا دیکھی ہے ۔ ”
نورین باجی کے تجربے غلط نہ تھے ۔ اس نے دل میں اقرار کیا مگر ان کے سامنے ٹالتی رہی۔
”اچھا سن۔۔۔ ندرت میاں سے لڑ کر آگئی کیا ؟” نورین باجی کو اچانک یاد آیا تو تایا کی بڑی بیٹی کی بابت اس سے پوچھا ۔
”ہوں ۔۔۔رافعہ نے ذکر تو کیا تھا ۔”
رافعہ اب اکثر چچی کے بغیر آنے لگی تھی اس کے پاس پڑھنے کے لیے ۔ اس نے نوٹ کیا تھا کہ پڑھنے سے زیادہ اس کا دھیان موبائل کی طرف ہوتا تھا ، پڑھتے پڑھتے اچانک اٹھ کر گھر کے لیے چل پڑتی تھی ۔
” جیسی کرنی ویسی بھرنی ۔۔۔ میری ساس بتاتی ہیں کہ تمہارے امی ابا کے بیچ طلاق میں تمہاری تائی کا بھی بڑا ہاتھ تھا ۔ تمہاری اماں زبان کی کڑوی تھی مگر دل کی بُری نہ تھی۔اس خامی کو پہاڑ بنا کر میٹھے میٹھے بن کر تمہارے ابا کے کان بھرے جاتے تھے ۔” نورین باجی بیاہ کر ان کے پڑوس میں آئی تھیں ، ان کو اپنی ساس اور نندوں کے توسط سے یہاں کے ہر گھر کے اندرونی حالات کی خبر تھی اور ان کے توسط سے آمنہ کو بہت سی خبریں ملتی تھی۔ خود تو وہ گھر سے بھی نکلتی تھی تو کان ، منہ بند کر کے ۔
”میں تو بہت خوش ہوں کہ تم اپنی اماں سے ملی۔ ”
وہ ہلکا سا مُسکرائی ۔ اسے اماں سے ملوانے والابھی ساتھ ہی یاد آیا تھا ۔ نورین باجی دو چار باتیں کرنے کے بعد چلی گئی تھیں ۔ان کے جانے کے بعد اس کا دل چاہا کہ وہ خود کو دیکھے ۔ وہ آئینے کے سامنے آکھڑی ہوئی ۔آج تو اس نے پرانا سا گھِسا پٹا لان کا سوٹ پہنا تھا اور منہ بھی شاید ٹھیک طرح سے نہ دھویا تھا ۔ پھر بھی ۔۔۔پھر بھی اس کے گندمی مُکھ پہ عشق کا رنگ چڑھنے لگا تھا ،اس کے ہر انداز میں عشق کا رنگ بولنے لگا تھا ۔
٭٭٭٭٭



امی ابو جنہوں نے مجھے ایڈاپٹ کیا تھا، بہت اچھے تھے ۔وہ مجھ سے بہت پیار کرتے تھے ۔ مجھے گھماتے پھراتے بھی تھے۔ اُس گھر میں تو سال چھے مہینے بعد پکنک ،ٹور پہ چلے بھی جاتے تو بیگم شاہجہاں کی طرف سے اتنی ہدایا ت ملتی تھیں کہ ہاتھو ں میں ان دیکھی ہتھکڑیاں اور پیروں میں بیڑیاں محسوس ہونے لگتیں ۔مجھے یہ دنیا اچھی لگ رہی تھی اور اگر جو میری بہن ساتھ ہوتی تو اور بھی اچھی لگتی ۔میں ان کو روز یاد دلاتا تھا کہ مجھے میری بہن سے ملنا ہے اور پھر اسے بھی ساتھ لے آئیں گے اوراکٹھے رہیں گے ۔ابو نے جوش کے ساتھ پتے والی پرچی دیکھی تھی اور جیب میں رکھ لی تھی۔ اگلے دو روز بعد اس پرچی کے ٹکڑے میں نے ڈسٹ بن میں دیکھے ۔ میرے دل کو ٹھیس لگی مگر پریشان نہیں ہوا کیوںکہ مجھے تو یہ پتا منہ زبانی یاد ہو چکا تھا ۔مجھے گہری نیند سے جگا کر بھی کوئی وہ پتا پوچھتاتو میں فرفر سنا دیتا ۔
دو ہفتے بعدگھر میں ایک مجھ سے بھی چھوٹا لڑکا آیا تھا ، امی نے بتایا تھا کہ وہ میرا بھائی ہے ۔
”میرا کوئی بھائی نہیں ہے ،ایک ہی بہن ہے ۔” میں نے امی کو بتایا تھا۔ انہوں نے سمجھایا تھا کہ میں اس طرح کی باتیں نہ کروں ورنہ وہ چھوٹا بچہ پریشان ہو گا ،اس کا دل ٹوٹ جائے گا ۔
”ایکسیڈنٹ میں اس عمر کا آپ کا کوئی بیٹا بھی فوت ہو گیا تھا کیا ؟” میں نے امی سے پوچھا تھا، انہوں نے جواب نہیں دیا تھا ۔
مجھے پتا تھا کہ ثانی میرا بھائی نہیں ، امی بھی بیگم شاہ جہاں کی طرح کوئی جھوٹ بول رہی ہوں گی مگر میں چپ رہا ۔ ایک ہفتہ بعد دس بارہ سال کی ایک لڑکی آئی تھی۔ امی نے بتایا کہ وہ ہماری بہن ہے۔ اس دفعہ میں نے سختی کے ساتھ یہ بات ماننے سے انکار کر دیا تھا ۔ وہ کالی سی لڑکی میری بہن نہیں تھی، میری بہن تو گلابوں جیسی تھی گلابی گلابوں جیسی اور یہ ثمن تو اتنی بڑی تھی ۔ میری بہن نے تو ابھی چلنا سیکھا تھا ۔
میں ساڑھے تین سال گزرنے کے بعد بھی انہی لمحوں میں سانس لیتا تھا، جو میں نے اپنی بہن کے ساتھ گزارے تھے ۔ مجھے وہ اتنی سی ہی یاد آتی تھی جب وہ قدم قدم اٹھا کر بانہیں پھیلا کر میری طرف بڑھتی تھی۔
مجھے کبھی ثمن کو اپنی بہن مان ہی نہیں سکتا تھا۔ بھلے امی اور پھر ابو نے بھی سختی کے ساتھ مجھے سمجھایا تھا کہ وہ میری بہن ہے ۔ ہم تینوں کو زبردستی ایک دوسرے کے بہن بھائی بنا دیا گیا تھا ۔ ہم ایک دوسرے کو اجنبی نظروں سے دیکھتے تھے ۔ پھر ایک دن ثانی کو ابو نے مارا تھا ۔ وہ چھوٹا تھا مگر اتنا بھی چھوٹا نہ تھا کہ اپنا نام یاد نہ رکھ پائے ۔ابو اس کا نام پوچھتے اور وہ کہتا ۔
”غلام نبی۔”



ابو بار بار اسے بتاتے تھے کہ اس کا نام ثانی ہے ۔اسے یاد ہی نہ ہوتا تھا ۔شاید اس کی میموری ویک تھی۔ پھر ایک دن ابو نے غصے میں آ کر اسے دو تھپڑ مارے ۔ رات ثانی بہت روتا تھا ۔ مجھ سے رہا نہ گیا اور میں اسے چپ کروانے لگا ۔
”تمہیں بھی امی ابو نے ایڈاپٹ کیا ہے ؟” میں نے پوچھا تھا ۔ بیگم شاہ جہاں والے گھر میں رہ کر مجھے بہت سارے ایسے لفظ آ گئے تھے جو شاید میری عمر کے باقی بچے ناواقف ہوں ۔اس بچے کو بھی میری بات سمجھ نہیں آئی تھی۔ میں نے اسے سمجھانے کی کوشش کی تو اس نے بتایا کہ وہ کسی ایسے گھر سے نہیں آیا جہاں بہت سارے بچے امی ابو کے بغیر رہتے ہیں بلکہ وہ تو اپنے امی ابا کے ساتھ رہتا تھا ۔ابا اسے بہت مارتا تھا،ایک دن اس کا رزلٹ آنا تھا ۔ابا نے کہا تھا اگر وہ فیل ہوا تو اس کو ٹریکٹر کے آگے ڈال کر ٹریکٹر اس پہ چڑھا دے گا ۔ وہ فیل ہو گیا تھااس لیے وہ گھر سے بھاگ آیا ۔ ورنہ ابا تو اسے مار ہی ڈالتا ۔وہ ایک ٹرین میں بیٹھ کر پتا نہیں کہاں اترا تھا ۔ اسے ایک انکل ملے انہوں نے اسے کھانا کھلایا پھر آئس کریم بھی کھلائی اور گیس والا غبارا بھی لے کر دیا ۔ انہوں نے کہا تھا کہ وہ مجھے ایک ایسے ابا کے پاس لے جائیں گے، جو اسے کبھی نہیں ماریں گے ۔ مگر اس ابا نے بھی آج اسے مارا ہے ۔
میں نے اس بچے کو پیار کیا تھا اور سمجھایا تھا کہ اسے اب یہاں ثانی بن کر رہنا چاہیے ۔ میں بھی تویہاں ساحر بن کر رہ رہا تھا ۔ حالاںکہ یہ میرا نام کب تھا ۔ مگر امی ابو کو جو بیٹا ایکسیڈنٹ میں فوت ہو گیا تھا، اس کا نام ساحر تھا ۔ امی ابو مجھے اس لیے تو لائے تھے کہ میں ان کا ساحر بن جاؤں ۔ میں ان کے جذبات سمجھ گیا تھا ۔ مجھے پتا تھا کوئی پیارا کھو جاتا ہے تو بڑی تکلیف ہوتی ہے ۔ میری تکلیف تو پتا نہیں کب ختم ہونی تھی، میں ان کی تکلیف کم کرنے کی کوشش تو کر سکتا تھا ناں ۔
ایک دن امی نے ہمیں بتایا کہ ہم پرسوں کی فلائٹ سے دبئی جا رہے ہیں ۔ میں پریشان ہو گیا۔ میری بہن میرا انتظار کرتی ہو گی اور یہ لوگ مجھے کہاں لے جا رہے ہیں ۔
”تمہاری بہن وہیں ہے ۔” امی نے میرے سر پہ ہاتھ رکھتے ہوئے بتایا ۔
”یہ پتا وہیں کا ہے ” امی کے ہاں میں سر ہلانے پہ میں خوش ہو گیا ۔میں سمجھتا تھا کہ یہ علاقہ صرف لاہور کا ہے ۔

Loading

Read Previous

چھوٹی سی زندگی

Read Next

عبداللہ – دوسری اور آخری قسط

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!