عبداللہ – قسط نمبر ۰۱

”ویسے پھپھو پہ تو کبھی غور نہیں کیا ، آپ بہت اچھی لگ رہی ہیں ۔”
خاقان احسن نے آج اس کو کیا کہا؟ کیسے کیسے مذاق بنایا ، سب بھول گیا ۔ یاد رہا تو یہ آخر ی جملہ ۔
اس کے لب مُسکرا اُٹھے تھے ۔
ڈرائیونگ سیٹ پہ بیٹھے بندے نے اس کی مسکراہٹ نوٹس کی تھی۔ وہ اس وقت اچھے موڈ میں تھی ،اس لئے اسے آج کہہ دینا چاہیے سب ۔ پھر موقع ملے نہ ملے ۔
” وہ ۔۔۔وہ ۔” اس کے سامنے منہ کھولتے ہی اس کی زبان لڑکھڑانے لگتی تھی۔
”تم۔۔۔ڈرائیور کہاں ہے ؟”اپنی دھن میں ، اپنے دھیان میں اس نے اپنی گاڑ ی میں بیٹھتے ہوئے غور ہی نہ کیا تھا کہ ڈرائیور کی جگہ وہ بیٹھا ہے ۔
”اس کی۔۔ اس کی طب۔۔۔ طبیعت ٹھیک نہیں ۔”
”ہوں۔” وہ ہنکارا بھرتے ہوئے کھڑکی سے باہر دیکھنے لگی۔
”بات ۔۔۔بات کرنی آ۔۔۔آ۔۔۔آپ سے۔”
”بعد میں کرنا۔”اس نے رکھائی سے کہتے ہوئے سرسیٹ کی پشت کے ساتھ ٹکا دیا ۔
”مہنگائی ہوگئی ہے ، گزارا نہیں ہوتا ، تنخواہ بڑھا دیں ۔”
”باپ بیمار ہے ، علاج کے لیے کچھ مدد کر دیں ۔”
”بچہ چار سال کا ہو گیا ہے ، داخلہ کروانا ہے۔ داخلہ فیس دے دیں تو بڑی مہربانی ہو گی۔”
اس وقت وہ اس قسم کے کوئی جملے سننے کے موڈ میں نہ تھی۔ اس وقت تو وہ صرف اس سرگوشی کی بازگشت سننا چاہتی تھی۔
”ویسے پھپھو پہ تو کبھی غور نہیں کیا ، آپ بہت اچھی لگ رہی ہیں ۔”
٭٭٭٭٭



کافی دن بعد موسم خوش گوار ہوا تھا۔ سر مئی بادل اور ٹھنڈی ہو ا موڈ پہ بڑا اچھا اثر کر رہے تھے ۔ آمنہ فرمان آج پیدل چلتے ہوئے خود کو بہت ہلکا پھلکا سا محسوس کر رہی تھی۔ آج ماں سے بھی تو مل کر آرہی تھی ناں ۔ خود بہ خود مسکرانے کی وجہ یہ بھی بنتی تھی۔
عبداللہ نے اس مسکراتی ہوئی لڑکی کو دیکھا جوہمیشہ خود سے بھی خفا خفا لگتی تھی اور بائیک اس کے قریب روکی تھی۔
”پیدل کیوں جا رہی ہیں ۔” سلام کے بعد اس نے پوچھا ۔
”رکشہ نہیں ملا تو پیدل نکل آئی ۔وہ اگلے موڑ سے مل جائے گا ۔” اس نے اشارہ کرتے ہوئے امید ظاہر کی ۔
”میں آپ کو گھر چھوڑ سکتا ہوں ۔” اندھیراپھیل رہا تھا ، اس وقت اس کا یوں تنہا اتنی دور رکشہ پہ جانا اس کے لیے تشویش کا باعث ہوا۔
”پھر میرے چچا تایا مجھے نہیں چھوڑیں گے ۔” بے ساختہ اس کے منہ سے نکلا ۔وہ مسکرا دیا ۔
آمنہ نے دیکھا ،وہ مسکراتا ہوا بہت اچھا لگتا تھا ۔
اس نے بائیک ایک طرف کھڑی کر کے اس کے ساتھ چلنا شروع کر دیا ۔ آمنہ کی مسکراہٹ میں اضافہ ہوا تھا ، جسے اس نے چہرہ دوسری طرف کر کے چھپانا چاہا ۔
”سنا ہے آپ بہت کم بولتے ہیں ۔” دونوں کافی دور تک ساتھ ساتھ چپ چاپ چلتے رہے ۔ پھر آمنہ نے اس چپ کو توڑا ۔
”میں نے سنا نہیں دیکھا ہے ، آپ کم بولتی ہیں ،صرف بڑبڑاتی ہیں ۔”وہ ہنس دی تھی۔
”آپ کم بولتے ہیں ، مگر جب بولتے ہیں توخوب بولتے ہیں ۔” وہ اس تبصرے پہ مسکرا دیا تھا ۔
”آج موسم اچھا ہے ۔” بیچ میں آنے والی چپ کے بعد پھر آمنہ ہی بولی ۔
”ہاں ۔۔۔بہت اچھا ہے ۔” اس نے تائید کی تھی۔
”گھر جا کر پکوڑے بناؤں گی۔”
عبداللہ نے کوئی تبصرہ نہ کیا ۔
”لگتا ہے یہ بندہ کرایے پہ لفظ لیتا ہے ۔ اس لیے سوچ سمجھ کر بلکہ کنجوسی سے خرچ کرتا ہے ۔یا شاید بولنے کا بھی اسے بل آتا ہے ۔جتنے یونٹ استعمال ہوں گے ، اتنا پے کرنا پڑے گا ۔” آمنہ بڑبڑائی ۔
دراصل اس وقت آمنہ فرمان کے دل کا موسم بہت اچھا ہو رہا تھا۔ باوجود اس کے کہ ایڑی والے جوتے نے تنگ کرنا شروع کر دیا تھا ، وہ بہت فریش فیل کر رہی تھی۔ اس وقت وہ نہ صرف بہت ساری باتیں کرنا چاہ رہی تھی بلکہ گانا اور جھومنا بھی چاہ رہی تھی۔اب کتنی باتیں اکیلی کر لیتی ، اس لیے گنگنانا شروع کر دیا ۔
”سہانا سفر اور یہ موسم حسیں ۔۔۔ہمیں ڈر ہے ہم کھو نہ جائیں کہیں ۔”
ابھی گنگنانا شروع ہی کیا تھا کہ سہانا سفر اختتام پذیر ہوا، سامنے سے رکشہ آ رہا تھا ۔ عبداللہ نے جسے ہاتھ دے کر روک لیا ۔
آمنہ کو رکشے والا شفقت چیمہ کی طرح کا کوئی ولن لگا ۔
”اکیلی چلی جائیں گی ناں ۔ یا میں چھوڑ آؤں ؟”
”میں چلی جاؤں گی۔”
اصل شفقت چیمہ اور شکتی کپور جیسے ولن تو تایا ، چاچا کی صورت گھر کے آس پاس رہتے تھے ،اس لیے مرے مرے انداز میں اسے منع کر کے رکشہ میں بیٹھ گئی۔خوش ہونے کے لیے یہ ہی کافی تھا کہ عبداللہ کو اس کی پرواہ ہے۔
٭٭٭٭٭



پھر ایک دن مجھے بھی کوئی ایڈاپٹ کرنے آ گیا ۔ویسے تو یہاں جوبھی بے اولاد جوڑا آتا تھا ،وہ شیر خوار یا چھوٹے بچے کو لے جانا پسند کرتا تھا مگر جانے اس جوڑے کو میں کیوں پسند آ گیا تھا ۔بعد میں پتا چلا کہ وہ مرد جو میرا باپ بننے جا رہا تھا ،اس نے بیگم شاہ جہاں کو بتایا تھا کہ ان کا میرے برابر ایک بیٹا تھا جو ایک ایکسیڈنٹ میں فوت ہو گیا ۔ اس حادثے کے بعد ان کی بیوی بہت بیمار رہنے لگی ہیں ،اور آہستہ آہستہ ذہنی مریض ہوتی جا رہی ہیں ۔اس لیے وہ اس عمر کا ایک بچہ ایڈاپٹ کرنا چاہتے ہیں ۔مسز شاہجہاں مخمصے میں تھیں ،اور کوئی بھی فیصلہ لینے میں متامل بھی۔
اس کی وجہ لائبہ تھی۔ وہ بھی آٹھ سال کی تھی جب اسے کسی فیملی نے اڈاپٹ کیا تھا ۔ بیگم شاہ جہاں کسی بھی بچے کو کسی فیملی کے حوالے کرتے ہوئے ساری معلومات کرواتی تھیں اورشروع میں اچانک اس گھر میں چکر لگا کر دیکھتی تھیں کہ بچے کو کس حال میں رکھا گیا ہے ۔ لائبہ کے کیس میں ایسا ہوا تھا کہ وہ ایک دن اچانک ان کے گھر پہنچیں تو لائبہ جھاڑو دے رہی تھی اور اس کے جسم پہ تشدد کے نشانا ت تھے۔ بیگم شاہ جہاں نے اسی وقت لائبہ کو ساتھ لے کر آنا چاہا مگر اس فیملی کا دعویٰ تھا کہ اب قانونی طور پر بچی کی کسٹڈی ان کے پاس ہے ۔ وہ اسے اپنے ساتھ نہیں لے جا سکتیں ۔ بیگم شاہ جہاں نے پولیس کی دھمکی دی تو ان لوگوں نے لائبہ کو ان کے ساتھ آنے دیا ۔ سنا ہے کہ وہ میاں بیوی اس سے بہت کام کرواتے تھے ، اور چھوٹی چھوٹی بات پر مار پیٹ کرتے تھے ۔لائبہ بے چاری بہت کمزور ہو گئی تھی اور ہر وقت سہمی سہمی سی رہتی تھی۔
اس کے بعد بیگم شاہجہاں بہت محتاط ہو گئی تھیں ۔ وہ پوری طرح چھان بین کرتی تھیں کہ کہیں اس عمر کا بچہ اس مقصد کے لیے ایڈاپٹ تو نہیں کیا جارہا کہ اسے غلام بنا کر چاکری کروائی جائے ۔ میرے کیس میں جب وہ اس عورت سے ملیں جو میری امی بننے والی تھی، تو انہیں یقین آ گیا کہ میراہونے والا باپ سچ کہہ رہا تھا ۔ بیٹے کو کھو کر اس عورت کی حالت بہت خراب تھی۔ وہ میری عمر کے ہر بچے کو اپنا بیٹا سمجھ کر بھاگ کر اس کی طرف آتی ۔ اسے دیوانہ وار پیار کرنے لگتی ۔ میرے ہونے والے ابو نے حادثے کے فوٹو اور ثبوت بھی پیش کیے تھے ۔ بیگم شاہجہاں نے ان کے بارے میں معلوم کروایا تھا ،دی ہوئی معلومات ٹھیک تھیں ۔بیگم شاہ جہاں کو وہاں میرا فیوچر برائٹ لگا ۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ اب مجھے یہاں سے جانا ہوگا ۔
”نہیں میں اپنی امی کے ساتھ جاؤں گا ۔پھر ہم اپنی بہن کو نقلی والے امی ابو سے واپس لے لیں گے ۔” میں نے نفی میں سر ہلایا تھا ۔ ابو کو تو میں نے دیکھا نہیں تھا ،اس لیے ان کے بارے میں کوئی خاکہ بنتا نہ تھا ۔ برقعے والی امی جنہوں نے بہت سارا میک اپ کر رکھا تھا ،وہ تو اکثر میرے خیالوں میں آتی تھیں ۔
” وہ کبھی تمہیں لینے نہیں آئیں گی”
”کیوں ؟” میں نے ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کو پوچھا۔
”کیوں کہ وہ زندہ نہیں ہیں ، اگر زندہ بھی ہوتیں تو تمہیں کبھی لینے نہ آتیں ۔کیوں کہ وہ تمہاری امی نہیں تھیں ۔”
میں ششدر سا بیٹھا رہ گیا ۔ا س دن بیگم شاہ جہاں کچھ زیادہ ہی سچ بول رہی تھیں یا شاید انہیں لگا کہ اب میں اتنا بڑا ہو گیا ہوں کہ سچ سن سکوں اور سمجھ سکوں ۔ انہوں نے ایک فائل کھول کر میرے سامنے رکھی تھی۔اس فائل میں ایک خط تھا ۔
میرے پیارے بیٹے !
جب تم اس خط کو پڑھنے کے قابل ہو گے ،اس وقت تک شاید میں اس دنیا میں نہ رہوں ۔ محنت مزدوری کے باوجود تمہاری ماں کو فاقوں سے بچا نہ سکا ۔ کبھی کام ملتا کبھی ہفتہ ہفتہ بھر نہیں ۔ تم آسیہ کے پیٹ میں پل رہے تھے اور وہ دو دو دن بھوکی رہتی تھی۔ وہ اتنی کمزور ہو گئی کہ تمہاری پیدائش کے بعد چل بسی۔ میں تمہیں یہاں چھوڑ کر جا رہا ہوں جہاں تمہیں کم سے کم فاقہ تو نہ کرنا پڑے گا ۔ بھیک تو نہ مانگنی پڑے گی۔
تمہارا کمزور باپ
محمد یامین
خط کے ساتھ اگلی تاریخ کی اخبا ر کا ایک ٹکڑا فائل میں لگا ہوا تھا ۔



حالات سے تنگ آ کر محمد نگر کے رہائشی محمد یامین نے نہر میں کود کے جان دے دی۔
تفصیلات پڑھنے کی مجھ میں ہمت نہ تھی ۔ جانے کیوں اس وقت مجھے بہت پہلے نونہال میں پڑھا ہوا حضرت عمر کا قول یاد آگیا ۔ جس کا مفہوم کچھ ایسے تھا ۔
”اگر فرات ندی کے کنارے کتا بھی پیاسا مر گیا تو قیامت کے دن عمر سے اس بارے میں جواب دہی ہو گی۔”
مجھے سوچنے کی بُری عادت ہے اس لیے اُس وقت میں نے سوچا تھا کہ میرے باپ کی موت کا جواب حکمران دیں گے یا خودکشی کی سزا اس اکیلے کو ملے گی۔
”وہ مجھے میری بہن سے ملوائیں گے ۔” صدمے سے باہر آیا تو پوچھا۔ بھلے ہمارے امی ابو الگ تھے ، اب ا س سے میرا خونی کا رشتہ ختم ہوا، دل کا رشتہ تو سلامت تھا ناں ۔ میں نے بیگم شاہ جہاں سے آخری سوال پوچھا تھا مگر بتایا ناں کہ اس دن وہ کچھ زیادہ ہی سچ بول رہی تھیں۔
”پتہ نہیں ۔” انہوں نے نگاہیں پردے پہ بیٹھی مکھی پہ گاڑ دی تھیں ۔
میں نے خاموشی سے اپنا بیگ تیار کر لیا تھا ۔کیوں کہ مجھے پتا چل گیا تھا کہ مجھے لینے اب میرے اپنے امی ابو کبھی نہیں آئیں گے ۔بیگم شاہ جہاں اداس سی لگ رہی تھیں ۔ انہوں نے مجھے ایک شرٹ اور اُس سال کی ڈائری دی تھی۔ ڈائری تو انہوں نے مجھے پچھلے سال بھی دی تھی جب میری اردو کی مس نے ان کو میری کاپی دکھائی تھی ،اس کاپی کے آخری صفحات پہ میں اپنے دل کا حال لکھا کرتا تھا ۔ انہوں نے ڈائری دیتے ہوئے کہا تھا کہ اب میں یہ ساری باتیں اس پہ لکھ لیا کروں ۔
اس گھر سے نکلتے ہوئے میں وہ پرچی لینا نہ بھولا تھا جس پہ میری بہن کا پتا لکھا ہوا تھا ۔ بیگم شاہ جہاں نا امید تھیں ، میں تو نہیں تھا ناں ۔
٭٪٭٪٭٪٭٪٭

Loading

Read Previous

چھوٹی سی زندگی

Read Next

عبداللہ – دوسری اور آخری قسط

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!