عبداللہ – قسط نمبر ۰۱


کیسریا بائی نے غلط جگہ انویسٹمنٹ کر دی تھی ۔ جتنا پیسہ اس نے کنگنا کی ٹریننگ پہ لگایا تھا ، پوری طرح وصول بھی نہ ہوا تھا کہ کنگنا بیمار پڑگئی۔رپورٹس آئیں توکنگنا ، کیسریا بائی ، ظفر نواز سب ہل کر رہ گئے ۔ اسے بریسٹ کینسر تھا ۔ کیسریا بائی کو تو خود ہارٹ اٹیک آ جاتا اگر بچی کی صورت میں لگایا پیسہ کئی گنا واپس ملنے کی امید نظر نہ آتی۔
کنگنا کو اس وقت اس پیشے کی سب سے اذیت ناک حقیقت سے پالا پڑا تو سمجھ آئی کہ جب عورت کسی قابل نہ رہے اور بیمار ہو کر بستر پر پڑ جائے تو یہاں پیشہ وارانہ طور پر اس کی موت واقع ہو جاتی ہے ۔ اس کا کام ختم ہوا تو اس کی قدر بھی ختم ہوئی ۔ علاج معالجے پہ پیشہ لٹانا ضائع کرنے کے مترادف سمجھاجا تا ہے خاص طور پر اس بیماری میں ۔ بچ بھی گئی تو کسی کام کی تو نہ رہی ۔ کیسریا بائی نے واری صدقے جانا اور ظفر نواز نے نچھاور ہو نا چھوڑ دیا تھا ۔
یہی تھی پھولوں سے مہکتی ، ساز بکھیرتی ان گلیوں کی بساندھ بھری حقیقت ۔ انہی گلیوں میں چھوڑ کر چلی جائے گی کیا وہ اپنی بچی کو ۔جہاں ظالموں کو صرف اس کی بچی کا جسم نظر آئے گا ۔
اس کا سر بے اختیار نفی میں ہلتا ۔
کئی بار اس کے جی میں آیا کی بچی کا گلا گھونٹ دے ۔ مگر ایسا نہ کر سکی ۔ وہ تو چھ سال سے بستر پہ پڑی مفلوج ماں کا گلا نہ گھونٹ سکی تھی پھر بھلا اپنی بچی کی جان کیسے لے لیتی۔
اس نے بچی کے باپ کواس امید پہ خط لکھا تھا کہ شاید اس کے اندر کا باپ جاگ جائے ۔ وہ انتظار کرتی رہی ،وہ نہیں آیا ۔موت تھی کہ لمحہ بہ لمحہ قریب سے قریب تر محسوس ہوتی ۔ مگر وہ نہیں آیا ۔آخر اس نے ایک فیصلہ کیا ۔ مُنا جو بچی کو سنبھالتا تھا، رازداری کے ساتھ اس سے رکشہ منگوایا اور بچی کو لے کر اس میں بیٹھی اور موت سے پہلے موت کو محسوس کیا ۔وہ اپنی بچی کو اپنے جگر کے ٹکڑے کو چھوڑ آئی تھی۔
کیسریا بائی نے اس کا منہ کھلوانے کے لیے بہت زور لگایا مگر وہ کچھ نہ بولی ۔ اسے مارا پیٹا گیا، اسے بھوکا رکھا گیا ،مگر اس نے منہ نہ کھولا۔ کیسریا بائی کو ایک فیصد بھی اس سے ایسی امید ہوتی تو وہ اس پہ پہرا بٹھا کر رکھتی ، کبھی اسے بچی کو لے کر گھر سے نکلنے نہ دیتی۔
ظفر نواز اس کا منہ ہمیشہ کے لیے بند کر دینے کے مشورے دیتا مگر کیسریا بائی نہ مانتی ۔ اسے یقین تھا کہ وہ کنگنا کا منہ کھلوا لے گی۔
کنگنا نے منہ کھولا تھا مگر صرف منے کے سامنے ۔
”اگر اس کا باپ کبھی اس کو ڈھونڈتا ہوا آئے تو اسے بتا دینا ۔”
٭٭٭٭٭



اس دن میں کرخت چہرے والی آیا کی شکایت لگانے بیگم شاہجہاں کے کمرے میں جا رہا تھا۔ پورے گھر میں وہ ایسی خاتون تھیں، جو سخت گیر تو تھیں مگر میرے سر پہ کبھی کبھی ہاتھ بھی پھیر دیتی تھیں۔مجھے یہ لمس اتنا اچھا لگتا کہ میں ان کی گڈبک میں رہنے کے لیے اچھی پڑھائی کرتا، صاف ستھرا رہتا اور سالن میں بوٹی نہ ملنے پہ شور بھی نہ مچاتا ۔بیگم شاہجہاں کبھی کبھی بچوں کو میری مثال دیتی تھیں ۔
بچے۔۔۔جی ہاں جس گھر میں ،میں رہتا تھا اس گھر میں پینتیس بچے تھے ۔ نہیں ۔۔۔نہیں وہ میرے بہن بھائی نہ تھے ۔میرے تو امی ابو ہی نہ تھے ،پھربہن بھائی کہاں سے آتے۔بھلے بیگم شاہجہاں ہم سے کہتی تھیں کہ وہ ہماری امی ہیںاور ہم سب بہن بھائی ہیں۔ مگرمجھے پتہ تھا کہ وہ جھوٹ بولتی ہیں ۔ ایک امی کے اتنے بچے تھوڑی ہوتے ہیں ۔میں نے تو کسی کہانی میںایسا نہیں پڑھا تھا ۔
ہا ں تو بات ہو رہی تھی بچوں کی ۔۔۔یوں تو اس گھر میں پینتیس بچے تھے اور یہ تعداد کم زیادہ ہوتی رہتی تھی۔ کبھی کوئی بچہ آجاتا کبھی کوئی چلا جاتا۔ ان بچوں کو ملا کر اس گھر میںا فراد بہت تھے مگر رشتہ کوئی نہ تھا۔
یہ بھی پہلے کی بات ہے پھر تو معجزہ ہو گیا تھا ناں ۔ہاں ۔۔۔اسی معجزے کا ذکر تو کر رہا تھا میں ۔
اس دن میں کرخت چہرے والی آیا کی شکایت لگانے بیگم شاہجہاں کے کمرے میں جا رہا تھا۔جب وہ دروازے سے باہر آتی دکھائی دیں، میں ایک طرف ہو گیا ۔ان کے ساتھ ایک برقعے والی عورت تھی، جس نے چہرے پہ بہت سا میک اپ کر رکھا تھا ۔اس کی آنکھوں میں بہت سے آنسو بھرے تھے ۔وہ بار بار بیگم شاہجہاں کے کمرے میں جھانکتیاور آنسو صاف کرتی تھی۔پھر بیگم شاہجہاں سے کچھ کہتی تھی۔ بیگم شاہجہاں نے ان کے کندھے پہ ہاتھ رکھا تھا ۔ پھر وہ دونوں گیٹ کی طرف بڑھ گئی تھیں۔میں وہیں کھڑے ہو کر بیگم شاہجہاں کا انتظار کرنے لگا ۔اتنے میں مجھے ہال سے آیا نکلتی نظر آئی ۔میں ڈر کر بیگم شاہجہاں کے کمرے میں چلا گیا ۔یہ کمرا اُن کا آفس تھا ۔
وہاں میں نے کیا دیکھا کہ گلابی رنگ کی ایک گڑیا پنگوڑے میں پڑی تھی۔ میں اس کے قریب گیا تو دیکھا کہ وہ سانس لے رہی تھی۔مجھے پتہ چلا کہ وہ گڑیا نہیں تھی، وہ تو ایک چھوٹی سی بچی تھی۔جس نے سرخ فراک پہن رکھی تھی۔اس کے سرہانے فیڈر رکھا تھا اور پنگوڑے کے پاس ایک بیگ پڑا تھا ۔وہ اتنی پیاری تھی کہ میں نے بے اختیاراس کا گلابی ہاتھ پکڑ کر اسے پیار کیا تھا ۔
بیگم شاہجہاں کمرے میں داخل ہوئیں تو مجھے ڈانٹا ۔میں بنا اجازت جو ان کے کمرے میں چلا آیا تھا ۔انہوں نے مجھے آدھا گھنٹہ وہیں کھڑے رہنے کی سزا دی تھی ۔آیا کی شکاعت کیا لگاتا ،خود مجرم بن کر میں سر جھکا کر کھڑا ہو گیا۔ میری نگاہ بار بار گلابی گڑیا پہ اٹھتی تھی۔ بیس منٹ بعد وہ اٹھ بیٹھی تھی۔ ا س نے سب سے پہلے مجھے ہی دیکھا تھا ۔آنکھیں مسلتی ہوئی وہ مسکراد دی تھی۔میں بھی مسکرا دیا تھا ۔
”بیگم شاجاں ۔۔یہ مجھے دیکھ رہی ہے ۔” اس وقت مجھے شاہجہاں بولنے میں دقت ہوتی تھی۔میں جب بھی ان کا ایسے نام لیتا وہ مسکرا اٹھتی تھیں ۔اب بھی ایسا ہی ہوا ،ان کا موڈ خوشگوار ہو گیا تھا۔ ویسے بھی سزا دے دینے کے بعد وہ ہماری غلطی بھول جاتی تھیں ۔اور بیس منٹ تو گزر ہی چکے تھے۔ میری سزا پوری ہونے ہی والی تھی۔
”بھاء ۔” بچی مسکراتے ہوئے بولی۔
”بیگم شاجاں ۔۔۔بیگم شاجاں ۔۔اس نے مجھے بھائی بولا۔” میں نے جوش کے ساتھ انہیں مطلع کیا ۔
”ہاں ۔۔۔یہ تمہاری بہن ہے ۔”
بیگم شاہجہاں نے مسکرا تے ہوئے بتایا تھا ۔لیکن ان کا کیا وہ تو سارے بچوں کے بارے میں کہتی تھیں کہ وہ میرے بہن بھائی ہیں ،مگر وہ بہن بھائی تھے تو نہیں ۔میں کوئی بچہ تو نہ تھا جو مجھے سمجھ نہیں آتی تھی۔ بولتی ہوں گی بیگم شاہجہاں جھوٹ مگر اس وقت تو ان کے چہرے سے لگا کہ وہ سچ کہہ رہی ہیں ۔ اور پھر یہ گلابی گڑیا تو مجھے بھائی کہہ رہی تھی۔
”وہ جو باہر گئیں ،وہ اس کی امی تھیں ؟” میں نے پوچھا ۔
”ہاں ”
”پھر وہ میری امی تھیں ۔” یقیناً اس وقت میری آنکھیں چمک اٹھی ہوں گی ،اسی لیے تو بیگم شاہجہاں نے ایک لمحے کو میری طرف دیکھا اور
پھر مسکرا کر اثبات میں سر ہلایا ۔اس وقت ان کی آنکھوں میں بھی چمک تھی یا شاید پانی تھا ۔
میں نے پھر اس گلابی گڑیا کی طرف دیکھا جو میری بہن تھی، میری امی کی بیٹی تھی۔
دراصل میں اپنے آپ کو بچہ سمجھتا نہیں تھا مگر تھا تو بچہ ہی ناں ۔یہ بات تو حقیقت تو مجھے بہت بعد میں معلوم ہوئی کہ بیگم شاہ جہاں اکثر جھوٹ بولتی ہیں ۔
گلابی گڑیا نے میری طرف ہاتھ بڑھائے ، میں نے اسے اٹھا لیا ۔
اب میںزمین پہ ہی ایک ایسے گھر میں رہتا تھا جہاں ایک بہن ہوتی ہے ۔
٭٭٭٭٭

Loading

Read Previous

چھوٹی سی زندگی

Read Next

عبداللہ – دوسری اور آخری قسط

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!