شریکِ حیات قسط ۸

آج پہلی بار سندھیا گھر کی گرو سری کرنے نکلی۔

وہ کئی مرتبہ گھڑی دیکھتا رہا۔ بستر سے وہیل چیئر پر آگیا تھا۔ وہیل چیئر کمرے سے لاؤنج، لاؤنج سے دروازے تک، پھر کھڑکی تک۔اسے پہلی بار احساس ہوا کہ مرد جب گھر سے جاتا ہے تو عورت کیسے لمحے گن گن کر انتظار کرتی ہے۔ کیسے وہ ایک لمحہ بیتنے میں ہی نہیں آتا۔

انتظار کرتی عورت کیوں بگڑتی ہے؟ دیر سے آنے کا شکوہ کرتی ہے۔ وہ پریشان ہوتا رہا۔

جب وہ آئی تو سانس بحال ہوا۔

”کہاں رہ گئی تھیں تم؟ رستے میں کوئی مشکل تو نہیں ہوئی؟”

”نہیں، نتاشا نے ڈراپ کردیا تھا۔”

وہ گرو سری کرکے لائی تھی۔ اب چیزوں کے لفافے کھول کر نکال رہی تھی۔ اس کی پریشانی پر صرف مسکرا دی۔

”سانس تو لے لو پہلے۔” وہ پریشان ہوا۔

”لے لیا ہے سانس۔ پہلے آپ کے لیے کچھ بنالوں۔ صبح سے کچھ نہیں کھایا آپ نے، دوا بھی تو لینی ہے نا۔”

”وہ تو ٹھیک ہے مگر۔” وہ وہیل چیئر فریج کے پاس لے کر گیا، اس کے لیے پانی لے آیا۔

”میں لے لیتی سارنگ۔” وہ ہنس پڑی

”مجھے پتا تھا تم نے کام میں بھول جانا تھا جب ضرورت ہو تو فوراً پانی پینا چاہیے۔”

”اوہ! میں تو بھول گئی، آپ ڈاکٹر ہیں۔”

وہ ہنس پڑا اس کی بات پر۔ ”میں ڈاکٹر ہوں۔” خود پر ہی ہنسی آنے لگی۔

”کیا ہوگیا آپ کو؟” اسے برُا لگا تھا سارنگ کا یوں خود پر ہنسنا۔

”کچھ نہیں۔ تم کھانا بنا لو۔ میں انتظار کرلیتا ہوں۔ ویسے بھی اب انتظار کے علاوہ میرے پاس رہا ہی کیا ہے؟” تو سندھیا صرف اُسے دیکھ کر رہ گئی۔

دوسرے دن سندھیا اس کے لیے کتابیں لے آئی۔

اس کی من پسند آڈیو سی ڈیز تھیں۔

جن کا شوق بہت پرانا تھا۔ عرصہ ہوا سب بھول چکا تھا۔

وہ اس کے لیے میٹھی روٹی کے لڈو بنانے لگی۔ سارنگ کو یاد تھا کہ پہلے بناتے ہوئے اس کے ہاتھ جلتے تھے۔ اب اُس نے بڑی خاموشی سے بنا دیے تھے۔ وہ اسے بہلا رہی تھی۔ بچوں کی طرح۔

اس کی پسند کے پروگرامز لگا کرٹی وی کھول دیتی۔ وہ چڑ چڑاہٹ کا شکار ہوجاتا۔ گھبرا جاتا، غصہ کرتا، سب سہ لیتی کچھ نہ کہتی۔ وہ اس کے لیے ایک ناسمجھ بچہ بن گیا تھا اور وہ اس کے لاڈ اٹھا رہی تھی۔

وہ حیران ہوجاتا۔ اتنا صبراس میں کہاں سے آگیا ہے۔

لگتا وہ سندھیا کے احسانات تلے دبا جارہا ہے۔

لگتا بوجھ بن کر اس کی زندگی کو ضائع کررہا ہے۔

لگتا بہت جلدی وہ اس خدمت اس چاکری سے بے زار ہونے والی ہے، اندازے کئی تھے اور سوچیں بھی۔ وقت اس کے لیے ایک مشکل پہیلی بن گیا تھا۔

جسے بوجھنا اس کے بس کا کام نہ رہا۔

تبھی جب وہ سوچ سوچ کر تھک جاتا۔

جسم درد کرنے لگتا، اور ذہن نڈھال ہوجاتا۔ دوالے کر تب وہ وہ نیند میں ڈوب جاتا۔

فرار کا ایک راستہ یہی نظر آتا تھا۔ باقی ساری جگہ بے بسی نے لے رکھی تھی۔

٭…٭…٭

Loading

Read Previous

شریکِ حیات قسط ۷

Read Next

شریکِ حیات قسط ۶

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!