شریکِ حیات قسط ۸

گاؤں میں بہار آئی ہوئی تھی۔

ساون اُترا تھا کیوں کہ سارنگ اترا تھا۔

کچی سڑک پر تانگے کی چھکڑاتی آواز۔

گاؤں کے کھیت کھلیان اور ہر یالی۔

اپنے لوگ، اپنی بولیاں، اتنی مٹھاس، دل جُھوم رہا تھا۔ 

وہ ائیر پورٹ پر اُتری تھی۔ تب ہی ویٹنگ ایریا میں سارنگ کو بھی آتے دیکھا، وہ حیران ہوگئی۔

”سارنگ؟”

”ہاں میں، کیوں؟کیا میں اپنے گوٹھ نہیں جاسکتا؟”

کیا میرے اپنے میرے منتظر نہیں ہوسکتے؟

کیا ان کو میری ضرورت نہیں ہے؟

سب چیزیں اپنی جگہ مگر سندھیا میں تمہارے لیے لوٹا ہوں۔ مجھے زندگی کی چوٹوں نے سمجھایا کہ ہم سفر وہ نہیں ہوتا، جو آپ کی چاہ رکھے اور آپ جس کی چاہ رکھیں۔ ہم سفر برے وقت میں ساتھ رہنے والا ہوتا ہے۔ باقی تو بس چاہنے والے ہوتے ہیں۔

ان کی چاہ وقت کے ساتھ ڈھے جاتی ہے۔ ایک محبت نہیں ختم ہوتی۔ ایک بھروسہ نہیں ٹوٹتا۔

اور جہاں بھروسہ نہیں ٹوٹتا، وہاں پر محبت بار بار جنم لیتی ہے۔ دھرتی کو آسمان نے تاروں کی روشنی سے بھر دیا تھا۔ وہی جو سایہ کیے رہتا تھا۔ زمین کو اور سیّاروں کی نظروں سے بچاتا۔”

آسمان روٹھ بھی جائے تب بھی سایہ کیے رہتا ہے۔

دھرتی روٹھے تو اس کو مناتا ہے۔

چاہے سارا کام دھرتی کرتی ہو۔

مگر آسمان اس کی حفاظت کرتا ہے۔

دھوپ دیتا ہے، روشنی دیتا ہے۔

رات کو تاروں بھری ٹھنڈک دیتا ہے۔

دھرتی بیج اگاتی ہے، چشمے بہاتی ہے مشقت کرتی ہے اور سندھیا بن جاتی ہے۔

آسمان دھرتی کو مناتا ہے اپنی بانہیں پھیلاتا ہے اور سارنگ بن جاتا ہے۔

٭…٭…٭

Loading

Read Previous

شریکِ حیات قسط ۷

Read Next

شریکِ حیات قسط ۶

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!