عبداللہ – قسط نمبر ۰۱


اگلے دن مجھے اسی پرانے گھر میں بھیج دیا گیا تھا ۔ بیگم شاہ جہاں اور باقی عملہ اپنی ڈیوٹی پر تھا مگر پولیس دو ہفتے تک آتی رہی ۔ اس واقعہ کے بعد بیگم شاہ جہاں مجھے بہت پیار کرنے لگی تھیں حالانکہ میری وجہ سے انہیں کیا کچھ نہ سہنا پڑ رہا تھا ۔ ان کی برسوں کی بنی ساکھ خراب ہوئی، ان کی نیک نامی پہ بڑا سا سوالیہ نشان لگ گیا۔ ان پہ ایک نہیں کئی کئی الزام لگانے لگے تھے لوگ۔ پولیس تو پولیس ، میڈیا والے بھی تفتیشی افسر بنے بیٹھے تھے ۔
ان پہ بڑا الزام یہ تھا کہ وہ بچوں کو یونہی کسی کے بھی سپرد کر دیتی ہیں ، کچھ لو گ بچوں کو یوں تو گود لیتے ہیں مگر پھر گھر میں نوکر بنا کر رکھتے ہیں ۔
ایک صحافی نے یہ الزام بھی لگایا کہ اس یتیم خانے سے بچے غلط کام کے لیے سپلائی کیے جاتے ہیں ۔ مجھے معلوم ہے ایسا الزام سر دانش کی وجہ سے لگ رہا تھا ۔ دانش سر دو سال پہلے یہاں اکاؤنٹنٹ تھا۔ ایک دفعہ اس نے اسی گھر کی ایک بچی کے ساتھ کچھ غلط کرنے کی کوشش کی تھی۔ بچی روتی ہوئی بیگم شاہ جہاں کے پا س گئی تو انہوں نے نہ صرف دانش سر کو نوکری سے نکال دیا تھا بلکہ پولیس کے حواے بھی کر دیا تھا ۔ پولیس نے تو اسے اسی شام چھوڑ دیا تھا مگر اس کے بعد وہ اس گھر اور بیگم شاہجہاں کے بارے میں غلط غلط باتیں پھیلانے لگا تھا ۔ٹھیک ہے میں نے ٹی وی میں دیکھا تھا ایسے بھی یتیم گھر ہیں ،جہاں غلط کام ہوتے ہیں ۔ ان کو ڈونیشن بھی زیادہ ملتے ہیں وہاں بڑی بڑی رقمیں دینے والے کئی گندے لوگ بھی ہوتے ہیں، جو دنیا کو دکھاتے ہیں کہ ہم بڑے نیک لوگ ہیں ۔ بڑی بڑی رقم کے چیک دیتے ہوئے تصویریں بنواتے ہیں مگر ان کے نیتیں خراب ہوتی ہیں ۔ بعد میں وہ معصوم بچوں کو غلط کام کے لیے کبھی فائیو اسٹار ہوٹل میں بلواتے ہیں تو کبھی کسی گیسٹ ہاؤس میں ۔ میں بھی اب بارہ سال کا ہونے والا تھا ، صرف کہانیاں نہیں پڑھتا تھا ۔ اخبار پڑھتا اورٹی وی بھی دیکھتا تھا۔ مجھے بھی بہت سی باتیں سمجھ آنے لگی تھیں ۔ ہوتے تھے دنیا میں ایسے غلیط کام بھی مگر ہمیشہ ،ہر جگہ تو ایسا نہیں ہوتا ناں ۔میں حلفیہ کہتا ہوں کہ بیگم شاہ جہاں کے گھر میں ایسا کچھ نہیں ہوتا تھا ۔
ان پہ یہ الزام بھی لگایا گیا کہ عطیات کی رقم میں خرد برد کرتی ہیں ۔
جس عورت نے ایسا گھر چلانا ہو جہاں کبھی پینتیس کبھی چالیس کبھی تیس بچے ہوں ۔ تین وقت کا کھانا ، لباس ، تعلیمی اخراجات ، دوا ، عملے کی تنخواہیں اور بھی کئی ضروریات پوری کرنی ہوں وہاں پیسہ کب آیا اور کب خرچ ہوا ، پتا چلتاہے بھلا ۔ نیک نیت اور ایمان دار فلاحی اداروں کے زیادہ عطیات ملتے بھی نہیں ہیں ۔ گندے لوگوں کی فرمائشیں جو پوری نہیں ہوتیں ۔الزام تراشی کرنے والے منہ کھول کر جو منہ میں آئے،بول دیتے ہیں ۔ ہر ایک کو کرپٹ سمجھ لیتے ہیں ۔ احتساب کرنا ہے تو حکمرانوں سے کرو جو پورے ملک کی دولت سے صرف اپنے چند بچے پالتے ہیں ۔
میں مانتا ہوں کئی یتیم خانے اور فلاحی ادارے ایسے ہیں جہاں عطیہ کی رقم کو اپنا مال سمجھ کر ہڑپ کیا جاتا ہے ، امانت میں خیانت کی جاتی ہے، جس کی آڑ میں اور بھی بہت سے غیر قانونی کام ہوتے ہیں۔ اس اندھیر نگری میں اچھائی کا دیا بے شک ٹمٹماتا ہو ،بجھا تو نہیں ہے ناں۔ عبدالستار ایدھی جیسے روشن ستارے بھی تو اسی دنیا کے باسی ہیں ناں ۔



بیگم شاہ جہاں بھی ایک روشن دیا تھیں ۔ وہ خائن نہ تھیں ۔ اس بیوہ عورت نے اپنی پوری زندگی، اپنا گھر، اپنی زمینوں سے آنے والی آمدن بھی ان یتیم، لاوارث بچوں کو دے دی اور صلہ کیا ملا ۔ میں دکھی تھا مگر انہی دنوں میں نے صحیح بخاری کی ایک حدیث پڑھی۔
سہیل بن سعد بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ۖ نے فرمایا ۔
”میں اور یتیم کی نگرانی کرنے والے جنت میں اس طرح (قریب ) ہوں گے ۔”اور آپ نے سبابہ اوردرمیانی انگلی سے اشارہ کرتے ہوئے اس کی نزدیکی بتائی۔
مجھے اطمینان ہوا کہ یتیم کی سرپرستی کرنے والا اس دنیا میں اجر پائے نہ پائے ، آخرت میں ضرور پائے گا ۔
اور پھر یوں ہوا کہ سُرخ آنکھوں والے چاچا نے خوب مار کھانے کے بعد منہ کھول دیا تھا ۔ اس نے میرا سودا گیارہ ہزار میں کیا تھا اور آج سے چار سال پہلے دو بچوں کو محض پانچ ہزار میں بیچ چکا تھا۔ اس کا کال صرف انفارمیشن دینا تھا باقی کا کام مثلاً جھوٹی کہانی کو سچ ثابت کرنے کے لیے پورا سیٹ اپ تیار کرنا ، بہروپ بھرنا، جعلی ڈیٹا پہ پاسپورٹ بنوانا انسانی سوداگروں کا گینگ خود کر لیتا تھا ۔
اللہ نے اس دنیا میں بھی بیگم شاہ جہاں کو اجر دیا ۔ وہ سب الزاموں سے با عزت بری ہو گئی تھیں مگر انہیں سکون نہ ملتا تھا ۔ وہ ان دو بچوں کے بارے میں جاننا چاہتی تھیں جن کو بظاہر ایڈاپٹ کیا گیا تھا مگر اس گھر سے نکل کروہ باہر اسمگل ہو گئے تھے ۔
تین مہینے کی دوڑ دھوپ کے بعد انہیں معلوم ہوا تھا کہ ان معصوم بچوں کو عربوں کی تفریح کی نذر کر دیا گیا تھا ۔ انہیں اونٹوں کی ریس میں camel jockeysبنایا گیا تھا ۔ میں اس کھیل کے بارے میں پہلے بھی پڑھ چکا تھا ۔ اونٹوں کی ریس میں بچے بہتر کیمل جاکی بن سکتے ہیں کیوںکہ ایک تو ان کا وزن کم ہوتا ہے پھر ان پر خرچ بھی کم کرنا پڑتا ہے ۔ انہیں ٹریننگ دی جاتی ہے پانچ سال سے کم عمر بچے کو تو ٹریننگ دینے کی ضرورت بھی نہیں پڑتی ، اس کا ڈر کے رونا اور چلانا ہی کافی ہوتا ہے ۔ ریس شروع ہونے سے پہلے بچے کو اونٹ کی کمر پہ باندھ دیا جاتا ہے۔جب ریس شروع ہوتی ہے تو بچے گھبرا جاتے ہیں اور ڈر کر رونے لگتے ہیں ، چلانے لگتے ہیں ۔ ان کے رونے اور چلانے سے اونٹ گھبراجاتے ہیں اورمزید تیز بھاگنے لگتے ہیں ۔ بہت چھوٹے بچوں کا جسم یہ جھٹکے سہہ نہیں سکتا ، کئی بچے اس دوران گر جاتے ہیں کئی ریس ٹریک پر اونٹوں کی بھگڈر میں کچلے جاتے ہیں اور یوںکئی کلو میٹر کی یہ ریس جب ختم ہوتی ہے تو کئی بچے جان کی بازی ہار چکے ہوتے ہیں یا پھر ذہنی یا جسمانی طور پرعمر بھر کے لیے معذور ہو جاتے ہیں ۔ بنگلہ دیش ، انڈیا ، اور سوڈان کی طرح پاکستان سے بھی ہر سال بہت سارے بچے ماں باپ کو لالچ دے کریا اغوا کر کے یو اے ای بھیجے جاتے ہیں ۔اور پھر وہ کبھی نہیں لوٹتے ۔ اب تو سنا ہے کہ ہیومن رائٹس کی تنظیموں کے اٹھ کھڑے ہونے کے بعد پندرہ سال سے کم عمر بچے کو کیمل جاکی بنانے پہ پابندی لگ گئی ہے ۔ مگر وہ دو بچے تو قاتل کھیل کی نذر ہو گئے ناں ۔ اس دن بیگم شاہجہاں کو میں نے پہلی بار بلک بلک کر روتے دیکھا۔
٭٭٭٭٭

Loading

Read Previous

چھوٹی سی زندگی

Read Next

عبداللہ – دوسری اور آخری قسط

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!