شریکِ حیات قسط ۸

اس نے سوچا تھا جتنا زندگی کو آسان سمجھا وہ اتنی ہی پیچیدہ نکلی۔

وہ سمجھ رہا تھا سب ٹھیک ہوجائے گا۔ اس نے اپنا فرض ادا کیا، سندھیا کو سہارا دیا۔

اسے بلوایا، اسے عزت دی اور بیوی کا مقام دیا۔اپنی سی تو ہر کوشش کرکے دیکھ لی۔

دل گو کہ بے چین تھا۔ ایک بار اس سے پوچھنا چاہ رہا تھا کہ کیا مجھ سے، میرے دل سے کبھی تمہارا تعلق نہ بن پایا۔ کیا تمہیں کبھی احساس نہیں ہوا کہ میں نے تمہیں مان دیا، گنجائش دی گھر سجانے کی، بنانے کی، میں اور کیا کرتا؟ جو بن پارہا تھا، وہ بنارہا تھا بلکہ کوشش تو کر رہا تھا۔ مجھے وقت درکار تھا۔ ہوسکتا تھا کبھی آگے چل کر مجھے تم سے وہ والی محبت ہو بھی جاتی۔ جس کی تمنائی تم تھیں۔ تم ایک ساتھ کوئی وقت تو دیتیں۔

مگر ٹھیک ہے میں اب بھی مطمئن ہوں کہ یہ فیصلہ میرا نہیں تمہارا ہے۔

یہ فیصلہ صرف تمہارا ہے اور میں تمہیں نہیں چھوڑ رہا تم جارہی ہو۔

تم نے کہا ہے مجھے طلاق نہیں چاہیے۔

تم اپنے معاشرے کے اندر مظلوم عورت بن کر رہنا چاہتی ہو۔

تم ہمدردی سمیٹنا چاہتی ہو، جو بھی تمہاری سوچ میں ہے، غلط ہے۔

میں پھر بھی چاہوں گا تم اپنے لیے سوچو۔

اور جس دن تم نے اپنے لیے سوچنا شروع کردیا میں تمہیں آزاد کردوں گا۔

کاش میں تم سے یہ سب کہہ سکوں۔

اس نے ایک کاغذ پر لکھ لیا تھا اور سوچا تھا جاتے وقت اسے دے گا یا پھر ضائع کردے گا اور دوسری طرف شیبا تھی جو اس کا انتظار کررہی تھی۔

اس کی ہم مزاج دوست، قدم سے قدم ملا کر چلنے والی، ساتھ دینے والی،بن کہے ہر بات سمجھ جانے والی، وہ جو مجھے چاہتی ہے۔جسے میں نے تمہاری وجہ سے چھوڑا تھا سندھیا، وہ لکھ نہیں پایا سب کچھ۔ اس نے کاغذ مروڑ کر ضائع کر دیا۔ گاڑی اسٹارٹ کردی،جو سائیڈ میں روک رکھی تھی۔ اب روڈ پر آگیا۔ آج اس کی فلائٹ تھی۔

آج رات ابھی کافی وقت تھا۔ اسے گھر پہنچ کر تھوڑا سونا تھا پھر چائے پی کر اسے ساتھ لے کر ائیرپورٹ پر جانا تھا۔

اس نے سوچا تھا ڈنر کہیں باہر سے کروا دے گا۔ ویسے بھی وہ بہت کچھ بنا کر رکھ چکی تھی۔

اس نے پوچھا کہ کیوں بنایا تو کہنے لگی جب تک آپ کو میرے ہاتھ کے کھانے کے بغیر رہنے کی عادت پڑے تب تک تو تکلیف نہ ہو۔

کہنا چاہتا تھا اب یہ ڈرامہ چھوڑ دو حالاں کہ جانتا بھی تھا کہ اسے ڈرامہ کرنا نہیں آتا۔

وہ اب الگ کھانا کھانے لگی تھی۔ کھانے سے لے کر بستر تک الگ ہوگیا تھا۔ سب کچھ الگ تھا۔

اس کے باوجود بھی وہ اس گھر سے خود کو پوری طرح سے نہ مٹا سکی۔

سارنگ کو بھی پتا تھا وہ اسے مس کرے گا۔ اسے فکر رہے گی، اکیلی جارہی ہے۔

سارنگ کہنے لگا: ”جب پہنچ جائو تو فون کرکے ضرور بتا دینا کہ خیریت سے پہنچی ہو۔”

وہ بس مُسکرادی۔ ”میری خیریت کی پرواہ کرنا چھوڑ دیں آپ اب۔” وہ طنز مارنے والی سندھیا تو نہ تھی۔ پھر یہ کیا ہوا، کیوں بدل گئی۔

کہنے لگا۔ ”پہنچ جاؤ تو نہیں کروں گا۔”

اسے مرضی کا جواب ملا تو وہ نکل آیا۔ کام کیا اور ہاسپٹل سے فری ہوکر نکلا تھا۔

آج دماغ کہیں نہیں تھا کام میں، نہ اس میں نہ اپنے آپ میں کہیں نہیں۔ سب کچھ جیسے سمجھ سے باہر نظر آرہا تھا۔

عجیب سا، بہت ہی عجیب سا۔

Loading

Read Previous

شریکِ حیات قسط ۷

Read Next

شریکِ حیات قسط ۶

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!