”یہ تیرا ابا سائیں گیا کہاں ہے آج صبح سویرے سویرے۔”

”اتا نہ پتا۔ اللہ جانے کہاں کہاں نکل جاتے ہیں میاں۔” میاں کو یاد کرو اور میاں نہ پہنچے یہ تو کبھی کبھارہی ہوا تھا۔ اسی وقت دروازے پر پڑا کڑابج اٹھا۔

”او دیکھ لے ذرا دودھ والا برتن لینے آیا ہوگا ملہار۔”

”مولابخش آیا ہے سبھاگی۔ حیاتی ساتھ گذار دی مگر شوہر کے ہاتھ کی دستک نہیں سمجھی تونے۔”

جیجی نے چشمہ اتارا،رحل بند کیا، تخت سے اتریںاور موڑھا سیدھا کیا۔ 

”لا میں بھی پتے صاف کروادوں تیرے ساتھ۔”

اور آنے والا مولابخش ہی تھا۔

”صبح صبح کس کا نام لیا جارہا ہے بادشاہو۔”

 ”ایک تو اور ایک شیطان۔” حسن بخش نے آنکھ ماری۔ ”میرا مطلب ہے پکے دشمن،پکے ویری۔”

”او سب سمجھتا ہوں ادا، سب سمجھتا ہوں۔”

”صبح سویرے خیر سے آپ کدھر سدھارے تھے میاں؟” سبھاگی اور پوچھ گچھ۔کیسے نا لگے کہ بیوی ہے۔

”او چوندا آھن (کہتے ہیں نا )کہ فجر پڑھ کر جا توسارے کام سیدھے ہوتے ہیں۔” اس کے ہاتھ میں موجود فائل بھی کوئی اشارہ تھی۔

”پر تجھے کون سا کام یاد آگیا؟” سبھاگی اشارے کہاں سمجھتی ،وہ تو زبان کہی بات جھٹلاتی تھی۔

”او بھلیے! جس کام سے گیا تھا سمجھو نیت کام آگئی۔ آدھا ہوگیا تو آدھا بھی ہو جائے گا۔یہ رہی سوتھی (ایڈوانس رقم)۔” لفافہ نکالا جو سفید تھا۔ ”کس شے کی سوتھی مولابخش؟” ادا حسن کو تشویش ہوئی اور سارنگ کا شک یقین میں بدلا جب اس نے کہا کہ چار ایکڑ کا سوداکر آیا ہوں۔

”ارے یہ تو نے کیا کیا مولابخش؟ ”حسن کو حیرت ہوئی اور سبھاگی نے سر تھام لیا۔

”ارے صبح صبح آدمی رزق کے لیے نکلتا ہے تو رزق بیچ آیا۔” سبھاگی جیسے صدمے میں آگئی۔

جیجی نے بیٹے کو دیکھا۔ کہا کچھ نہیں،اس کی مجبوری کا پتا تھا اور یہ بھی کہ زمین کا سودا اس کے لیے دل کا سودا تھا ۔ زمین کا سوداکر آیا تو سمجھا دل بیچ آیا۔

دل کا سودا ایسے ہی نہیں کیا جاتا۔ نہ ایسے ویسے کے لیے کیا جاتا ہے۔

سیانے کہتے ہیں دل کا سودا بغیر سوچے سمجھے کیا جاتا ہے۔ وہ کہتا تھا دل ہی کا تو سودا سوچ کر کیا جاتا ہے۔ وہ بھی گھر کا سیانا تھا۔

مگر گھر کا گھر اس پر چڑھ دوڑا۔ حسن نے کہا۔”سوتھی واپس کر ہمیں زمین نہیں بیچنی، زمین بیچی تو کھائیںگے کہاں سے مولابخش۔”

”ادا چار رکھے ہیں چار بیچے ہیں۔ وہ چودہ تھے جو بک بک کر آٹھ بنے تھے۔آٹھ سے تونے چار کردیے۔” حسن بخش تکلیف سے بولا۔

”پہلے بھی چار ایکڑ میری تعلیم کے لیے بیچے تھے آپ نے۔ اب بھی بغیر پوچھے یہی کیا۔ نہیںکرنا چاہیے تھا۔” یہ سارنگ تھا۔

سبھاگی کو تو چپ لگ گئی۔ کہنا چاہتی تھی دھی کا نہیں سوچے گا کیا میاں؟ پتا تھا رات اس کی عدالت میں پیش ہونا ہے، سوال و جواب ہونے ہیں۔

مولا بخش سب کی باتوں سے چڑ گیا۔”او میری زمین ہے۔ میرے ابے کی،ا ماں خاموش ہیں باقی تم سب کیوں بول رہے ہو؟”

”او اتار جتی اماں جیجی! شروع ہوجا مجھ پر کھال ادھیڑ دے مولابخش کی۔ نہیں پچھے گا نہ کھپے گا۔” قدموں کے پاس گیا۔

”گھر والے سارے چڑھ دوڑے ہیں، منہ کو آرہے ہیں میرے۔ماں ہے تو، تیری زمین بیچی ہے۔ تو عدالت میں کھڑا کر، پیشی لے۔”

ماں نے بس کندھوں پر ہاتھ رکھا۔یہ اشارہ تھا بیٹھ جا۔ پیشانی سے بال ہٹائے،دوپٹے کے پلوسے پسینہ پونچھا اور بولیں: ”تیری ماں ابھی زندہ ہے مولابخش۔ کوئی تیرے بال کا بھی ذرا نام تو لے۔ یہ سارے بکتے ہیں، بکنے دے۔ تونے جو کیا ٹھیک کیا۔”

 

Loading

Read Previous

شریکِ حیات أ قسط ۱

Read Next

شریکِ حیات قسط ۳

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!