بیگم شہا جہاں مجھے راپنزل کی جعلی والی جادوگرنی ماں لگتی تھیں جس طرح گوتھل نے راپنزل کو ایک ٹاور میں بند کر رکھا تھا ، اس طرح بیگم شاہجہاں نے ہم سب بچوں کو قید کر رکھا تھا ۔ پہلے میرا اس ٹاور سے باہر بھاگ جانے کو دل چاہتا تھا مگر کوئی دروازہ نظر نہیں آتا تھا ۔ اب میرا بھاگنے کا ارادہ بدل گیا تھا ۔ اب میرا اسی دنیا میں دل لگنے لگا تھا کیوںکہ اب میرے ساتھ میری بہن تھی۔
میں خوش تھا ، بہت خوش۔ اور پھر ۔۔۔پھر چودہ مہینے د س دن بعد میری خوشیوں کو نظر لگ گئی۔
اس دن میں میتھس کا ٹیسٹ دے کر جلدی جلدی لڑکیوں کے ہال تک پہنچا تو اپنی بہن کو وہاں نہ پایا۔ وہ پورے ہال میں نہ تھی ، میں نے سوچا کہ دن والی آیا ادھر ادھر ہوئی ہو گی تو وہ باہر نکل گئی ہو گی۔میں ہال سے باہر نکل کر اسے تلاش کرنے لگا ۔ہر کمرے ،ہر برآمدے یہاں تک کہ واش رومز تک میں دیکھ ڈالا مگر وہ پورے گھر میں نہ تھی ۔ میں بھاگتا ہوا بیگم شاہ جہاں کے کمرے میں آیا ، ہانپتے کانپتے انہیں بتاتا کہ میری بہن نہیں مل رہی ۔ تب مجھے معلوم ہوا کہ وہ اس گھر سے جا چکی تھی ہمیشہ کے لیے ۔ میں سکتے میں آگیا تھا ۔
وہ جو اس دنیا میں میرا واحد رشتہ تھا ،مجھ سے چھِن گیا ۔
میں اس کوواپس لانے کی غرض سے بیگم شاہجہاں کے کمرے سے نکل کر گیٹ کی طرف بھاگا ۔ مگر چوکی دار نے گیٹ بند کرد یا تھا ۔ میں روتے اور چلاتے ہوئے چوکی دا رکو دھکا دے کر تالا لگے گیٹ سے باہر نکلنے کی کوشش کی تھی۔ اس دن میں سرخ آنکھوں والے چاچا کے قابو میں بھی نہ آ رہا تھا ۔اس نے مشکل سے مجھے بیگم شاہجہاں کے کمرے میں پہنچا دیا تھا ۔
بیگم شاہجہاں نے مجھے پھر سمجھانے کی کوشش کی تھی کہ اسے اس کے امی ابو لے گئے ہیں ۔
”جھوٹ بولتی ہیں آپ ۔اگر اس کو امی ابو لے کر جاتے تو مجھے بھی لے کر جاتے ،میں بھی تو ان کا بیٹا ہوں ۔” میں نے چلاتے ہوئے ان کی بات کو رد کیا ۔
”یہ وہ امی ابو تھے جنہوں نے اسیگود لیا تھا۔ کچھ جوڑے ایسے ہوتے ہیں جن کے بچے نہیں ہوتے ،کچھ بچے ہوتے ہیں جن کے امی ابو نہیں ہوتے ۔ پھر وہ مل کر ایک فیملی بن جاتے ہیں ۔ تمہاری بہن کو ایک کپل بیٹی بنا کر لے گیا کیوںکہ ان کے بچے نہیں ہیں ناں ۔” انہوں نے دھیمے لہجے میں مجھے سمجھانے کی کوشش کی ۔
”میرے بھی تو امی ابو نہیں ہیں ناں ۔میں تو کسی کے امی ابو کو نہیں چھینتا ۔ پھرا نہوں نے میری بہن کو کیوں چھین لیا ؟”
میں پھر چلایاتھا ۔ اس دن بیگم شاہ جہاں مجھے کچھ سمجھا نہ پائیں تھیں ، میں روتا تھا ،چلاتا تھا، سب کے ہاتھوں سے نکل نکل جاتا تھا ۔ خلاف معمول کوئی مجھے کچھ نہیں کہہ رہا تھا حالاںکہ کرخت چہرے والی آیا نے بھی اس رات میرے سر پہ ہاتھ پھیرا تھا۔
چِلا چِلا کر تھک گیا تو بالکل چپ ہو کر بیٹھ گیا ۔ اس رات مجھے تیز بخار نے آ لیا ۔دو دن تک تپتا رہا ۔سنا ہے کہ آیا نے ٹھنڈے پانی میں کپڑا بھگو کر میرے سر پہ پٹیاں کی تھیں ۔
بخار اترنے کے بعد بھی میں پہلے جیسا نہ ہو سکا تھا ۔ ہر وقت مجھے لگتا کہ میری بہن مجھے پکار رہی ہو گی ، وہ بہت رو رہی ہو گی ۔وہ تو میرے ہاتھوں سے کھاتی تھی، وہ تومیرے کندھے سے لگ کر سوتی تھی۔اب اس کو کون سلاتا ہو گا ،کون بہلاتا ہو گا ، کون کھلاتا ہو گا ۔
اب میرے کھانے میں کوئی حصہ دار نہ تھا، پھر بھی مجھ سے کھایا نہ جاتا تھا ۔ اب نیندسے کوئی جگانے والا نہ تھا پھر بھی سویا نہ جاتا تھا ۔ اب میں کلاس سے کھسکتا نہیں تھا، میرے سارے کام ساری مصروفیات بھی ختم ہو گئی تھیں پھر بھی پڑ ھائی میں بہت پیچھے چلا گیا تھا ۔
ایک دن بیگم شاہ جہاں نے مجھے بٹھا کر سمجھایا۔
” تم اچھا پڑھو گے تو ہی اپنے پاؤں پہ کھڑے ہو پاؤ گے ۔پھر ہی اس گھرسے باہر نکل پاؤ گے ،پھر ہی اپنی بہن سے مل پاؤ گے۔”
”پھر میں اپنی بہن سے مل پاؤں گا ؟” مجھے امید کی کرن نظر آئی تو جوش کے ساتھ پوچھا۔
”ہاں ۔”
”ٹھیک ہے میں اچھا اچھا پڑھوں گا ۔پہلے آپ مجھے اس کا پتا لکھ دیں ۔”
مجھے اب بیگم شاہ جہاں کی باتوں کا یقین نہ رہا تھا ۔
انہوں نے ایک پرچی پہ مجھے میری بہن کا ایڈریس لکھ دیا تھا ۔وہ پتا برسوں تک میری اردو کی ایک کتاب میں پڑا رہا ۔
٭٭٭٭٭