”دیکھیں مس خودکشی حرام ہے۔ اس لیے انسان کو اس کی کوشش نہیں کرنی چاہیے ۔” آئمہ جہانگیر اپنی الٹی پڑی گاڑی کو خوف زدہنظروں سے دیکھتے ہوئے سامنے کھڑے بندے کا شکریہ ادا کرنے کا ارادہ کر ہی رہی تھی جب بندے کی زبان بغیر فل اسٹاپ اور کومہ کے شروع ہوگئی تھی۔
”خودکشی کا بھلا کیا فائدہ، بندہ جان سے جائے اور مشکوک بھی ٹھہرے۔ بھئی وجہ چاہے کوئی بھی ہو ،جوانی کی خودکشی تو لوگوں کو باتیں بنانے کے موقع ہی دیتی ہے ۔پسند کی شادی نہیں ہوئی ، لڑکے نے دھوکہ دے دیا ۔ غرض جتنے منہ اتنی باتیں ۔ میری خالہ کی نند نے بھی جب بھری جوانی میں خودکشی ۔۔۔”
”او بھائی ۔۔۔او بھائی ۔” آئمہ نے ہاتھ کے اشارے سے اسے منہ بند کرنے کو کہا ۔
”بھائی تو نہ کہیں ۔” لڑکا خاصے صدمے میں چلا گیا تھا ۔
آئمہ پروا کیے بغیر زمین پہ بیٹھ کر الٹی پڑی گاڑی میں کچھ تلاش کرنے لگی تھی۔ ابھی تک وہ بری طرح کانپ رہی تھی۔ آناً فاناً کیا ہو گیا ،اسے پتا ہی نہ چلا ۔ وہ موبائل پہ بات کرتے ہوئے تیز رفتاری کے ساتھ گاڑی ڈرائیوکرتی آرہی تھی کہ اچانک کار کے سامنے ایک بچی بھاگتی ہوئی آگے آگئی۔ اسی وقت سامنے سے اسپیڈ میں آتی گاڑی پہ اس کی نظر پڑی ۔ اس نے گاڑی سے بچنا چاہا اور بچی کوبھی بچانا چاہا تھا ، اسی کوشش میں گاڑی سڑک سے اتر کر نیچے کچے میں قلا بازی کھاتی الٹی جاپڑی ۔ بچی تو ڈر کر بھاگ گئی تھی ، گاڑی والے بندے نے جلدی سے پہنچ کر اسے گاڑی سے باہر نکالا تھا ۔ حیرت انگیز طور پروہ بالکل محفوظ رہی تھی مگر خوف زدہ ہو گئی تھی ۔
”کیا ڈھونڈ رہی ہیں ؟” زیادہ دیر چپ رہنے سے غالباً اسے اختلاجِ قلب ہونے لگتا تھا۔
آئمہ کوئی جواب دیے بنا گاڑی کے اندر جانے لگی۔گاڑی ہلنے لگی تھی۔
”ا وہ میم۔۔باہر آجائیں ۔گاڑی میں آگ بھی لگ سکتی ہے ۔”
اس کا کہنا تھا کہ خوف سے اگلے پل آئمہ گاڑی سے باہر تھی ۔
”ہیں اتنی ڈرپوک۔۔۔اور کرنے چلی تھی خودکشی ۔” وہ ہنسا۔
”او بھائی ۔۔۔میں خودکشی نہیں کر رہی تھی۔” وہ غصے سے بولی۔یہ محسن اب امتحان بننے لگا تھا ۔
”دیکھیں اب بھائی کہا تو میں خودکشی کر لوں گا ۔” اس نے انگلی اٹھا کر دھمکی دی۔
”نیکی اور پوچھ پوچھ۔” وہ تلملائی۔
”عمدہ محاورہ ۔۔۔خوامخواہ نئی نسل کو دیکھ دیکھ کر ابا جی دل جلاتے ہیں کہ اپنی زبان سے دور ہوتے جا رہے ہیں ۔یقین کریں آپ سے مل کر انہیں امید کی ایک کرن نظر آئے گی۔چلیں پھر ہمارے گھر۔”
”تم چیز کیا ہو؟” آئمہ نے کمر پہ ہاتھ رکھتے ہوئے بے بسی ے پوچھا ۔
”اس نا چیز کو خاقان احسن کہتے ہیں ۔” اس نے سینے پہ ہاتھ رکھ کر تھوڑا سر کو خم دے کر تعارف کروایا ۔
وہ تاسف سے سر ہلاتے ہوئے پھر اپنی گاڑی کو دیکھنے لگی ۔پھر اس نے سڑک کی جانب نظر دوڑائی کہ شاید کوئی اور گاڑی گزر رہی ہو ۔ دوپہر کا وقت تھا،روڈ سنسان تھا ۔وہ شارٹ کٹ کے چکر میں غلط رستے سے آ گئی تھی ۔ نوین کے بابا کو بھی جانے کیا پڑی تھی کہ شہر سے بالکل باہر گھر لے ڈالا جہاں سیکٹرابھی پوری طرح ڈویلپ بھی نہیں ہوا تھا ۔وہ ابھی کڑھ ہی رہی تھی جب سڑک پہ کھڑی گاڑی میں پڑا موبائل بجا تھا۔ خاقان اس طرف گیا تو وہ بھی اس کے پیچھے آ گئی۔
”امی! بس آدھے گھنٹے میں پہنچتا ہوں ۔۔۔جی جی آفس سے تو جلدی نکل آیا تھا مگر ایک جگہ رکنا پڑا ۔لڑکی خود کشی کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔ اسے بچانے کے لیے رُک گیا ۔” بات کرتے کرتے اس نے کن اکھیوں سے آئمہ کی طرف دیکھا جس کی آنکھوں سے اس کے فضول بات پر چنگاریاں سی نکل رہی تھیں ۔
”جی امی۔۔۔لڑکی تو بچ گئی ہے ،گاڑی کو کافی نقصان ہوا ہے ۔شکر کریں آپ کا بیٹا وقت پر پہنچ گیا ۔”
”میں تمہیں کتنی بار بتاؤں کہ میں خودکشی نہیں کر رہی تھی۔” جیسے ہی بات کر کے اس نے کان سے موبائل ہٹایا ،وہ چلائی۔
”گاڑی تو ایسے ہی ڈرائیو کر رہی تھی۔” اس نے اطمینان سے کہا ۔مسکراہٹ اس نے چھپانے کی بھرپور کوشش کی تھی مگر ان آنکھوں کا کیا کرتا جو مسکرا رہی تھیں ۔
”اپنا موبائل دیں ۔” وہ اب مزید بحث میں نہ پڑ نا چاہتی تھی۔
” موبائل snatching۔۔۔افسوس۔۔۔اچھے بھلے گھروں کے چشم و چراغ بھی اب ایسے کام کرنے لگے ۔۔۔نہیں نہیں ،میں آپ کو اپنے ابا جی سے ہر گز نہیں ملواؤں گا، ان کی امید کی آخری کرن بھی بُجھ جائے گی ۔۔۔ویسے آپ تو مجھے اتنی بگڑی ہوئی نہیں لگتیں ۔”
”مجھے اپنے گھر کال کرنی ہے ،اس لیے فون مانگ رہی ہوں ۔” اچھے حالات میں وہ کبھی اس لڑکے کو منہ بھی نہ لگاتی مگر اب مجبوری تھی۔ اس کی گاڑی الٹ چکی تھی اور موبائل کہیں دکھائی نہ دیتا تھا ۔
”میں اجنبیوں کو اپنی چیز نہیں دیتا ۔” اس نے سر ہلاتے ہوئے صاف انکار کیا ۔ آئمہ کی آنکھیں اُبل پڑیں ۔
”میری طرف سے اجنبیت ختم ہوگئی ہے ۔میں نے تو بتا دیا نا چیزکو خاقان احسن کہتے ہیں۔ آپ؟۔۔۔دیکھیں زیادہ سوچیں مت ۔ مصلحت کا تقاضا یہی ہے کہ اجنبیت ختم کی جائے ۔ ” آئمہ کی جی چاہا کہ اس کا سر پھاڑ ڈالے مگر اس وقت مصلحت کا تقاضا واقعی کچھ اور تھا ۔
”میں ماریہ ہوں ۔” اس نے اعتماد کے ساتھ بتایا ۔
”او ماریہ ۔۔۔او ماریہ ۔” اس نے گانے کی طرز پہ گنگناتے ہوئے موبائل اس کی طرف بڑھایا ۔آئمہ نے ممی کو فون کرنے کی غلطی نہ کی تھی ورنہ اسے زندہ سلامت اپنے سامنے پانے کے باوجود مہینہ بھر ان کے دل میں ہول اٹھتے رہنے تھے ۔ اس نے ڈیڈی کو کال کر کے ساری بات بتائی تھی اور جب تک ڈیڈ ی جائے حادثہ پہ نہ پہنچے اس نے ساتھ کھڑے اس بندے کو جھیلا تھا ۔وہ تو بھلا ہوا کہ دو گاڑیاں اس روڈ سے بالآخر گزریں ،سڑک سے نیچے کچے حصے مین الٹی پڑی گاڑی کو دیکھ کر رک گئیں ۔مگر یہ بھلا نہ ہوا کہ وہ رکنے والوں کے استفسار پہ ان کو الٹی سیدھی کہانی سنانے لگا تھا ۔آئمہ سر پکڑ کر رہ گئی۔
٭٭٭٭٭
ریحانہ پروین جانتی تھی کہ بچے کا باپ کون ہے ۔
بات کھلنے لگی تھی۔عورتیں آتی تو ماں کا افسوس کرنے مگر ان کی ٹٹولتی نگاہیں کہتی کچھ اور تھیں۔وہ باہر جاتی تو لوگ اس کو دیکھ کر کھسر پھسر کرنے لگتے۔
زندگی یوں نہ گزرنی تھی۔ بچے کو باپ کا نام ملنا ضروری تھا ۔ وہ اس کے پاس گئی تھی ،اس کی منتیں کی تھیں کہ اس سے شادی کر لے ،بچے کو اپنا نام دے دے ۔اس نے صاف انکار کر دیا تھا ۔
”مجھے کیا پتہ ۔بچہ کس کا ہے ۔اپنا گنا ہ میرے سر کیوں تھوپتی ہو ۔”
ریحانہ پروین چپ سادھ کر واپس آ گئی ۔
جو شخص جانتا تھا کہ ریحانہ پروین صرف اس کے پاس آتی ہے ۔مرد مرد کو منہ نہیں لگاتی ہے جب اسی نے بچے کو اپنا ماننے سے انکار کر دیا تو اب کس کس کو سچ بتاتی ۔کون تھا اس کا یقین ،اعتبار کرنے والا۔
اس کے جسم میں آئی تبدیلیاں واضح ہونے لگیں ،لوگوں کے شک یقین میں بدلنے لگے تو عورتیں اس سے دور ہونے لگیں اور مرد قریب آنے کی کوشش کرنے لگے ۔محلے کے لڑکوں کی آنکھوں سے خباثت ٹپکنے لگی تھی ،کام پہ آتے جاتے وہ ان کے فحش جملے سنتی تھی۔ اور پھر ایک دن کام بھی چھوٹ گیا۔ جس گھر میں وہ کام کرتی تھی ،اس گھر کی مالکن کو شوہر ہاتھ سے جاتا دکھائی دیا تو اسے کام سے جواب دے دیا ۔ ہر جگہ ماری ماری پھری ۔ جو عورت اپنے دامن پہ داغ لگوا بیٹھے اسے کام پھر دوسری نوعیت کے ہی ملتے ہیں ۔پیٹ کے آگے اس نے سر جھکا دیا ۔ جتنا وہ خاتون مہینہ بھر کی مشقت کے بعد اس کے ہاتھ میں دیتی تھی ،اس سے زیادہ اس کا شوہر ایک دن میں اسے تھما گیا ۔اس کے گھر کے دروازے رنگ رنگ کے مردوں کے لیے کھلتے گئے ۔
سچی بات تو یہ ہے کہ اسے بھی محنت بھاری لگنے لگی تھی ۔ منتیں ترلے کر کے ایک اسکول میں کام لیا مگر پہلے دن ہی ہیڈ مسٹریس کے آفس،اسٹاف روم ،بارہ کلاس رومز ،غسل خانے اور لیٹرین کی صفائی نے اس کے جسم کی چولیں ہلا دیں ۔اس کے بعد دو دن وہ اٹھنے کے قابل نہ رہی ۔الٹیوں نے الگ مت ماری ہوئی تھی۔دو دن بعد جب وہ کچھ سوچنے کے قابل ہوئی تو اس نے فیصلہ کر لیا کہ اُسے پرو فیشن کے طور پہ اب کس شعبے میں جانا ہے ۔
عورتیں ا س پہ تھو تھو کرتی تھیں ، مرد بھی اپنی عورت کے سامنے اس پہ تھو تھو ہی کرتے تھے ۔ لڑکے باپ کی جیبوں اور ماں کے بٹوے سے پیسے چُرانے لگے تھے ۔
محلے کے جن مردوں کا شمار حقیقتاً شرفاء میں ہوتا تھا ،انہیں فکر ستانے لگی ۔کمیٹی بیٹھی، میٹنگز ہوئیں اور فیصلہ کیا گیا کہ پہلے ریحانہ پروین کو وارننگ دی جائے ،اس کے بعد بھی اگر وہ نہ سدھرے تو محلہ بدر کر دیا جائے ۔ چناںچہ ریحانہ پروین کو نوٹس جاری کر دیا گیا ۔
”میری اور میرے بچے کی ذمہ داری اٹھائیں ،میں یہ کام چھوڑ دوں گی۔”
ریحانہ پروین کے جواب پہ شرفا ایک دوسرے کا منہ دیکھ کر رہ گئے ۔ ان کے ماتھے پہ شرافت و نجابت کا ٹھپہ لگا ہوا تھا ، یہ کام کر کے بدنامی کا ٹیگ کیوں لگواتے ۔