مولابخش کو اتنا پتا تھا کہ ماں ہے، جو بھی کرے گی اچھا ہی کرے گی۔ بیٹی کے لیے تو ہیرے جواہرات بھی بچھادیں تو کم ہیں۔ہر اک ساہ اولاد پر نچھاور کردیں تو بھی کم ہے۔ اولاد اگر فرائض پورے نہ بھی کرسکے تو قصور وار نہیں آخر ماں پیو کا دل ہے بہتر ہی سوچیں گے۔سندھو تیرے لیے ابا خدا جانے کچھ کر بھی سکا یا تجھ پرپہاڑ لاد دیا۔پتا تھا پیسہ اہمیت رکھتا ہے۔ چار چار نوکرانیاں آگے پیچھے پھرتی رہیں گی۔ کام کاج کی ذمہ داری نہ ہوگی۔

مگر کام کاج کسے مارتا ہے۔ بات ساری دل کی ہوتی ہے ساری رات یہ سوچ کر گزاردی کہ میری سندھو کا دل اللہ جانے خوش ہوگا بھی کہ نہیںاور سندھو نے یہ سوچتے ہوئے رات گزاری ابا کے دل کی خواہش ہے۔ ماں کی زبانی پتا لگا تھا۔ اب اپنا دل خوش ہو یا نہ ہو مگر دل لگاکر رکھنا ہے۔ ابا کی زبان کی خاطر، اس کی جان کی خاطر۔

دل ابا کا خوشیاں اُس کی۔ابا خوش تو سندھیا چپ۔

سوئی میں سے دھاگا سِرکتا ہے، اسی طرح دھیمے دھیمے احساس جاگتے ہیں دل میں۔

اگلے دن رسم کے بعد سندھو کے گرد سہیلیوں کا ٹولہ بیٹھا تھا۔ کانوں میں کھسر پھسر کا اک سلسلہ تھا جو رُکتا ہی نہ تھا۔ وہ شرم سے پانی پانی ہورہی تھی۔

سوہائی اسی وقت ہی کھلکھلائی تھی جب رسم ہونے لگی۔ گوٹا لگا سرخ دوپٹہ اسے پہنا کر مٹھائی کھلا کر مبارک سلامت کا شور اٹھا۔

”ادی بھرائی مبارک ہو۔”

عورتوں نے چہک کر مبارک دی۔بھرائی جیجی اور سبھاگی سے گلے ملی۔ باغ باغ ہوئی جارہی تھی۔ گل و گلزار تھی۔ہجوم چھٹا تو سہیلیوں نے گھیرا ڈال لیا۔

”بتا نہ سندھو کیسا لگ رہا ہے؟”

اسے کچھ پتا نہ تھا بس آنکھوں کے سامنے چہرے پر مسکراہٹ آگئی۔

”صادق کا چہرہ نظر میں ہوگا۔” ایک مسکراہٹ دیکھ کر کھلکھلائی۔

دوسری نے کہنی ماری، ہنسی کمرے میں گونجتی رہی۔ وہ دھیما مسکرائی تو ضرور مگر محسوسات سمجھ سے باہر تھے۔

یہ خوش ہونے کی کوئی بات تھی کیا؟ خود اپنے احساسات ٹٹولنے کی کوشش، مگر فی الحال چپ تھی۔ دل آہستہ آہستہ اس سے منوارہا تھا،راضی کر رہا تھا یا پھر وہ دل کو نیم رضامند کرنے میں کامیاب ہوتی جارہی تھی۔ابھی تو پہلی رات تھی۔ رسالہ تکیے کے تلے دھرا تھا اور وہ سوچوں میں غرق۔

سوہائی اس کے سونے تک اس پر جملوں کے تیر چلاتی رہی۔وہ جملوں کے معنی دل میں اتارنے کی کوشش کرتی رہی۔ یہ پہلا پہلا تجربہ تھا اور بڑا مشکل تھا۔ زبردستی کا سودا تھا اور دل زبردستی کے فیصلوں کو کب مانتا ہے۔

بتایا گیا کہ صادق شہر میں کسی ضروری کام سے رُکا تھا۔اب انگوٹھی پہنانے کی باری ان کی تھی۔

سارنگ کو ابا نے فون کرکے کہا صادق کے لیے ایک جوڑا ، ایک سونے کی انگوٹھی، مٹھائی کا ٹوکرا لے اور جا کر انگوٹھی پہنا کر مٹھائی کھلا کر آ۔سارنگ بھی مطمئن تھا کہ چلو چاچے سے کہا تھا کہ سندھیا کے لیے جانے سے پہلے کچھ نہ کچھ کر کے جائوںگا۔ تو اچھا ہے خود بہ خود ہی ہوگیاسب، ٹینشن نہیں ہو گی اب کوئی۔ ابا خوش، چاچا خوش تو اسے تسلی رہے گی۔ جب واپس بھی لوٹے گا تو چاچے کا قرضہ اتارے گا، زمین چھڑوائے گا اور خرید کر یہی والی دے گا۔ چاچے کا دل خوش ہوجائے گا، قرض کچھ تو اترے گا نا۔

٭…٭…٭

Loading

Read Previous

شریکِ حیات أ قسط ۱

Read Next

شریکِ حیات قسط ۳

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!