شریکِ حیات قسط ۸

سبھاگی کو فکریں کمزور کررہیں تھیں۔نوالہ لیتے لیتے سوچ میںڈوب جاتی تھی۔

سندھیا پردیس میں اکیلی۔نہ شوہر کا سر پہ ہاتھ، نہ کوئی تسلی، دلاسہ، نہ امید۔ اکیلی پردیس میں سب جھیل رہی ہے۔

سوہائی کی ہنسی بجتی نہ تھی۔ دن رات سندھیا کی فکر، سندھیا کی بات اور سارنگ کے لیے دعا۔

جیجی نے اس کا رشتہ طے کردیا تھا مگر وہ شادی کرنے کے لیے قطعاً تیار نہ تھی۔کہتی تھی کروں گی تو سندھیا کے آنے کے بعد۔سندھیا کی موجودگی میں۔کتنا کچھ اس کے انتظار میں رکھا تھا۔

وہ خود جو انتظار کی سولی پہ لٹکی تھی۔اس پر سارنگ تھا کہ ہمت ہی نہیں پکڑتا تھا۔ڈاکٹرز نے کہا تھا اسے کوئی معجزہ ہی بحال کرسکتا ہے یا اس کی ول پاور۔

وہ کتنی کوشش کرتی رہی اسے جگانے کی، حوصلہ دلانے کی۔گاؤں کی تصویر میں منظر نکال کر بیٹھ جاتی۔

”سارنگ آپ ٹھیک ہوجائیں تو چلیں گے۔”

اس کے اندر خواب جگانے کی ہر ممکن کوشش کرکے دیکھ لی اس نے۔

وہ سمجھتا تھا تھک جائے گی، تھک تو جاتی تھی مگر پھر سے ہمت جمع کرنے بیٹھ جاتی۔

مصّلہ پکڑتی تو دیر تک اس پر بیٹھی رہتی۔

سارنگ سوچتا اللہ جانے کیا کیا مانگتی رہتی ہے۔ اس کی دعائیں تو ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتیں مگر یہ تو صرف اسے پتا تھا کہ وہ کیا مانگتی تھی۔ اتنے عرصے میں مانگا تو بس یہی کہ وہ ٹھیک ہوجائے اس کی زندگی، اس کی صحت۔

محبت کو تو وہ کہیں بہت پیچھے چھوڑ کر آگئی تھی۔ زندگی ایک ہی مرکز پر آکر رُک گئی۔

اس نے سوچنا بھی گوارا نہ کیا کہ میں تو خود کو بھی کہیں رکھ کر بھول گئی ہوں۔

دریافت بھی رُک گئی تھی۔ زندگی کس قدر طویل اور سخت لگتے لگی تھی۔

کھلی کھڑکی سے سرد موسم کے تھپیڑوں کی ہوا نے چہرہ برف کردیا تھا۔ دسمبر کہتے ہیں بچھڑنے کاموسم ہوتا ہے۔ آنکھوں کی جھلملاہٹ میں سارے منظر دُھند بھرے تھے۔

اس نے کہا۔ ”سب یاد رکھوں گی تمہارا گھر، تم لوگ، اور ساری بے وفائیاں۔”

”اس بار آپ مجھے ڈنر پر نہیں لے جارہے سارنگ؟”

”پچھلی بار لے کر گئے تھے، اس بار آپ نے تحفہ نہیں دیا مجھے۔ پچھلی بار دیا تھا۔”

”پچھلی بار سے بہت کچھ مختلف ہے اس بار۔” وہ اس سے ایک آدھ تو شکوہ کرنا چاہتا تھا۔

تم مجھے اندھیروں سے نکال کر پھر سے اندھیرے میں پھینک رہی ہو۔ سارنگ نے یہ نہ کہا بس یہ کہہ دیا۔ 

”تم نے کہا تھا تم مجھے گرنے نہیں دوگی سندھیا۔ تم نے کہا تھا تم مجھے سنبھال لو گی۔”

”آپ اب نہیں گریں گے سارنگ۔ آپ ٹھیک ہوچکے ہیں۔”

اس نے جس دن بے ساکھی کے ساتھ زمین پر پہلا قدم رکھا تھا سندھیا کی آنکھوں میں خوشی سے آنسو آگئے۔ اس کے بے ساکھی سے لے کر آہستہ آہستہ دیوار کو پکڑ کر قدم اٹھانے پر اس نے شکرانے کے نفل پڑھے۔

وہ ایسے پرُجوش تھی جیسے کوئی بچہ پہلی بار دھرتی پر قدم رکھتا ہے اور تھا بھی تو اسی طرح، اتنی جان لیوا مشقت کے بعد یہ دن آیا تھا۔یہ اس کے گھر کی مشرقی عورت، صبرو تحمل کرنے والی یہ یہاں آکر بھی نہ بدلی۔ وہی ہمت، وہی سچائی، وہی وفا۔

وہ اس کا معترف تو ہوگیا تھا۔اس کی وفا کا، اس کی سچائی کا۔

سب تھا، بس ایک محبت بیچ سے کہیں نکل گئی تھی اور دور جاکر کھڑی تھی۔

جانتی نہ تھی، نام نہ لیتی، پہچانتی نہ تھی اور پوچھتی نہ تھی۔اس قدر جو انجان تھی۔

وہ دونوں مل جل کر کام کرنے لگے تھے۔

وہ لاکھ اُسے ٹوکتی سمجھاتی کہ ابھی آپ نے چلنا شروع کیا ہے، ابھی کچھ عرصہ رہنے دیں مگر وہ کہاں مانتا تھا؟بیچ میں سے کئی صدیاں پھلانگ گئی تھیں۔ سندھیا اور سارنگ جیسے ہمیشہ سے ساتھی تھے۔ ہمیشہ سے دوست اور وہ اب کہہ رہی تھی کہ میری ٹکٹ کرادیں۔

وہ کیا کہتا اسے، چپ ہوگیا یہ کہہ کر کہ کرادوں گا۔

نتاشا اور وسیم کسی اور شہر میں شفٹ ہوگئے تھے وہ اکیلی تھی۔ سارنگ کو اس کا اور اسے سارنگ کا ہی سہارا تھااور اب اسے لگ رہا تھا وہ پھر سے اکیلا ہورہا ہے۔

”تو تم نے واقعی جانے کا فیصلہ کرلیا ہے۔”

”سارنگ گوٹھ میں سب ترس رہے ہیں۔ اماں بیمار ہوجاتی ہیں مجھے یاد کرکرکے۔ مجھے سب یاد آرہے ہیں۔”

”آپ کا ہسپتال نیا نیا شروع ہوا ہے پھر آپ کو ابھی ٹریٹمنٹ کی ضرورت ہے مگر میں تو جاسکتی ہوں نا۔”

”ٹھیک ہے میں کروا دیتا ہوں ٹکٹ۔”

وہ اپنے چھوٹے موٹے کام خود کرنے لگا تھا۔سندھیا اب اسے ٹوکتی نہیں تھی۔

سارنگ نے اُس سے شکوہ کردیا۔ ”تم اب مجھے ڈانٹتی نہیں ہو۔” وہ ہنس پڑی۔

”اس لیے کہ آپ کو عادت ہونی چاہیے۔آپ کو میرے جانے کے بعد کوئی مسئلہ نہ ہو۔”

”پریکٹس کروا رہی ہو تم میری، چلو اچھا ہے۔”

وہ بازار سے ڈھیر ساری خریداری کرکے آیا تھا سب کے لیے۔ اتنی ساری چیزیں؟ سارنگ کو کیا ہوگیا ہے۔

”سندھیا یہ سب کے لیے، سب خوش ہوں گے۔ انہیں کہنا میں بھی انہیں بہت یاد کرتا ہوں۔ انہیں کہنا مجھے بھی ضرورت ہے ان کی اور انہیں کہنا میں چکر لگاؤں گا۔”

”سارنگ! آپ اکیلے مت رہیے گا، آپ شادی کرلیجیے گا۔ ویسے بھی آپ یہاں سیٹ ہوگئے ہیں، میں چاہتی ہوں مکمل طور پر سیٹ ہوجائیں۔”

وہ اس کی بات کا کوئی جواب نہ دے سکا۔

”تم کہو گی تو کیا میں شادی کرلوں گا؟ایک ناکام شادی کے بعد وہی کام دوبارہ کرنا بے وقوفی ہوتی ہے۔ میرے دل میں اب کچھ نہیں ہے۔”

”وہ تو لگتا ہے۔” وہ پیکنگ کرتے ہوئے بولی۔

اس نے سر اُٹھا کر دیکھا۔

”میں سوچ رہا ہوں اپارٹمنٹ تبدیل کرلوں۔”

”کس لیے؟”

”چھوٹے اپارٹمنٹ میں گزارا ہوسکتا ہے میرا۔ تمہارے بعد میں اکیلا اتنے بڑے گھر کا کیا کروں گا۔ کسی چھوٹے سے اپارٹمنٹ میں شفٹ ہوجاؤں گا تو چیزوں کو مینج کرنا آسان ہوجائے گا۔”

وہ دونوں ایک ساتھ پیکنگ کرتے رہے۔ سب کچھ سندھیا کے کھاتے میں ڈال دیا تھا۔

اپنے لیے صرف اپنی چیزیں، ضرورت کی چیزیں۔ ایک تو اس کی ہدایتیں ختم نہیں ہورہی تھیں۔

”سارنگ اپنا خیال رکھیے گا۔”

”سندھیا تم بھی اپنا خیال رکھنا۔”

”سارنگ پلیز۔ سمجھنے کی کوشش کریں۔”

”سندھیا پلیز۔ تم بھی سمجھنے کی کوشش کرو۔”

وہ اس بچگانہ گفت گو پر بس مسکراتی رہ گئی۔ صرف یہ سوچ کر تسلی تھی کہ اس بار وہ خوشی خوشی جارہی تھی۔ اُن کے درمیان کوئی جھگڑا نہ تھا۔ کوئی شکوہ نہ تھا مگر اس کے باوجود بھی دل خالی کیوں تھا۔

گھر سے لے کر ائیر پورٹ۔

ائیر پورٹ سے لے کر اڑن کھٹولے تک جسے سب ہوائی جہاز کہتے ہیں۔ سارنگ اُسے ائیروپلین کہتا تھا۔سندھیا کو ابّا کی بات یاد آجاتی تھی، اُڑن کھٹولے والی اڑن کھٹولے میں بیٹھے گی۔

”میری سندھیا، سندھیا رانی، شہزادی بنے گی۔ اڑ جائے گی۔”

وہ بس نم آنکھوں سے مُسکرا دیتی تھی۔

نم آنکھیں اور مُسکراہٹ۔

شیبا کے لیے فرح نے اپنی دوست کا بیٹا دیکھا تھا۔وہ ویسا ہی تھا ان کے معیار پر اُترتا ہوا۔وہ زیادہ خوش نہیں مگر مطمئن ہوگئی تھی۔

لاڈ اٹھانے والا، نخرے اُٹھانے والا، سب کچھ چھوڑ کر آنے والا،اُس نے یہاں اپنا بزنس سیٹ کرلینا تھا۔

اس نے سادگی سے شادی کرلی تھی۔سارنگ کو اطلاع تک نہ کی، حوصلہ ہی نہ تھا۔ 

اور پھر اس نے بہت دنوں بعد دور سے سارنگ کو دیکھا،بے ساکھی کے سہارے چلتے ہوئے۔ دوسری جانب سندھیا نے ہاتھ تھام رکھا تھا۔

تو سارنگ تم میرے نصیب میں ہی نہ تھے۔ تو میرا اور تمہارا ساتھ بس اتنا ہی تھا۔ وہ یہ کہ کر خود کو مطمئن کررہی تھی۔

وہ اور کیا کہتی ،کچھ حقیقتیں تسلیم کرنا بزدلی ہوتی ہے۔ وہ بزدل ہی تھی۔

اسے پرفیکشن چاہیے تھی۔ وہ پرفیکشن کی عادی تھی۔ ایسے کئی لوگ ہوتے ہیں دنیا میں، جو کسی کے دکھ کے ساتھ بننے کا ظرف نہیں رکھتے۔ وہ بس اپنے لیے سوچتے ہیں اور اپنے لیے ہی جینا چاہتے ہیں۔

ایسے لوگوں کے ساتھ زندگی اگر تھوڑی سی بھی گیم کر جائے تو یہ لوگ زندگی سے ہمیشہ شکوہ کناں رہتے ہیں اور سب کچھ حالات پر ڈال کر اپنے کندھے سے سارے بوجھ اتار کر پھینک دیتے ہیں۔

شیبا نے بھی یہی کیا تھا اور وہ اپنی نظر میں مطمئن تھی۔

مگر اس کے باوجود بھی دل بے قرار ہوجاتا تھا کبھی کبھار دل اتنا خوشی سے اُچھلتا نہ تھا۔

اس لیے کہ وہ مکمل طور پر کہنا نہیں مانتا۔ جہاں غلط ہوا ہو، وہاں تھوڑا دھیما ہوجاتا ہے۔ لیکن اپنی رفتار روکتا نہیں۔ وہ اس منظر سے ہٹ گئی تھی۔ دل مگر کچھ لمحوں کے لیے دھیما ہوا وہ تو ہونا ہی تھا۔ وہ تو ہونا ہی تھا۔

٭…٭…٭

Loading

Read Previous

شریکِ حیات قسط ۷

Read Next

شریکِ حیات قسط ۶

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!