شریکِ حیات قسط ۸

وہ ٹکٹ لے آیا تھا اور اُسے تھما دیا۔

”شکریہ۔”ایک چھوٹا سا لفظ، سرسری سا، جیسے وہ بولتا تھا بالکل اسی طرح لگا۔

وہ کچھ نہ بولا،ایک لمحہ اس کی طرف دیکھا، نظروں میں کوئی معنی و مفہوم نہ تھا۔

وہ منتظر رہی کہ کچھ کہے گا مگر کچھ نہیں کہا۔

”کھانا؟”

”شکریہ۔” وہ بس اتنا کہہ سکا۔

”لگادوں؟”

”نہیں۔ ضرورت نہیں ہے باہر سے کھا آئے ہیں؟”

اس نے جواب دینا ضروری نہیں سمجھا۔

”تم ہر کام مجھ سے پوچھ کر کرتی ہوکیا؟ جب اتنے بڑے فیصلے خود سے لینا شروع کیے ہیں تو کھانا کھانے کا مجھ سے کیوں پوچھ رہی ہو؟”

”عادت پڑ گئی تھی آپ کے ساتھ کھانے کی۔”

کیا بتاتی کہ فیصلہ کس لیے اور کیوں کیا؟

”عادت ختم کرو۔”

”یہی چاہ رہی ہوں میں بھی۔”بڑا دل کڑا کر دیا ،اپنا بھی اس کا بھی۔

”اچھا ہے۔” اپنے کاغذات نکالے بیٹھا تھا۔مطلب یہ تھا کہ کام کرنے لگا ہوں۔

”گاؤں میں بتایا آپ نے؟”

”تم خود بتا دینا۔”

”یہ ذمہ داری بھی مجھ پر ڈال رہے ہیں آپ؟”

”اس لیے کہ یہ فیصلہ بھی تمہارا ہے۔”

”توکیا آپ اس فیصلے سے خوش نہیں؟” پھر سے چھوٹی سی خوشی فہمی جاگی۔

”میرا اور میری خوشی کا یہاں کیا لینا دینا۔” وہ جیسے دوبارہ ڈھے سی گئی۔

”ٹھیک کہتے ہیں آپ۔ مجھ سے آپ کا اور آپ کی خوشی کا کیا لینا دینا۔” لہجے میں دکھ تھا یا طنزوہ سمجھ نہ سکا، لہجہ ملا جلا تھا۔

”کچھ چاہیے تو بتا دینا۔”

”مثلاً؟”

”مثلاً گھر والوں کے لیے تحفے وغیرہ۔” اتنی سنگ دلی تھی۔ وہ افسوس کرتی رہ گئی۔ 

”کچھ نہیں چاہیے، ضرورت ہی نہیں۔”

”اچھا، تمہیں نہیں ہے، ہوسکتا ہے انہیں ہو۔”

”آپ خود پوچھ لیجیے گا۔”

”پوچھ لوں گا۔”

”بتا بھی دیجیے گا کہ میں آرہی ہوں۔”

”باقی سب وہاں جاکر پتا لگ جائے گا۔”

”ٹھیک ہے۔” سرسری سا۔

کہنا چاہتی تھی اس کا کیا آپ کو فرق نہیں پڑ رہا؟

مگر کہنے سے کیا فائدہ۔ وہ کھڑی رہی اس نے سوالیہ انداز میں ایسے دیکھا جیسے پوچھنا چاہ رہا ہو اب کیاہے؟

وہ وہاں سے ایسے ہٹ گئی جیسے کہنا چاہ رہی ہو، اب کچھ نہیں۔ وہ دور ہوئی اور سارنگ نے ٹھنڈاسانس بھر کر کاغذ اور قلم میز پر رکھ دیا، ساتھ ہی لیپ ٹاپ آف کردیا۔ دل ہر چیز سے اچاٹ تھا۔

سندھیا نے پیچھے دیکھا۔تو یہ سارا موڈ میری وجہ سے تھا۔میں وہاں سے ہٹ گئی سب کام رُک گیا۔

کتنا آسان سمجھا تھا سب کچھ اور تھا کتنا مشکل نکلا، ہر ہر لمحہ جان لے لیتا تھا۔

پل پل دل مرتا تھا۔

جلتا اور بجھ جاتا۔

نکاح جیسے تعلق میں آخر ایسا کیا ہے کہ محبت نہ بھی ہو تب بھی تعلق چلتا رہتا ہے۔

اس تعلق کے ٹوٹنے سے فرق پڑتا ہے۔

ہر وقت قربت کے تعلق کا احساس سر اُٹھاتا ہے۔ ایک ایسے تعلق کا احساس چاہے مختصر مدت کے لیے ہی ہو مگر جب تک رشتہ رہتا ہے، احساس باقی رہتا ہے اور جب تعلق یا رشتہ ختم تو احساس بھی ختم ہوجاتا ہے۔ رشتہ تھا اسی لیے تکلیف ہورہی تھی۔

سب کچھ برا لگ رہا تھا کم یا زیادہ، دونوں طرف دل میں غبار تھا۔

چاہتے ہوئے بھی یہ دھیان جاگتا تھا کہ کہیں کچھ غلط ہورہا ہے۔ یہ مگر احساس ابھی کہیں نہیں تھا کہ غلط کو اگر ٹھیک نہ کیا گیا تو غلط مُہر ثبت ہوجائے گی اور اس کے بعد کچھ نہیں بچتا۔

صرف اور صرف دھواں رہ جاتا ہے درمیان کا۔

٭…٭…٭

Loading

Read Previous

شریکِ حیات قسط ۷

Read Next

شریکِ حیات قسط ۶

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!