دیکھ یار انکار ضد کو جنم دیتا ہے، بحث پہ بات آجاتی ہے۔بحث دلوں کو خراب کرتی ہے اور رشتوں کا حسن خراب ہوتا ہے۔ماں پیو اولاد کا رستہ ہوتے ہیں۔ جب ماں پیو بند بن جائیں تو مسئلہ ہوجاتا ہے۔ ماں پیو خود ہی جوان اولاد کو باغی کردیتے ہیں۔تو ہاں کر۔ وہ تیرا ممنون ہوجائے گا، احسان مند رہے گا۔ ورنہ کیا ہوگا،اس کا دل مرجائے گا اور ہمارے ہاتھ کچھ نہیں آنا۔ اسے جانے دے بھائو۔ جانے دے اسے۔” یہ کہاں ممکن تھا کہ مولابخش کسی کو سمجھائے اور وہ سمجھ نہ پائے،وہ بات ہی ایسی کرتا تھا سامنے والا زیر ہو جائے۔

دل چاہے آمادہ نہ ہو، مگر عقل اس کی دلیل کو مانتی تھی۔ رات کے پچھلے پہر وہ سارنگ کے کمرے میں آئے تھے اور اسے کہا:”ٹھیک ہے تم چلے جانا، مگراپنے گھر والوں کو کبھی مت بھولنا۔سنا ہے جو باہر جاتا ہے اپنوں کو بھول جاتا ہے۔پیچھے کی دنیا اندھیری ہوجاتی ہے، آگے کے رنگ گہرے ہو جاتے ہیں۔”

”باہر کی دنیا میں چاہے جتنے بھی رنگ ہوں ابا سائیں، مگر آپ کو اپنے رنگوں پر اعتبار ہونا چاہیے۔ آپ فکر نہ کریں۔ مجھے اگر مستقل رہائش کہیں رکھنی ہوتی تو میں شہر شفٹ ہوجاتا۔ مجھے واپس آنا ہے یہاں لوٹ کر، مگر کچھ بن کر، کچھ کام کرکے، کچھ سیکھ کر میں لوٹنا چاہتا ہوں۔ اس کے لیے مجھے وقت اور آپ سب کا اعتبار چاہیے جو ہمیشہ میرے ساتھ رہا اور پھر یہ سب میں آپ سب کے لیے ہی تو کررہا ہوں۔”

”جیتا رہ سارنگ۔ مگر دل بڑا بے چین ہے، مان کے نہیں دے رہا۔ وہ تو تیرا چاچا خدا جانے کیسے سب کچھ سہ لیتا ہے۔کہتا ہے انتظار کریںگے، معلوم بھی ہے انتظار بڑا کٹھن ہوتا ہے اور یہ بھی کے انتظار کرکے تھک رہے ہیں۔ پکا ہوا پھل کھانے کی آس میں کب سے بیج کو پانی دے رہے ہیں اب پکے پکائے میں پھر سے بیج چھڑک دیںاور فصل کو اگلے سال پر رکھ دیں، یہ جانے بغیر کہ فصل پہلے سے زیادہ پکی ہوگی یا پھر پرانا بیج بھی کھاجائے گی۔”

” اگر بات صرف فصل کی ہوتی ابا سائیں تو یہ شک مجھے بھی تھا۔ بات ہاری کی ہے، ہاری محنت کش ہو تو اس سال نہیں، اگلے سال، اگلے سال بھی نہیں تو اس سے اگلے سال۔ اگر تب بھی نہیں تو اس سے اگلے برس تو فصل پھوٹے گی اور پودے نکالے گی۔ ہاری کی محنت کبھی ضائع نہیں جاتی۔” وہ بھی اپنے چاچے کا بھتیجا تھا۔ فصل سے ہاری پر آگیا۔” ہاری میں نہیں ہوں۔ ہاری آپ ہیں ابا سائیں۔ ہاری چاچا سائیں ہیں،میں تو بیج ہوں۔مجھے آپ کی ضرورت ہے، آپ کے اعتبار کی بھروسے کی۔”

”سارنگ تجھے تو بولنا آگیا ہے۔ سچ کہتی ہے سبھاگی کہ چاچے کی پٹیاں پڑھ کر گھول کر پی گیا ہے تو۔”

کہتے ہیں آسمان جب دھرتی سے راضی ہوتا ہے تو بارش برساتا ہے اور بارش برسی تھی، سارنگ برسا تھا۔ مسجد کے کچے صحن کو جب برسات دھورہی تھی اور ساتھ بنی رہائشی کوٹھری جس میں مولوی صاحب ٹھہرتے تھے۔ مولوی صاحب کے سارنگ کو بلاکر لمبی کچہری کے ارادے تھے۔

جب ہی اسے دیکھتے ہی کہا:”دیکھ سارنگ تیرے آتے ہی بارش آگئی تو بھی پکا سارنگ ہے۔ بھٹائی کا سُر سارنگ یاد آیا، کہتے ہیں خوشحالی کا دوسرا نام ہے، کہتے ہیں بارش سے پہلے کی میگھ ملہاری اور بعد کی ہریالی کو سارنگ کہتے ہیں۔ سارنگ نام کے اٹھہتر(٧٨)معنی۔ سن سارنگ! بھٹائی کے سُر تونے پڑھے یا ڈاکٹری کورس کی کتابیں ہی چاٹتا رہا ہے۔

اسے فکر تھی مسجد کے صحن کی کچی اینٹیں نہ اکھڑجائیں جو برسات کے ریلے کے زور سے جب پانی اوپر چڑھتا تھا تو صاف نظر آتی تھیں جب عمارت بن جائے تو بنیادیں پکی کرتے رہنا چاہیے،لیپی دینی چاہیے۔

سالوں سے صحن کی اینٹوں کو لیپ نہیں ہوا، اینٹیں تو اکھڑیںگی۔ مولوی صاحب سارنگ کی فکر جانتے تھے۔

”بنیاد پکی رکھنا سارنگ مگر لیپی کرتے رہنا۔”

وہ کہہ رہے تھے، وہ اپنی سمجھ کے مطابق سرہلا رہا تھا۔ کہتے ہیں جب بندہ سمجھ دار ہوتا ہے تو اپنی سمجھ کے مطابق چلتا ہے۔

”بڑی محنت کی ہے مولوی صاحب، بنیادیں تو پکی ہیں مگر ٹھیک کہتے ہیں کہ لیپی کی ضرورت ہے ورنہ اینٹیں اکھڑنہ جائیں۔”

”او کھوتے جا پٹ (کھوتے کے بچے) تو سنا ہے پھر باہر جانے کے لیے پرتول رہا ہے۔”

سارنگ نے جواب نہیں دیا، معلوم تھا مولوی صاحب غصہ ہوںگے۔

”سائیں! یہی کرنے تو جانا ہے نا، ایک اور لیپ چاہیے۔”

” او تو سارنگ اپنے چاچے کی طرح میری بلی مجھ ہی کو میائوں، دوسرے کی گلھ بار پکڑ کر اسی میں جواب دیتا ہے۔”

”بڑے گر سکھائے ہیں تجھے مولابخش نے۔” 

” چاچے نے سکھائے نہیں بس بتادیے۔”

بچے کو اگر سچ میں کچھ سکھانا چاہتے ہو تو یہ نہ کہو کہ کرو، بس بتادو کہ ایسے کیا جاتا ہے یا کرکے دکھادو تو کرنے لگ جائے گا۔

Loading

Read Previous

شریکِ حیات أ قسط ۱

Read Next

شریکِ حیات قسط ۳

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!