شریکِ حیات قسط ۸

سارنگ کی سال گرہ تھی، سندھیا نے کمرہ سجایا تھا ۔اس کے لیے ایک خوب صورت کیک منگایا تھا۔

وہ لاشعوری طور پر انتظار کرتا رہا کسی کا۔ سندھیا نے اسے کیک کاٹنے کے لیے کہا۔

اس نے کیک کاٹا، سپاٹ چہرے پر کچھ نہ تھا۔

کوئی سایہ نہ تھا، کوئی خوشی نہ تھی۔

ابا جی نے فون کیا۔ سوہائی، جیجی سب نے مبارک دی، سبھاگی نے دعا دی۔

وہ بس شکریہ ادا کرتا رہا۔

فون بند ہونے کے بعد وہ آئی تو اس سے رہا نہ گیا۔”کیا آپ کے لیے وہ سارے رشتے بے مقصد اور بے معنی ہیں سارنگ، وہ جو ہمارے لیے جیتے ہیں۔”

”وہ جو آپ کو اچھا دیکھنے کی آس میں عمر کاٹ رہے ہیں، وہ جنہوں نے ایک عمر آپ کے لیے جی ہے؟ کیا ان کا ساتھ، ان کا دیا گیا حوصلہ،ان کی چاہ اور خواہش کوئی حیثیت نہیں رکھتی؟”کیا کہنا چاہ رہی تھی وہ؟ سارنگ  سننے لگا۔

”کیا شیبا کی وجہ سے آپ اداس ہیں؟” 

”اُس کا ذکر کہا ں سے آگیا سندھیا؟”

”اس کا ذکر آجاتا ہے سارنگ۔ ہرجگہ، ہر وقت کہتے نہ کہتے، سب جگہ وہ آجاتی ہے۔”

”کیوں؟ اور کس لیے؟”

وہیل چیئر آگے بڑھا کر کمرے میں لے گیا۔ اب وہ والا سارنگ نہیں رہا تھا کہ ہر سوال کا جواب دینا ضروری سمجھے، یا پھر دے سکے۔

سارنگ تھکا، سارنگ بے دل، سارنگ بے بس مایوس اور الجھا سارنگ۔

سندھیا کا دل روتا تھا اس کی بے ہمتی پر، نا امیدی پر، بے چارگی پر اور بے وفائی پر۔

٭…٭…٭

Loading

Read Previous

شریکِ حیات قسط ۷

Read Next

شریکِ حیات قسط ۶

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!