شریکِ حیات قسط ۸

اسے کچھ سمجھ نہیں آیا کہ اس کے ساتھ کیا ہوا ہے۔ جب وہ کسی کو نہیں چاہتی تھی تو سب اچھا تھا۔

سب ٹھیک تھا۔

پہلے سارنگ کا زندگی میں آنا،پھر اس کی توجہ، اس کی طرف جانا۔

آہستہ آہستہ اس کی عادی ہونے لگی۔

عادی ہوگئی تو اسے لگا اب اُسے سارنگ سے ہی شادی کرنی چاہیے۔

اور اسے یقین تھا کہ ہو بھی جائے گی۔

ایک لڑکا اور ایک لڑکی جب آپس میں پیار کرنے لگ جائیں تو کہانی تو بنتی ہے نا، زندگی کتنی انوکھی لگتی تھی۔

پھر سارنگ کی زندگی میں سندھیا کا آجانا۔

اس نے خود سے پوچھا اگر محبت نہیں تو دکھ کیوں ہوا۔ چوٹ کیوں آئی؟ فرق کیوں پڑا؟

سب کچھ بے رنگ بے مقصد کیوں لگا۔اتنے گلے شکوے، اتنی شکایتیں کیوں؟

اور پھر جب سارنگ نے منایا تو یک دم دل نرم کیوں ہوگیا،سب بھول تو نہیں گئی مگر نظر انداز کردیا۔

اور اب جب اسے دوبارہ لگا کہ وہ اسے مل جائے گا، زندگی پھر سے سیٹ ہوجائے گی،سب اچھا ہوجائے گا،تو یہ حادثہ اور اتنا خطر ناک حادثہ اسے پتا تھا، وہ ڈاکٹر تھی۔ دیکھ آئی تھی معلوم تھا کہ اس کے چلنے کےً امکانات کم ہیں، پتا تھا کہ اب ناممکن ہے۔

تو وہ کس مرحلے میں آکھڑی تھی۔

اس نے خود سے جی بھر کے ہمدردی کی تب بھی خود سے ہمدردی محسوس نہ ہوئی۔

شہاب نے اس سے پوچھا تھا کہ سارنگ سے ملنے کیوں نہیں گئیں؟

وہ چپ ہوگئی۔ نہ جانے کیوں وہ سارنگ کا سامنا کرنے سے گھبرا رہی تھی۔

انہوں نے پاس بٹھا کر پیار سے کہا:

”دیکھو شیبا! ہمارا نصیب ہمارے ساتھ۔ دوست دوست ہوتا ہے۔ دوستوں کو یوں نہیں چھوڑنا چاہیے۔ یہ وہ وقت ہے جب سارنگ کو تمہاری تسلی کی ضرورت ہے۔”

”اسے جھوٹی تسلی دے دوں؟”

”تسلی جھوٹی ہی سہی پر تسلی ہوتی ہے۔ جب اس کی ضرورت ہو تو اسے استعمال کرنا چاہیے۔ انسان بہت بے بس ہے بیٹا۔ اس کا دل چھوٹا ہے۔ کبھی تھوڑی سی تسلی تھوڑی سی توجہ، تھوڑا سا پیار بھی بہت کچھ کر جاتا ہے۔ آپ کے دوست کو جس قسم کی مدد کی ضرورت ہو اسے وہ دیں بلکہ یہ مدد نہیں یہ حق ہے اس کا۔ میں نے تمہیں پہلے بھی کہا تھا کہ کوئی نیا رشتہ رکھو یا نہیں، دوستی کا رشتہ خود ایک حیثیت رکھتا ہے اور سب سے بڑی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ ہر رشتے میں ڈھل جاتا ہے مگر ہر رشتہ اس میں نہیں ڈھل سکتا۔تم جاؤ اس سے ملو۔”

”کل جاؤں گی۔” انہیں پتا تھا وہ پریشان ہے مگر کچھ پریشانیوں کا حل وقت نکالتا ہے۔

وہ چاہتے تھے یہ اپنی ماں کی طرح صرف اپنے بارے میں ہی نہ سوچتی رہے۔

اسے حقیقتوں کے ساتھ ساتھ بہت کچھ فیس کرنا چاہیے۔

ایک لاڈلے بچے کی یہ کمزوری ہوتی ہے کہ وہ اپنے لیے جیتا ہے اور بچپن سے محبت کی فراوانی اور اہمیت سے اس کا ذہن ایسا بن جاتا ہے کہ دنیا کی ہر اچھی چیز اس کے لیے ہے۔ سمجھوتا کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔

وہ جانتے تھے اتنی باشعور ہونے کے بعد نہ چاہتے ہوئے بھی یہ چیز شیبا کے اندر بھی آگئی ہے۔ وہ اسے نکال نہیں سکتے۔

٭…٭…٭

Loading

Read Previous

شریکِ حیات قسط ۷

Read Next

شریکِ حیات قسط ۶

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!