عبداللہ – قسط نمبر ۰۱

دن گزرتے رہے ، ریحانہ پروین کی شہرت بڑھتی گئی ۔ محلے سے دوسرے محلے ، دوسرے محلے سے پورے شہر اور شہر سے دوسرے شہر تک اس کا نام جا پہنچا اور پھر ایک دن ظفر نواز اس کے دروازے تک آپہنچا ۔ اس نے ریحانہ پروین کو بتایا تھا کہ لاہور میں ایک ایسی جگہ ہے جہاں سے وہ اپنے کام میں باقاعدہ سرٹیفیکشن حاصل کر سکتی ہے ۔جس سے اپنی فیلڈ میں اس کی قدرومنزلت بڑھ جائے گی۔وہاں کوئی ایک دوسرے پہ انگلی اٹھانے نہیں بلکہ سبقت لے جانے کی تگ و دو میں لگا ہو گا ۔ وہاں کوئی اس کے ہونے والے بچے کو دھتکارے گا نہیں۔ وہاں کوئی اس کی ولدیت نہیں پوچھے گا۔
ریحانہ پروین چادر اوڑھ کر اس کے ساتھ چل پڑی تھی۔
٭٭٭٭٭
”آئمہ بی بی کا ایکسیڈنٹ ہوگیا ۔”
اطلاع اس تک بھی پہنچی ،وہ دل تھام کر رہ گیا ۔عجیب تو اسے تب بھی لگا تھا جب آئمہ جہانگیر گئی تو اپنی گاڑی پر تھی مگر واپس جہانگیر عثمان کے ساتھ آئی تھی۔وہ گاڑی سے اتر کر اپنے قدموں پہ چلتی ہوئی اندر گئی تھی مگر اس کو قرار نہ ملتا تھا ۔وہ اسے ایک نظر دیکھ لینا چاہتا تھا کہیں کوئی چوٹ تو نہیں آئی ،کہیں کوئی خراش تو نہیں آئی۔
وہ گل دان میں گلابی گلاب سجائے اس کے کمرے کی طرف آیا تھا ۔ہلکی سی دستک دی۔ اجازت ملنے پہ اندر گیا ۔وہ فون پہ کسی سے بات کر رہی تھی۔
”ارے یار ۔۔۔کچھ نہیں ہوا مجھے پاکستان میں ڈرائیونگ سائیڈ چینج ہونے کی وجہ سے ابھی ہاتھ سیٹ نہیں ہوا۔سامنے سے آتی تیز رفتار گاڑی کو دیکھ کر بوکھلا گئی ،اورچھوٹا سا ایکسیڈنٹ کر بیٹھی۔ ممی تو یو نہی پریشان ہو جاتی ہیں ۔۔۔ڈیڈی بھی ان سے کچھ کم نہیں ہیں ۔تم نے بھی تو گھر دنیا کے دوسرے کونے میں لے رکھا ۔۔۔بولو کیا کا م ہے ۔”
بات کرتے آئمہ کی نظر اس پہ پڑ ی جو پھول ڈریسنگ ٹیبل پر سجا کر ایک طرف کھڑا ہو گیا تھا ، تو ناگواری کے ساتھ پوچھا ۔ کچھ دیر تو وہ لفظ اکٹھے کرتا رہ گیا ۔لفظ ملے تو جملے میں ڈھالنا ایک مرحلہ لگا۔
”بولو۔” آئمہ نے ناک چڑھا کر کہا ۔
”آ۔۔۔آپ ٹھ۔۔۔ٹھیک تو ہیں ۔” بولنا اور خاص طور پر اس کے سامنے بولنا اسے بہت دشوار لگتا تھا ۔
”مجھے کیا ہوا ہے ؟” اس تیوری پہ مزید بل پڑے ۔ہ چپ کا چپ رہ گیا ۔”ہاں نوین بولو۔۔۔کچھ نہیں یار ۔۔۔تم اپ ڈیٹ کرو اپنی شاپنگ سے ۔۔۔” آئمہ پھر موبائل پہ بات کرنے لگی تھی۔وہ خاموشی کے ساتھ اس کے کمرے سے نکل آیا تھا ۔
اس دن اس نے پھر سوچا تھا کہ وہ واپس چلا جائے ۔جب وہ جان گیا تھا کہ یہ وہ نہیں جس کی تلاش اسے یہاں تک لے کر آئی تھی۔ یہ تو کوئی
اور ہی تھی۔ پھر یہاں رہنے کا فائدہ۔اسے چلے جانا چاہیے۔
اس نے بس سوچا ہی تھا ،عمل نہ کر پایا تھا ۔
یہ دو دن بعد کی بات ہے ۔وہ اپنے کام میں مگن تھا جب آئمہ کی آواز کان میں پڑی تھی۔اس کا ہاتھ ایک پل کے لیے رکا پھروہ اپنے کام میں لگ گیا مگر اس کی تمام تر حسیات آئمہ کی طرف متوجہ ہو گئیںتھیں ۔ وہ شاید کسی کے ساتھ موبائل پہ بات کر رہی تھی۔
”سنو ،کیا نام ہے تمہارا؟”
چوکیدار نے اونچی آواز میں اسے بتایا تھاکہ بی بی نے اسے مخاطب کیا ہے ۔
”بہرے ہو کیا ؟” آئمہ کی تیوری پہ بل پڑے ۔وہ بہرا نہیں تھا،اس نے آئمہ کی آواز سن لی تھی مگر اسے یقین نہیں تھا کہ مخاطب اسے کیا گیا ہے ۔ وہ اٹھ کر ہاتھ باندھ کر مودبانہ انداز میں کھڑا ہو گیا تھا۔



”ماما نے بتایا کہ تم ڈرائیور بھی ر ہ چکے ہو ۔چلو آو مجھے نوین کے گھر چھوڑ کر آؤ۔” وہ حکم دے کر مڑ گئی تھی۔
جب وہ بی ایس سی کر رہا تھا تو اس نے کچھ عرصہ تک ڈرائیور کی نوکری کی تھی مگر آج اس کے لیے گاڑی چلادو بھر ہوا جاتا تھا کیونکہ پیچھے وہ بیٹھی تھی۔ اس کی نگاہ بھٹک بھٹک کر اس پہ جاتی ۔وہ اس سے کچھ کہنے کے لیے ذرا سے ہونٹ وا کرتا پھر بھینچ لیتا ۔
”پہلے کبھی کوئی لڑکی نہیں دیکھی کیا؟”
آئمہ نے پاؤٹ بنا کر موبائل سے اپنی سیلفی لی اور مرر میں اسے اپنی طرف دیکھتا پا کر کہا ۔اس کا چہرہ یوں لال ہوا جیسے اس کے منہ پر طماچہ مار دیا گیا ہو۔ اس کے بعد اس کی نگاہ بھول کر بھی اس کی طرف نہ اٹھی۔
جہانگیرعثمان نے آئمہ کی ڈرائیونگ پہ پابندی لگا رکھی تھی۔ آئمہ نے خود کو کوسا کہ اچھا تھا خاقان احسن کی آفر قبول کر لیتی اور اس کے ساتھ گھر آ جاتی۔ ڈیڈی کو بلا کر اس نے غلطی کی۔ وہ تو ممی سے بھی زیادہ وہمی نکلے ۔اب اسے مین روڈ پر ڈرائیونگ کی اجازت نہیں دے رہے تھے ۔ ان کا حکم تھا کہ پہلے اپنی لین اور پارک کے بیچ والی روڈ پر گاڑی چلائے ،اپنا ہاتھ سیٹ کرے پھر اسے اجازت ملے گی باقاعدہ ڈرائیونگ کی۔ ان دنوں اسی نے ڈرائیور کے حصے کی ڈیوٹی نبھائی ۔گاڑی میں بیٹھنے سے پہلے وہ سامنے گلابی گلاب سجا دیا کر تا تھا ۔ ایسے ہی گلابی گلاب آئمہ کو اپنے کمرے میں بھی نظر آتے تھے ۔
٭٭٭٭٭
لاہور میں کیسریا بائی کے کوٹھے کے ایک اندرونی کمرے میں ریحانہ پروین نے ایک بچی کو جنم دیا ۔ بچی بہت پیاری تھی اپنے باپ کی طرح سرخ و سفید ، اسی کی طرح سنہری آنکھیں ، سنہری بال ۔ البتہ نقش ماں کے چرائے ۔ خوبصورت تو ریحانہ پروین بھی کم نہ تھی مگر جس کام میں وہ پڑ ی تھی ،اس کے سائیڈ افکٹس میں چہرے پہ پکا پن آجاتا ہے ،آنکھوں سے حیا ختم ہو جاتی ہے تو خوبصورتی خود بخود ماند پڑ جاتی ہے ۔
سوا مہینہ نہانے کے بعد اس کی باقاعدہ ٹریننگ شروع ہوئی ۔سب سے پہلے وہ ریحانہ پروین سے کنگنا بنی۔ کیونکہ کیسریا بائی کا کہنا تھا ۔
”ریحانہ پروین جیسا شریفانہ نام ان کے پیشے میں جچتا نہیں ۔”
کنگنا بنی تو گھنگھرو بھی پہنے ، ناچ کی کلاسز بھی لیں ۔سازو سر سے ناطہ بھی جوڑا ۔ یوں وہ جو سرٹیفکیٹ لینے آئی تھی ،ڈپلومہ ،ڈگری سب لے ڈالے ۔پچھلی باتیں ،پچھلا گھر بھولتی گئی ۔
بچی کے لیے اس نے سوچ لیا تھا کہ جیسے ہی پاؤں پاؤں چلنے لگے گی ،اسے ماہر رقاص سے ٹرینگ دلوائے گی۔ آواز اچھی ہوئی تو موسیقی کی باقائدہ تعلیم دلوائے گی۔ اس نے سوچ لیا تھا کہ وہ اسے عزت و شرافت کا یعنی کہ فاقوں کا درس ہر گز نہیں دے گی۔ اس کے سر پہ کون سا باپ بھائی بیٹھا ہے ۔اور اکیلی عورت شر یف ہو ،با حیا ہو پھر بھی مرد اسے دیکھ کر رال ٹپکانے لگتا ہے ۔آج سے اٹھارہ سال بعد پھل ، گوشت اور دوائیں اور بھی مہنگی ہو جائیں گی ۔اس وقت کوئی چارہ نہ پا کر اپنی چادر اتارنا بہت مشکل لگتا ہے ۔ بہتر ہے کہ ابھی سے یہ کام پلاننگ اور فخر کے ساتھ کیا جائے تا کہ خود کو بہلانا آسان ہو ۔
اس نے بچی کے لیے بہت کچھ سوچا تھا ۔مگر ہو کچھ اور گیا ۔
٭٭٭٭٭
آئمہ جہانگیرکے ناک کے نیچے کوئی چیز کم ہی آتی تھی۔ وہ ہر معاملے میں چُوزی تھی۔ مخصوص برانڈز کے جوتے اور بیگ ، چند ڈیزائنرز کے تیار کردہ ملبوسات اور جیولری ، امپورٹد اسیسریز۔
اس دن اسے پتہ چلا کہ اسماء حبیب کی نئی فارمل کلیکشن آئی تھی، تو نوین کو لیے The Centaurusآگئی۔ اسے نوین کی شادی کے لیے شاپنگ کرنا تھی اور چاہتی تھی کہ نوین کو اس کی پسند کا گفٹ بھی لے دے ۔ وہ دونوں اسکیلیٹر کے ذریعے تھرڈ فلور کی طرف جارہی تھیں ۔ جس اسٹیپ پر وہ کھڑی تھی ،اس سے نچلے اسٹیپ سے کوئی اس کے کان کے پاس گنگنایا ۔
”او ماریہ ۔۔۔او ماریہ ۔”
وہ ڈر کر اچھلی اور ہیل پر اپنا توازن برقرار نہ رکھتے ہوئے گرنے لگی ۔اوپر والے اسٹیپ پہ کھڑی نوین نے جلدی سے اسے سہارا دیا ۔
”اف ۔۔۔فلمی دنیا ہوتی تو ہیروئین گرنے لگتی،ہیرو سہارا دیتا ۔حقیقی دنیا میں ہیروئیں کی دوست نے سارا سین خراب کر دیا ۔ثابت ہو گیا فلمی زندگی اور حقیقی زندگی میں فرق ہے ۔” اس نے سر ہلاتے ہوئے نئی تحقیق پیش کی۔آئمہ سیدھی ہو کر اسے گھورنے لگی تھی ۔ اور نوین کو تو معاملہ ہی سمجھ نہ آ رہا تھا ۔
”چلو ۔” تھرڈ فلور پہ پہنچ کر آئمہ نے نوین کا اشارہ کرتے ہوئے قدم بڑھائے ۔
”چلو ۔” وہ ان کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلا۔
”خاقان احسن ۔” اس نے دانت پیستے ہوئے اس کا نام لیا۔
”چلو یہ تو ثابت ہوا کہ ہم اجنبی نہیں ۔چلو پھردوست دوست اکٹھے شاپنگ کرتے ہیں ناں ۔ تم بھی آجاؤ لڑکی ۔۔۔نئے دوست مل جائیں تو پرانوں کو بھول جانے والوں میں سے نہیں ہے ماریہ ۔” اس نے ہونق بن کر کھڑی نوین کو ساتھ آنے کا اشارہ کیا ۔
”تم چیز کیا ہو ؟” آئمہ نے کمر پہ ہاتھ رکھا۔
”اس دن بھی بتایا تھا کہ یہ چیز نا چیز خاقان احسن ہے ۔آج بھی بتاتا ہوں کہ یہ چیز نا چیز خاقان احسن ہے ۔ اسٹیٹمنٹ بدل تھوڑی جائے گا۔میں کون سا لوگوں کو غلط نام بتاتا ہوں۔”
وہ شرمندہ ہوئی تھی اور خاقان نے اس کے چہرے کے تاثرات کو خوب انجوائے کیا۔
”میرا خیال ہے کہ اب میں آپ دونوں کے بیچ اپنے آپ کو اجنبی سا محسوس کر رہی ہوں ۔” نوین بولی۔
”نہ نہ لڑکی۔۔۔کیسی باتیں کرتی ہو ۔تم اجنبی کہا ں ۔تم تو ہماری دوست ہو نوین ۔”
”ہیں ۔” نوین بھونچکا رہ گئی۔”آپ کو میرا نام کیسے پتہ؟” اس نے ساتھ ہی آئمہ کو مشکوک نظروں سے دیکھا جس نے ایکسیڈنٹ کے واقعہ سناتے ہوئے خاقان کے ساتھ اس قدر بے تکلفی کا ذکر ہر گز نہ کیا تھا کہ اس کو اپنی فرینڈز لسٹ بھی بتا دی۔
”با با سب جانتا ہے بچی ۔۔۔بابا نے نجومیت کا کورس کیا ہے ۔”
”ڈرامہ ۔” آئمہ نے ہنکارا بھرا اور آؤٹ لیٹ کے اندر چلی گئی۔ان دونوں نے بھی تقلید کی تھی۔
آئمہ نے جس کپڑے کو ہاتھ لگایا ۔نوین سے پہلے وہ کمنٹ کرتا ۔اور کمنٹ بھی ایسا کہ جی جلا کر رکھ دیتا ۔نوین نے تو ایک شرٹ لے لی مگر وہ کچھ بھی لیے بغیر باہر نکل آئی تھی۔
”بہت تھک گئے ہیں ۔چائے پینی چاہیے ۔”
خاقان کی بات سن کر نوین کو ہنسی آگئی تھی۔آئمہ بھی مسکراہٹ کو چھپا نہ سکی تھی۔
”ابھی تو ایک آؤٹ لیٹ دیکھا ہے اور آپ تھک گئے ۔خواتین کے ساتھ شاپنگ کا تجربہ نہیں شاید آپ کو ۔”
”ارے کہاں ۔۔۔میری ماں سیدھی سادی سی عورت ہے ۔بہن ان سے بھی زیادہ سمپل ۔”
”بیوی بھی پھر سیدھی سادی سمپل سی لائیے گا ۔ورنہ ایک شاپنگ میں دس چائے کے کپوں کی ضرورت پڑے گی آپ کو ۔” نوین نے مخلصانہ مشورہ دیا ۔
”بندے کی قسمت ہمیشہ اچھی تھوڑی ہو تی ہے ۔”اس نے سرد آہ بھری تو نوین ہنس دی۔ آئمہ نے اپنے موبائل پہ انگلی چلاتے ہوئے خود کو لاتعلق ظاہر کیا ۔
خاقان احسن نے دیکھا ۔ بے نیازی اس پہ جچتی تھی۔
٭٭٭٭٭

Loading

Read Previous

چھوٹی سی زندگی

Read Next

عبداللہ – دوسری اور آخری قسط

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!