شریکِ حیات قسط ۸

گوٹھ میں مولابخش کے گھر پر جیسے قیامت ٹوٹی تھی سارنگ کے ایکسیڈنٹ کا سُن کر۔

کوئی صدقہ نہ چھوڑا جو کیا نہیں۔کوئی دعا نہ چھوڑی جو مانگی نہیں۔جیجی کو چُپ لگ گئی تھی۔ سندھیا کی ماں بھی مایوس ہوگئی تھی۔ حسن بخش راتوں کو تکیے پر آنسو بہانے لگا۔ دن میں مرد بن کر پھرتا تھا مگر رات تو رات تھی۔

سارنگ باپ سے گھبراتا تھا، دوچار لفظ فون پر کہہ دیے کہ ٹھیک ہوں ابا سائیں۔

اور ابا سائیں ٹھیک ہوں کہنے کا کیا مطلب تھا،اس کا لہجہ یہ خود بتا رہا تھا۔

آپ پریشان نہ ہوں اور جب اس نے یہ کہا کہ آپ پریشان نہ ہوں تو وہ کہہ کر رو دیا۔ رویا تو بات نہ کرسکا اور فون بند کردیا۔ سارنگ سے کچھ نہ بولا گیا، نہ کہا گیا۔

ایک آنسوؤں کا گولہ اس کے گلے میں بھی اٹکا تھا۔ایک جھوٹی امید کہیں جیسے۔

جیجی نے بڑے دنوں بعد حسن کا سر گود میں رکھ کر کہا۔” امید کا رشتہ اللہ سے رکھ لے۔ حسن بخش حیاتی بڑی اوکھی ہے۔میں نے بڑے دکھ دیکھے ہیں اس میں۔تو اور مولا بخش معصوم تھے جب تیرے ابا چلے گئے، جوانی میں بیوہ ہوئی تھی۔زندگی پہاڑ تھی، پر تم دونوں میری امید تھے بس پھر تجھے اور مولا بخش کو دیکھتی تو جینے لگتی۔ اولاد میں بھی اللہ نے بڑی امید رکھی ہے۔تیری اور مولا بخش کی شادی کرائی تو لگا آدھا پہاڑ سر سے اُتر گیا ہے میرا۔تیرا سارنگ اس کی سندھیا آئی تو جی اٹھی۔یہ زندگی بڑی اچھی بھی ہوتی ہے حسن بخش اور زندگی دینے والا اللہ ہے جو خوشیاں دیتا ہے۔ بچے دیتا ہے، حیاتی دیتا ہے۔اور وہی اللہ اگر جب دکھ دے دے تو ہم اس سے شکوہ کیا کریں؟

بس یہ کہہ کہ رحم فرما، اس سے شکوہ نہیں اچھا۔ شکوہ برابری میں ہوتا ہے  پتر۔ مولا بخش کے یوں جانے کے بعد مجھ سے پوچھ بغیر دل کی خوشی کے جی رہی ہوں۔ سارنگ سندھیا کی شادی نے خوشی کا اک آسرا تو دے دیا ہے۔ حسن بخش سارنگ کی چوٹ نے مجھے بھی توڑ دیا ہے۔ یہ غم تجھ اکیلے کا نہیں ہے۔ دیکھ وہ پردیس میں اکیلا ہے۔ دیکھ سندھیا بھی اکیلی ہے۔ ان کے لیے زیادہ تکلیف ہے۔ دیکھ بڑا مشکل ہے، پر کہنے دے جو ڈاکٹر کہتے ہیں۔

شاہ سائیں (شاہ بھٹائی) کہتے ہیں ایک طبیب اوپر بیٹھا ہے جو سب طبیبوں کا رب ہے اس کو کہہ اور زندگی کا بس یہی اک مقصد بنا کہ اس کا شکر کرنا ہے اور اس سے اچھے کی امید بنا کے رکھ۔ سوچ وہ دن کبھی حیاتی میں آئے جب سارنگ ٹھیک ہوکر ہمارے پاس لوٹ آئے سندھیا کے ساتھ۔ اس ایک دن کی آس میں جی اب۔

رومت میرا پتر۔ یہ آس بھی بڑی چنگی شہ ہوتی ہے، فکریں ایک طرف، یہ آس ایک طرف۔”

جیجی ماں کی باتیں سن کر بچوں کی طرح ایسے سوگیا جیسے بچپن میں کہانی سنتے ہوئے سوجاتا تھا۔

٭…٭…٭

Loading

Read Previous

شریکِ حیات قسط ۷

Read Next

شریکِ حیات قسط ۶

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!