صبح سویرے کمرے کی ادھ کھلی کھڑکیوں سے روشنی ٹکرا کر لکیر کی طرح میلے اندھیرے میں چراغاں کردیتی، روشنی کے ساتھ پرندوں کی چہکار زندگی میں رنگ بھردیتی، جیسے اس کے منتظر تھے سب۔

وہی اماں کا رضائی کھینچنا۔”اٹھ جا سندھو۔ اٹھ ہوش کے ناخن لے، نماز تو تجھ پہ جیسے واجب ہی نہیں ہے فجر کی، ارے تو کیوں سیدوں کے گھر پیدا ہوگئی۔”

”اماں نماز سیدوں کی نہیں سب مسلمانوں کی ہے۔” سندھو مرجائے اگر چپ رہے ایسا ممکن نہ تھا۔

”زبان تیری چھری کی دھار اور لہجہ تلوار۔ کبھی تو ماں کے سامنے ہتھیار پھینک دیا کر دھی۔”

اس کے منہ بسور کر اٹھنے سے لے کر چائے کی پیالی تک پھر یہ موا رسالہ۔ ایک ہاتھ میں چائے تو دوسرے میں پرچہ۔ ”ہائے یہ لت کہاں سے لگی اسے۔” ماں کوس کوس کر نڈھال ہوجاتی۔ 

سارنگ نے اخباروں کے دستے کے اوپر رکھے تازہ اخبار کھنگالتے ہوئے سوچا۔

ان چار سالوں میں کچھ بھی تو نہیں بدلا۔

یہ تو کل کا اخبار ہے۔ ابا تو شاید پرسوں کا کھنگال رہے تھے اور جیجی صبح صبح پارہ پڑھتی تھیں۔ بات چیت منع مگر نظروں ہی نظروں میں جائزے سب لیے جاتے تھے۔ یہاں سبزی، بھاجی تازہ نہیں ملتی اور تو اخبار کی بات کرتا ہے۔

کل کالا یا ساگ، سبھاگی صبح سویرے منجھی پر بیٹھ کر پتا پتا صاف کررہی تھیں۔ لہجہ بے زار تھا۔

ادھر سوہائی صحن کی صفائی کرتے ہوئے چار مرتبہ وقفہ لیتی اور اس دوران کمر پر ایسے ہاتھ رکھتی جیسے دوہری ہوچکی ہو۔

”گز بھر صحن ہے اور چھوری ادھ موئی ہوجاتی ہے ایک دفعہ کی جھاڑو پھیرتے ہی۔جا سندھیا، جاکر پکڑ لے اس سے، ذرا پھیرلے۔کمر کس لے تو بھی،بیٹھے بیٹھے وزن چڑھاتی جائے گی۔” اماں کی تنقیدی نظریں تھیں یا بندوق کی گولیاں۔وہ جھلا کر اُٹھی، آدھی چائے کی پیالی باورچی خانے میں چولہے کے پاس پٹخی۔

”میں جھاڑو لگائوں تو پھر گھر کے برتن کون دھوئے گا۔”

اچھا بہانا تھا۔ جھلاتی، بڑبڑاتی ہلکی آواز میں ریڈیو لگاتی برتن دھونے لگی۔

”تجھے ایک برتن دھونے کے لیے بھلی دھل (ڈھول) چاہئیں۔ چابی والی گڑیا ہے کیا جو گیتوں پر تھرکتی ہے۔” اماں تلملاتیں۔

سارنگ کہنا چاہتا تھا کہ اماں کبھی دیکھی ہے آپ نے ”چابی والی گڑیا” مگر اس نے مسکرا کر موضوع بدلا۔

”یہ آخر چاچا سائیں صبح صبح کہاں چلے گئے ہیں چاچی ماں۔” 

”لگتا ہے صبح صبح بھرجائی نے میرے بھا کو تازہ پالک لینے بھیجا ہے۔” حسن بخش نے چار دن کے اخبار کھنگال لیے تھے۔

جیجی نے قرآن پاک ایک طرف رکھا،چہرے پر ہاتھ پھیرے اور چاروں طرف پھونک ماری۔ ”رب کے کلام کی تاثیر ہے۔ شر شیطان دفع ہوگا۔”

”آج کل سب سے بڑا شر تو خود انسان ہے۔” حسن بخش بولا۔

”توبہ کر حسن بخش اللہ سے معافی مانگ، شر نہ مانگ۔ ”

”مانگنے کی کہاں کہی جیجی ماں۔ شر تو اندر ہی بھرا ہوا ہے۔”

”سارا کمال سوچ کا ہے۔ ابا سائیں کہتے ہیں انسان اندر سے بڑا ستھرا ہے۔یہ تو گناہ اسے میل چڑھاتے ہیں۔” ابا سائیں کی بیٹی تھی سندھیا ،اس لیے اس نے بھی چوکی پر ٹاکی پھیرتے ہوئے مداخلت کی۔

Loading

Read Previous

شریکِ حیات أ قسط ۱

Read Next

شریکِ حیات قسط ۳

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!