کہتے ہیں جب نوالہ منہ تک جانے سے پہلے چھوٹ جائے تو سمجھو آج کے نصیب میں کسی اور کا بھی نوالہ بنتا ہے۔ بلی جب زبان سے چہرہ چاٹے تو سمجھو مہمان آنے والا ہے۔ انسانوں نے اپنی زندگی میں کارگزاری کے عجیب عجیب اشارے، کنایے، پہیلیاں اور گھوڑلیاں بنا رکھی ہیں۔

جیجی کو یقین تھا کوئی نہ کوئی آئے گا۔مہمان سے تو یہ گھر کبھی نہ اُکتایا تھا۔

”خیر سے سبھاگی آج ہانڈی سے ایک آدھ شخض کی دال نکال کر رکھ، کوئی مہمان آئے گا آج دیکھنا۔بلی صبح سے منہ چاٹ رہی ہے اور اب تک تین نوالے ہاتھ سے چھوٹ کر گرے ہیں۔” سبھاگی کو پہلے ہی اندازہ تھااسی لیے سالن خود ہی دو تین لوگوں کا اضافی بن گیا تھا۔ ”جیجی! ڈونگا بھر کر نکال رکھا ہے، ایک نہیں لگتا ہے دو تین لوگ آئیںگے۔”

اسی وقت باہر گاڑی رکنے کی آواز آئی۔ سوہائی نے کہا: ”لو جی لگتا ہے مہمان آگئے۔” دروازے پر دستک ہوئی توسوہائی برا سا منہ بناکر اٹھی۔

”چھوری مہمان اللہ سائیں کی رحمت ہوتے ہیں۔ دروازے پر دستک ہوئی اور تیرا منہ بن گیا۔ سیدھی ہو کے جا،دروازہ کھول۔” دروازہ کھولا توسامنے بھرائی پھپھو دو عورتوں کے ساتھ کھڑی تھیں جو دروازے سے اندر آئیں۔بھرائی پھپھو یا تو طوفان لاتی ہیں یاتب آتی ہیں جب کوئی طوفان آیا ہوا ہو۔یہ سندھیا کہتی تھی اور اس کا کہنا سچ ثابت ہوتا مگر اس بار جیجی کو کچھ الگ لگ رہا تھا۔ خیر سے دو عورتیں اپنے ساتھ لائی ہیں۔ اللہ خیر رکھے۔ ”خیر ہی ہے نا بھرائی۔”

”پھپھو اس بار باڈی گارڈ لے آئیں ہیں ساتھ۔” سندھیا ان سے مل کر اپنی ہنسی دباتے اندر چلی گئی۔پھپھو نظروں میں ہی اس پر واری جارہی تھی۔ خوب بلائیں لی جارہی تھیں۔

خیر سے آج بھرائی کو کیا ہوا ہے۔ سبھاگی نے سوچا اور کھلا تب جب اس نے لمبی تمہید باندھنی شروع کی۔

”جیجی صادق تمہارا بچہ ہے۔ گھر کا بچہ ہے۔ خوب صورت ہے شکل صورت سے بھی اور سیرت بھی سامنے ہے۔” جیجی کہتے کہتے رُک گئیں صرف سوچ کر رہ گئیں تو صادق کی تعریفیں کیوں کررہی ہے،کیا ہم اس کے کرتوت نہیں جانتے۔ کسی نئے کے سامنے جاکر مالا جپ،مگر سبھاگی کو کچھ نیا لگا۔

”ادی بھرائی! وہ تو ٹھیک ہے، مگر پتے کی گالھ کر،خیر ہے نا؟ یہ صادق کی صفائی تو ہمارے سامنے کیوں پیش کررہی ہے”۔ ”ادی صفائی کتھے،میں تو بات کررہی ہوں۔” لو جی اب باری آئی سندھیا کی تو پھوپھو بھرائی نے اس کا ذکر چھیڑ دیا۔

”اپنی سندھیا تو بہت پیاری ہو گئی ہے۔”

سوہائی کو کچھ عجیب سا لگا۔ یہ آج سندھو کی تعریفیں کس خوشی میں پھر اس طرح کہ مجھے تو بڑی پیاری لگتی ہے، اس کے سوا کوئی ٹکتا کہاں ہے نظر میں۔ میں کہوں ہوگی اس گوٹھ میں کوئی اس جیسی سانوری سجیلی، تحمل بھری۔

یہ بھرائی آج سٹھیاگئی ہے کیا؟کیسی باتیں کر رہی ہے؟جیجی کو پکا پکا شک تھا۔ کچھ غلط سلط کر کے تو نہیں آگئی؟ یہ تو نہیں کہ صادق نے کوئی نشے کی شے کھانے میں ملا کر دے دی ہو یا پھر کھانسی کا شربت پی آئی ہے، جس کی غنودگی تجھ پر چڑھ گئی ہے۔

”دن میں نیند کی گولیاں تو نہیں لینے لگی؟”تب بھرائی کو ہنسی کا دورہ پڑگیااور ان کا شک یقین میں بدل گیا۔ عورتیں منجی پر بیٹھیں ایک دوسرے کی طرف دیکھ کر کھلکھلائیں۔سبھاگی کی حسرت حیرت میں بدل گئی۔

”ادی بھرائی ہوش کر۔ ہوا کیا ہے؟”ذہنی توازن پر شک ہو چلااور سانپ سونگھ گیا جب بھرائی نے دامن پھیلا دیااسی وقت بھامولابخش آگئے۔بھرائی جھک کر ملی، بھانے سر پر ہاتھ پھیرا۔

”چھاحال آ ادی؟”(کیا حال ہیں بہن؟)سبھاگی نے آنکھوں ہی آنکھوں میں مولا بخش کو جتلایا خیر نہیں ہے میاں۔ وہ بہن کے سامنے بیٹھ گیا۔بھرائی اٹھی پہلے پوتی اتاری اور بھاکے قدموں میں ڈال دی۔

”ادی،ادی خیر ہے نا؟کیا ہوا ہے؟” اس نے پوتی اٹھائی۔

”بھاجواب نہ ڈیں، انکار نہ کریں۔ بڑا دل لے کر آئی ہے ادی تیرے پاس۔مجھے صادق کے لیے سندھیا دے دے۔” بات ایسے منہ سے نکلی جیسے تیرکمان سے نکلتا ہے۔

سوہائی نے کمرے کی طرف دوڑلگادی۔وہ زیادہ دیر تک سوچتی نہیںتھی، ادھر سنتی ادھر اُگل دیتی۔

مولابخش نے حواس بحال کیے اور چادر اٹھا کر بہن کے سر پر ڈالی۔

”مجھے ذرا وقت دے ادی بھرائی۔ ایسے کیسے؟ اتنی جلدی؟” مولا بخش بوکھلایا ہوا تھا۔

سبھاگی کا بس نہ چلتا شکرانے کے نفل پڑھنے شروع ہوجاتی اگر ہاں ہوجاتی۔میاں کو اشارا کیا کہ ہاں کہہ دے۔ جیجی کو چپ لگ گئی۔ پہلا رشتہ ٹھکرانے کے بعد یہ دوسرا بہت غنیمت تھا۔تھا بھی اپنا، حرج تو کوئی نہ تھا۔بھرائی نے دو دن کا وقت دیا اور کھانا کھاکر شام تک نکل گئی۔

Loading

Read Previous

شریکِ حیات أ قسط ۱

Read Next

شریکِ حیات قسط ۳

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!