سندھیا کو اپنے کمرے میں گانا سنتے دیکھ کر سبھاگی نے دل پر ہاتھ رکھ لیا۔ جوان جہاں بیٹی ہاتھوں سے نکلی جارہی ہے، عشقیہ گانے سن رہی ہے۔ ادھر سندھیا بی بی کی دنیا ہی اپنی تھی۔ گیت کے ساتھ ساتھ گنگناہٹ کا شغل جاری تھا۔ سارنگ نے دروازہ کھولا۔ برآمدہ پارکرکے سندھیا کے کمرے کی راہ لی، اس کے پیچھے ہی سبھاگی۔

سندھیا تیری شامت اب نہ آئی تو کب آئی۔

سارنگ کافی متاثر دکھ رہا تھا۔

سارنگ نے دیکھا وہ تو آپوں آپ مسکرائے جارہی ہے۔

”یہ تیری پسند ہے؟”جھولنا ہاتھ سے روکا، سیدھی ہو بیٹھی۔

”وہ۔ وہ ادا سارنگ۔” ایک کو صفائی دے دیتی اگر سر پر دوسری مصیبت نہ کھڑی ہوتی۔

”او چھوری!شرم کر، یہ تونے لگائے ہیں عشقیہ گیت۔” وہ آکر کھڑی ہوگئی سر پراور سارنگ قدرے پرے ہوگیا۔ 

”وہ۔ اماں۔یہ۔ یہ تو خود ہی بجتا ہے۔ ریڈیو جو ہے۔”وہ ہکلائی۔

” ہاں ہاں چریا ہوا ہے۔ مت پھری ہے جو خود ہی بجے گا۔”

”اماں ادا سارنگ سے پوچھ لیں۔ آپ ہی آپ گیت چلتے ہیں۔ بس بٹن کھولنا پڑتا ہے۔ کیوں ادا سارنگ؟”

”ہاں ہاں۔ بالکل، ریڈیو تو واقعی خود ہی بجتا ہے۔”وہ کہہ دیتا کہ یہ تو ٹیپ ریکاڈر میں کیسٹ بج رہا ہے اگر سندھیا کی آنکھوں میں اس نے التجا نہ دیکھی ہوتی۔ ”لے جو خود اگر بجتا ہے تو چھوری تو کیوں بجاتی ہے۔ آنے دے ابا کو، بتاتی ہوں چھوری ہوا ہوئی جارہی ہے۔ سیّدوں کے نہیں میراثیوں کے گھر پیدا ہونا تھا۔”

 ”اماں اب وہ زمانہ گیا جب سیّدوں کی لڑکیاں اخبار تک نہیں پڑھتی تھیں۔ماسی ہیر کو دیکھ کنواری ہے روز ریڈیو سنتی ہے۔لت لگی ہوئی ہے ریڈیو سننے کی اسے۔اس سے ہی پوچھ لے، آپ ہی آپ گانے چلتے جاتے ہیں، پونے دس کے بعد کا وقت ہوتا ہے۔”

”آںہاںچھوری تجھے وقت ویلا بھی یاد ہے ماسی ہیر تو جوانی چھوڑ آئی چالیس سے اوپر کی ہے اکیلی ہے۔ ریڈیو نہ سنے تو اور کیا کرے پر تجھے کیا روگ چڑھا ہوا ہے کہ تو سنجھ( صبح )یہ عشقیہ گیت سنتی، جھولنے میں جھولتی رہتی ہے۔میں کہتی ہوں جھولنے اور رسالے کے علاوہ کوئی اور کم کار ہے بھی کہ نہیں۔”

سبھاگی جو شروع ہوتی تو چپ کون کراتا۔

”یہ مجھے دے دو سندھیا، میں سن کر لوٹادوںگا تمہیں۔” ٹیپ ریکاڈر سے کیسٹ نکالی۔

”ہائے۔ چھوری تو نے جھوٹ بولا ماں سے،ڈوب مر۔ریڈیو سن رہی تھی یا پھر کیسٹ چڑھائے بیٹھی تھی۔ ”

”چھو ڑ بھی دیں چاچی ماں،کیا ہوگیا ہے۔ اکیلی بیٹھی ہے کوئی اور تفریح بھی تو نہیں ہے۔ سن لیا تو کیاہوا۔” سارنگ نے ساتھ دیا۔

سندھیا سرجھٹک کر منہ بناکر ایک طرف ہو گئی۔

سبھاگی نے سارنگ کو بازو سے پکڑا۔” ادھر آ ادھر تو۔ یہ سب کچھ میں بھی سمجھتی ہوں پٹ۔ اسی لیے چھوڑدیا ورنہ لکڑی اٹھاکر اس پر برساتی۔ پتا لگ جانا تھا۔ پٹ کنواری دھی کا ایسے گانے سننا اچھا نہیں لوگ برا سمجھتے ہیں۔ تو اب اس کے سامنے نہ طرف داریاں کیا کر اس کی۔دماغ ویسے ہی کہاں زمین پر رہتا ہے پھر تو سیدھا آسمان کو جا لگے گا۔” وہ مسکرایا۔

Loading

Read Previous

شریکِ حیات أ قسط ۱

Read Next

شریکِ حیات قسط ۳

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!