عبداللہ – قسط نمبر ۰۱


بیگم شاہجہا ں تک بات پہنچی تو انہوں نے مجھے سمجھایا کہ چھوٹے بچے روٹی کے سخت اور بڑے نوالے نگل بھی لیں تو ہضم نہیں کر پاتے ۔اس کے بعد میں نے بہن کو بالکل چھوٹے چھوٹے پیس کر کے کھلانے شروع کیے ۔ اب وہ کھا لیتی تھی ۔ بھوک اور پیٹ کا مسئلہ بھی نہیں ہوتا تھا ۔ مگر دوسرے مسئلے پیدا ہونے لگے تھے ۔ میرے ٹیچرز کو مجھ سے شکایتیں پیدا ہونے لگی تھیں کہ میں اکثر کلا س سے غیر حاضر رہتا ہوں ۔ اگر کلاس میں موجود بھی ہوتا ہوں تو دھیان کسی اور طرف ہوتا ہے ۔میں ان کو کس طرح سمجھاتا کہ پڑھائی سے ضروری میری بہن ہے ۔ وہ جاگتی ہے تو مجھے نہ پا کر روتی ہے ۔ فیڈر بھی پرے پھینک دیتی ہے ۔پھر آیا اسے مارتی ہے ۔یہ مجھ سے برداشت نہیں ہوتا ۔ اس لیے جب اس کے جاگنے کا وقت ہوتا ، میں چپکے سے کھسک جاتا ۔ یہ بھی شکر ہے کہ اسکول گھر ہی کے ایک حصے میں دو کمروں پہ مشتمل تھا ۔
وہ سوتی بھی میرے کندھے سے لگ کر تھی۔ اس گھر میں لڑکے اور لڑکیوں کے کمرے الگ الگ اور عمر کے حساب سے سیٹ تھے ۔میرا پلنگ چھ سے دس سال والے لڑکوں والے کمرے میں تھا ۔ بہن کو سلا کر اس کے کاٹ میں لٹا دینے کے بعد میں اپنے کمرے میں آجاتا مگر میرا دھیان بہن کی طرف لگا رہتا ۔
کہیں وہ رات میں جاگ نہ جائے ، کہیں وہ مجھے نہ پا کر رونے نہ لگے ۔ اس کا حل میں نے یہ کیا کہ میں اس کے کمرے کے دروازے کے باہر گدا ڈال کر سونے لگا ۔ پہلے تو آیا نے مجھے ڈانٹا مگر پھر اسے محسوس ہوا کہ اس میں اسی کا فائدہ ہے ۔ ایک بچی کو سنبھالنے سے تو فرصت ملی۔
میری بہن کو میرے پاس آئے ہوئے تین مہینے چھ دن ہوئے تھے جب وہ چلنے لگی تھی۔وہ پہلا قدم اٹھا کر میری طرف ہی آئی تھی۔ میری خوشی کی انتہا نہ تھی ۔آج بھی وہ منظر نگاہ کے سامنے آتا ہے تو میری آنکھیں بھیگ جاتی ہیں ۔
وہ چلنے لگی تھی تو میرے کام بھی بڑھ گئے تھے ۔وہ چیزوں کو چھیڑنے لگی تھی۔وہ ادھر ادھر غائب ہونے لگی تھی۔مجھے اس پہ بہت دھیان رکھنا پڑتا تھا ورنہ بچے اسے مار بھی دیتے تھے کیونکہ وہ ان کی چیزوں کو جا چھیڑتی تھی۔ میں اس کا سایہ بن گیا تھا ۔دن کتنے ہی سخت کیوں نہ تھے ، تھکا دینے والے کیوں نہ تھے۔ میں خوش تھا ۔ میرے پاس ایک رشتہ تھا ۔میرے پاس بہن تھی ۔
٭٭٭٭٭
آمنہ فرمان ایک ایسی یتیم تھی جس کے ماں باپ دونوں حیات تھے ،اسی دنیا میں چلتے پھرتے تھے مگر اس نے زندگی ان دونوں کے بغیر گزاری ۔ چاچا تایا ،چاچی تائی، محلے کی نورین باجی اور اشفاق بھائی کو دیکھ کر پتہ چلتا تھا کہ ماں باپ کا ہاتھ جلتی دھوپ میں ٹھنڈا سایہ ہے ، ماں باپ کا سینہ روتے تڑپتے ، بگڑے سنورے ہر بچے کے لیے شیلٹر ہے ۔ ماں باپ کا ساتھ محافظ ہے، ماں باپ کی مسکراہٹ سب سے بڑی سپورٹ ہے ۔ اس کے لیے تو ماں باپ احساس ندامت تھے ، احساس محرومی تھی۔ کہتے ہیں کہ مرے ہوئے کو صبر آجاتا ہے ، مگر جو زندہ ہو ں ، ان کا کیا کریں ۔
چاچی تائی اس کے منہ پر اس کی ماں کے کرتوت بتاتیں ، اس کے تایا آتے جاتے اس کے باپ کا ذکر گالیوں کے ساتھ کرتے ،وہ سر جھکا کر خاموشی کے ساتھ سنتی ۔اس کے علاوہ کر بھی کیا سکتی تھی۔ لیکن اسے برا بہت لگتا تھا ۔
اس کے والدین نے کبھی ماں باپ ہونے کا فرض ادانہیں کیا مگر حیرت کی بات ہے کہ عبداللہ اسے لینے آیا اور وہ اس کے ساتھ ایک اجنبی کے ساتھ ماں کو دیکھنے چل پڑی۔
دراصل ماں باپ کی کمیوں کوتاہیوں کے باوجود وہ کبھی ان سے نفرت نہ کر پائی تھی۔ ابا آتے تو بجائے منہ موڑنے کے وہ انہیں دیکھتی چلی جاتی۔
”کتنے کمزور ہو گئے ہیں ابا۔”
”سر کے بال اور ڈاڑھی بالکل سفید ہو گئی ہے ۔ تایا سے بھی زیادہ بوڑھے لگنے لگے ہیں ۔”
اسے ابا کی صحت کی فکر ستانے لگتی ۔جلدی جلدی نورین باجی کے بیٹے کو بلا کر مرغی منگواتی ، بھون کر ان کے آگے رکھتی ۔
” بہت دن بعد گھر کا کھانا کھائیں گے ناں ۔ اچھا پکا ہونا چاہیے ۔”
اسے اپنے باپ سے محبت تھی، ماں سے بھی ہو گئی۔ یا شاید محبت اس کی فطرت تھی۔ وہ کسی سے نفرت کر ہی نہ سکتی تھی۔
پچھلے سال تائی بیمار پڑیں توانہیں دیکھنے گئی ۔ بے چاری اکیلی پڑی ہوئی تھیں ۔ بڑی بیٹی ندرت کی شادی کر چکی تھیں ۔ چھوٹی بیٹی نزہت یونیورسٹی سے سیدھی اکیڈمی چلی جاتی ، صبح کی گھر سے نکلی ہوئی آٹھ بجے واپس آتی تو واپس آ کر کسی اسائنمنٹ کسی ٹیسٹ کسی پیپر کی تیاری میں لگ جاتی ۔ بے چاری اتنی فارغ تھوڑی تھی کہ ماں کی تیمار داری کر سکتی ۔ اور لڑکے اچھے لگتے ہیں بھلا عورتوںوالے کام کرتے ہوئے۔ تائی نے دو دو لڑکے اس لیے تھوڑی پیدا کیے تھے ۔ آمنہ نے ہی دو ہفتے ان کی خدمت کی ۔ تائی متاثر ہو گئیں ۔



”بے چاری ، ماں باپ ہیں پر نہ ہونے جیسے ، ہم نہ پوچھیں گے تو کون پوچھے گا ۔”
تائی نے جوش جذبات میں بہو بنانے کے فیصلہ کر لیا ۔ مگر یہ تو سال پرانا بیماری کے دنوں میں کیا گیا جذباتی فیصلہ تھا ۔ اب تو تائی ماشاء اللہ بھلی چنگی تھیں ۔
تائی کی تیمارداری کی تو چچی کی خدمت بھی تو فرض تھی ناں ۔ اب ہر اتوارمشین لگاتے ہی چچی کے سر میں درد اٹھنے لگا تھا ۔ رافع کو بھیجتیں کہ باجی کوبلا لاؤ ۔ اس دن دوپہر کا کھانا بنا کر اور ہفتہ بھر کے کپڑے دھو کر واپس آتی تو دادی بیچاری گرتے پڑتے خود ہی کچھ نہ کچھ پکا چکی ہوتیں ۔
”چچی نے کون سا مجھے تمغہ ء حسن کارکردگی دے دینا ہے ۔ آئندہ دادی کو چھوڑ کر نہیں جانا ۔ ” وہ سوچتی مگر صرف سوچتی ۔ بغیر کسی تمغے کے خدمتیں کرتی جاتی ۔ ایسا نہ تھا کہ اسے لوگوں کی چالاکیاں سمجھ نہ آتی تھیں ۔ اسے سب سمجھ آتا تھا ، ان خود غرضیوں پہ کڑھتی بھی تھی ، بڑبڑاتی بھی تھی مگر ان کی طرح کٹھور نہ بن سکتی تھی۔
٭٭٭٭٭
ڈیک پر مہندی کے گانے چل رہے تھے ، چھوٹی چھوٹی بچیاں زرق برق ملبوسات میں ننھے ماتھوں پہ ٹیکا لگائے ڈانس کرنے کی کوشش کر رہی تھیں ،ساتھ ساتھ اپنے چھوٹے چھوٹے دوپٹے بھی سنبھال رہی تھیں ۔خاقان احسن کو وہ منظر اتنا بھایا کہ وہ ان کی تصاویر لینے لگا تھا جب ہلچل سی مچی تھی۔ دلہن آ رہی تھی ۔ اس نے مڑ کر دیکھا اور پھر نظریں پھیر نہ پایا ۔
پیلے جوڑے میں ملبوس نوین نے گھونگٹ نکا ل کھا تھا ، اور اسے دونوں بہنیں ، بیسٹ فرینڈ او ر اکلوتا بھائی ست رنگی کامدار دوپٹے کی چھاؤں میں اسٹیج کی طرف لا رہے تھے ۔خاقان ان سب کو نہ دیکھ رہا تھا ، اس کی نگاہوں کا مرکز دلہن کی عزیز از جان دوست تھی ۔وہ پہلی بار اسے اس روپ میں دیکھ رہا تھا ۔وہ زیادہ تر جینز شرٹ پہنتی تھی اگرکبھی مشرقی لباس پہنتی تو اس اسٹائل میں کہ مخصوص روایتی پن نہ رہتا ۔ اونچی قمیص کے ساتھ ٹخنوں سے اوپر اوپر رہنے والی سگریٹ پینٹ ۔ دوپٹہ گلے میں بھی ڈالنے کا تردد وہ کبھی نہ کرتی تھی۔ آج تو ناصرف تین گز کادوپٹہ لیا ہوا تھا بلکہ اس کے کناروں پہ چوڑی دھنک بھی لگی ہوئی تھی۔ گوٹے والی گھیردار شلوار کے ساتھ اونچی گول دامن والی قمیص میں وہ دل میں اتر جانے کی انتہا تک حسین لگ رہی تھی۔
خاقان کو پہلے ہی خطرے کی بُو آنے لگی تھی اور آج تو احساس ہو گیا کہ اس آگ میں کودنا ہی پڑے گا ۔
وہ مُسکرا دیا تھا ۔ آتش عشق کی تاثیر ہی ایسی ہے ۔
آئمہ کی نظر اس پہ پڑی تھی، جو محویت کے ساتھ اسے ہی تک رہا تھا ۔ اس نے اپنی چوڑیوں کے ساتھ کھیلنا شروع کر دیا تھا ۔ دُلہا اپنی بہنوں کے جُھرمٹ میں اسٹیج پہ آیا تو وہ اتر کر نیچے چلی آئی۔ تین گز کا دوپٹہ سنبھالنا خاصا مشکل لگ رہا تھا اسے ۔ایک دفعہ تو پاؤں میں آگیا ، گرتے گرتے بچی ۔ابھی بھی اسٹیج سے اتر کر ایک کونے میں جا کر وہ دوپٹے کو سیٹ کرنے لگی تھی۔
”او ماریہ ۔۔۔او ماریہ۔۔۔” وہ ہلکا سا گنگناتے ہوئے اس کے پاس آکھڑا ہوا۔
”میں ماریہ نہیں ہوں ۔”



”اوسوری ۔۔۔ یور ہائی نیس ۔۔۔آپ تو آئمہ جہانگیر ہیں ۔۔۔ویسے ایسے کپڑے میری رشتے کی ایک پھوپھو ہر شادی پہ پہنتی ہیں۔”
”یہ ڈیزائنر وئیر ہے ۔” اس نے جل کر مطلع کیا ۔
”جی ان کے کپڑے بھی ڈیزائنر وئیر ہی ہوتے ہیں ۔ ڈیزائنر ان کے محلے کی درزن ہے ۔”
”میں نے تو سُنا ہے آپ کا تعلق بڑے ادبی گھرانے سے ہے ۔” وہ تلملا کر اس کی طرف پوری مڑی۔
”ذرہ نوازی ہے ۔” وہ جھک کر کورنش بجا لایا ۔
”پھر آپ کس پہ چلے گئے ؟”
”ہر گھر میں ایک بگڑا نواب ہوتا ہے ۔ یہ چیز نا چیز وہی ہے ۔”
ہنکارا بھرتی ہوئی وہ اپنی پرانی کلاس فیلوز کی طرف بڑھ گئی تھی لیکن خاقان احسن نے پورے فنکشن میں پیچھا نہ چھوڑا تھا ۔
”جیولر کی اولاد ہونے کا بھی بڑا فائدہ ہے ، جو جی چاہا جتنا جی چاہا ، سونا پہنا ، ہیرے پہنے ۔ پھر شوکیس میں لے جا کر سجا دیئے ۔”
پیروں کی انگلیوں میں بھی رنگز دیکھ کر وہ کہے بنا رہ نہ سکا ۔ ویسے سچی بات یہ تھی کہ اس کے پیروں سے ہی نگاہ ہٹتی نہ تھی پھر چہرے پہ اگر جم جائے تو قصور کیا ۔
”یار انجینئرنگ میں کوئی چارم نہیں رہا ۔میں سوچتا ہوں کہ میں بھی ڈیزائنر بن جاؤں ۔ ٹیلرز کے پا س بچ جانے والے ٹوٹے (ٹکڑے ) ہول سیل میں خرید کر بوری میں بھر کر لے آیا کروں اور ان کو جوڑ جاڑ کر ڈیزائنر وئیر تیار کر کے ہزاوں میں بیچا کروں ۔ بڑا ہی پرافٹ ایبل بزنس ہے ۔” وہ پاس سے گزری تو رگ شرارت پھر پھڑکی ۔
اس نے شاکی نظروں سے اسے دیکھا ۔ سب نے اس کی اتنی تعریف کی تھی اور یہ بندہ ۔۔۔
”بندے کو اللہ نے نوازا ہو تو نظر بھی آنا چاہیے ۔ اتنا کنجوس بھی نہیں ہونا چاہیے کہ ایک ہی جینزشرٹ پہ گزارا کیا جائے۔”
اس نے تلملا کر طعنہ دیا کیوںکہ اس نے آج بھی وہی جینز شرٹ پہن رکھی تھی جو اس کے ایکسیڈنٹ والے دن پہنی ہوئی تھی۔
”اتنا غور سے دیکھتی ہیں مجھے ؟ ” وہ شرمندہ ہونے والوں میں سے کب تھا ۔
آئمہ کا چہرہ سرخ ہوا ۔ اس کے بعد اس نے بھی پورے فنکشن میں خود کو لاتعلق ، اور بے نیاز سا ظاہر کیا۔واپسی کے لیے کافی رات ہو گئی تھی ،اس لیے ڈیڈی نے اس کو خود ڈرائیو کرنے اور اکیلے آنے سے منع کیا تھا ۔انہوں نے ڈرائیور کو بھیجا تھا ۔نوین سے مل کر ، سب کو اللہ حافظ کہہ کر باہر آ کر گاڑی کی تلاش میں نظر دوڑا رہی تھی توخاقان باہر ہی کھڑا موبائل پہ جانے کس کے ساتھ بات کر رہا تھا ۔اس نے بے پروائی ظاہر کرتے ہوئے آگے قدم بڑھانے چاہے دھنک سے سجا دوپٹہ ایک طرف سے اس کی اونچی ایڑی تلے آ گیا ۔ وہ گرنے لگی تھی۔



ڈرائیونگ سیٹ پہ بیٹھا بندہ بے اختیار گاڑی کا دروازہ کھول کر باہر نکلنے لگا تھا ،مگر پھر اپنی جگہ واپس بیٹھ گیا ۔ خاقان احسن نے جلدی سے آگے بڑھ کر سہارا دے کر اسے گرنے سے بچایا تھا ۔وہ سیدھی ہو کر سُرخ چہرے کے ساتھ دوپٹہ دونوں طرف سے برابر کرنے لگی تھی۔
”ویسے پھپھو پہ تو کبھی غور نہیں کیا ، آپ بہت اچھی لگ رہی ہیں ۔”
وہ اس کے کان کے پاس سر گوشی کے سے انداز میں بولا تھا ۔ آئمہ جہانگیر کا دل دھک سے رہ گیا ۔ چہرہ مزید لال ہوا ۔
ڈرائیونگ سیٹ پہ بیٹھے بندے نے سارا منظر دیکھا تھا ۔ اس کے چہرے پہ بھی سرخی آئی تھی۔
٭٭٭٭٭

Loading

Read Previous

چھوٹی سی زندگی

Read Next

عبداللہ – دوسری اور آخری قسط

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!