بھرائی، حسن بخش اور مولا بخش کی سگی اکلوتی بہن کوئی چھبیس ایکڑ زمین کی اب بھی مالک تھی۔ پہلے پچاس تھے، شوہر نے بیچ بیچ کر چھبیس کردیے۔ چھبیس میں سے جو چھے میکے والوں کی طرف سے ملے ہوئے تھے وہ بڑی بھلی خوب صورت ہری بھری زمین تھی۔

سال بھر کا رزق اب تک اسی زمین سے آتا تھا۔ باقی کی بیس کرائے پر چڑھادی گئی۔

اکلوتے بیٹے صادق صاحب چمکتی ہوئی گاڑی لے کر پڑھنے کے بہانے شہر بھر میں گھومتے پھرتے کرائے کا فلیٹ تھا۔سارنگ کی ضد میں انجینئرنگ یونیورسٹی میں ڈال دیا گیا۔وہاں نہ جم سکا توبھاگ آیا۔ دوبارہ سندھ یونیورسٹی کا رستہ دکھایا۔

ماں کی خواہش تھی ڈاکٹر نہ سہی میرا صادق انجینئر تو بن ہی جانا ہے مگر صادق صاحب کہتے تھے کہ کون اتنا فارغ ہے، جو پڑھے گا اور پرچہ دے گااور پھر پوزیشن بھی لے گا۔ اللہ اللہ کرکے کسی طرح گریجوایشن کرلیاگویا تیرمارلیا۔ اب آوارہ گردی اس کا شیوہ تھا۔

گائوں میں ہوتا تو سارا سارا دن بچوں کے ساتھ اٹی ڈکر (گلی ڈنڈا) کرکٹ میچ اور ملھ (کشتی) لڑتا رہتا۔ گھر آکرباکسنگ کا شوق پورا کرتا روئی سے بھرے تکیے لٹکا کر رکھے تھے۔ ماں سر پر ہاتھ رکھ لیتیں۔ ”اوصادق تو کب بڑا ہو گا۔ شہر میں بھی اللہ جانے کیا کیا کرتا رہتا ہوگا۔ پتا بھی تھا کہ پہلے موٹر بائیک اب گاڑی سڑکوں پر دوڑاتا ہوگا۔”

ایسے نیک فرزند کو کہتے ہیں اٹے پر چٹی، نقصان کی بھرپائی سالانہ جوکرایہ ملتا وہی لیتا، اس بار تو چار سال کا کرایہ لے کر گاڑی لے لی۔

ماں کی وہی کہانی کہ اب بھرے گا کون؟

سارنگ کو دیکھ دیکھ کر ہوک سی اٹھتی۔ کاش کہ صادق بھی کچھ بن جاتا مگر زر زمین کے ہوتے ہوئے آوارہ پھرا۔ نہ زمین پر جاتا نہ خبرلیتا کہ کھیتی کیسی ہوتی ہے۔ 

اس کے ابا نے سب سے اچھی زمین اپنی بیٹی کو دی تھی۔ آٹھ آٹھ بیٹوں کو،چھے بیٹی کو۔ بیوی کو زیور دیا جو جیجی ماں نے بہوئوں کو چڑھادیا۔

کہنے لگیں محمد بخش بھی خالی ہاتھ گیامیں بھی رب کا نام لے کر جائوںگی۔ صندوقوں میں کڑے زیور بھر کر کیا کروںگی، مر کے اللہ کو جوا ب دینا ہے۔ میرا زیور تو میرے رب سائیں کا ذکر پاک ہے، جو مجھے حسن بھی دے گا، امان بھی۔

بھرائی نے البتہ بہو کے لیے دُہری، سات مالائوں والا سونے کا ہار بنواکر رکھا تھا۔ چار کڑے اور دو انگوٹھیاں تھیںجو ان کی اپنی تھیں۔ شوہر نے کہا تھا میرے بعد کلائیاں نہ سونی رکھنا۔شوہر کی وفات کے بعد کڑے کلائی میں پہنے اور انگوٹھیاں انگلیوں میں جس کا زیور اسی کو ساجھے۔ بیٹے کی ماں تھیں، ناک سے صرف کوکا اُتارا۔ باقی سب خیر تھی، جوانی تو گئی۔

اب شوق تھا جوان بہو گھر آئے، بیٹی کی بھی کمی پوری ہو۔ کسی نے مشورہ بھی دیا کہ بیٹے کو قابو کرنا ہے تو مائی سہرا چڑھادو، دُلہا بنادو۔ سیج بٹھادو۔ خود ہی سدھرے گا۔

پورے خاندان کی بچیوں کو نظر سے گزارنا شروع کردیا۔ بیٹوں کی شادی کے لیے مائیں بیٹوں کا ناک نقشہ نہیں دیکھتیں مگر بہو کا ناک نقشہ، بول چال، اٹھنا بیٹھنا، چلنا پھرنا سمیت سب کچھ دیکھا جائے گا۔ روایات تھیں کون باغی توڑتا۔ خاندان بھر کی بچیاں دیکھ لیں، کچھ نہ بھایا۔

سوئی کا کانٹا آکر ایک نام پر ٹھہر گیا۔ سندھیا!ہائے میری سندھو۔ میری سگی بھتیجی ہے ۔ ہلت جلت،بول چال سے معصوم اور سیدھی۔ شکل کی حور پری۔ عمر میں چارچھے سال چھوٹی۔ قد کاٹھ مناسب، پتلی سی، پھرتیلی، اپنے خیالوں میں کھوئی ہوئی۔ نہ کسی خاندان کے مسئلے پر بات کرے نہ منہ ماری۔

سب کچھ صاف نظر آرہا تھا۔ دُھلا دُھلا دودھ کی طرح۔ کسر بس یہی رہتی کہ دست سوال دراز کرکے جائے سوچا بس بھا کے سامنے دامن پھیلا دے گی۔ہاتھ باندھ کھڑی ہوجائے گی۔پائوں میں چادر ڈال دے گی۔

انکار تو سوال ہی پیدا نہیں کہ وہ مولابخش اور بہن کی چادر کا مان نہ رکھے۔کس ماں کا بیٹا تھا، وہ بھی اسی ماں کی تھی۔ صرف فطرت ہی نرالی تھی۔سوچ کر دل میں ٹھان لی، چادر نکلوائی، ڈرائیور کو گاڑی نکالنے کا حکم ہوا۔

گائوں کی دو عورتیں ساتھ لیں۔بیٹے کی بات بٹھانے جارہی تھیں۔گردن اکڑی ہوئی تھی۔ چہرے پر مسکراہٹ تھی جو کہ ختم نہ ہوتی تھی۔رستہ سیدھا تھا مگر قسمت ٹیڑھی تھی۔

٭…٭…٭

Loading

Read Previous

شریکِ حیات أ قسط ۱

Read Next

شریکِ حیات قسط ۳

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!