قدموں میں بیٹھنے کا مطلب ہوتا ہے عرضی ڈالنا۔ وہ عرضی لے کر آیا تھا۔

”جیجی ماں ایک عرض ہے ۔سارنگ تو ادھر میرے پاس بیٹھ میرے پٹہ۔” وہ اٹھ کر سیدھی ہوئیں۔ ”آپ آرام سے بیٹھ جائیں جیجی ماں۔ میں آپ کے پاس بیٹھتا ہوں۔” وہ ان کے نزدیک بیٹھ گیا اور اپنے ہاتھوں سے جیجی کے نرم پائوں دبانے لگا۔

”گالھ کر سارنگ بچڑا۔ چاچے کے طریقے پر نہ چل۔ وہ بھی قدموں میں ڈھیر ہوجاتا ہے تو بات کہنا سننا مشکل ہوجاتا ہے”۔ ”بڑا وقت ہوا آپ کے پائوں نہیں دبائے جیجی ماں، ثواب نہیں کمایا۔” وہ بھی دل مُٹھی میں کرنے کے تمام گر جانتا تھا۔ حسن بخش کو دیکھ دیکھ کر بڑا ہوا تھا۔

”گناہ و ثواب کو بیچ میں مت لا سوہنیا۔ گالھ کر اور پھر ایک عمر پڑی ہے ثواب کمانے کے لیے۔ گناہ  ثواب کی فکر تو ہم ضعیفوں کو کرنی چاہیے سارنگ۔”

”یاد ہے آپ بچپن میں کیسے گناہ ثواب کی باتیں کرتی تھیں، گناہ سے ڈرانااور ثواب کمانا۔”

”سارے بہانے رکھے ہیں سارنگ رب سائیں نے۔مطلب پر آ، بات کر ۔”وہ اس کی پریشان آنکھوں میں جھانکتے ہوئے بولیں۔

”کوشش کی ہے میں نے چاچا سائیں کو سمجھانے کی۔ کہاں مانتے ہیں کسی کی۔” فکر اس کے لہجے میں بھری ہوئی تھی۔

”میں نے کہا ہے مگروہ سودا نہیں واپس لیتے۔”

”کیا کہا مولابخش نے تجھے؟ یہ بتا۔”

”یہی کہا اب آپ جب بھی ان کھیتوں سے گزریںگے تو یہ احساس شدت سے ہوگا کہ زمین اب ہماری نہیں۔ کہنے لگے تجھے پتا ہے سارنگ زمین کا سودادل کا سودا ہے، دل کا سودا کرنا بڑا دشوار ہے مگر سارنگ… دل کا سودا حیاتی کے سودے سے زیادہ مہنگا نہیں ہے۔ زمین کبھی زندگی بنانے کے لیے خریدی جاتی ہے، کبھی زندگی بچانے کے لیے مگر ہم نے زمین زندگی بڑھانے کے لیے دی ہے۔

چاچا ایسی بات کرتے ہیں کہ پھر کرنے کو کوئی اور بات ہی نہیں رہتی مگر جیجی میں اب بھی چاہتا ہوں کہ وہ زمین کا سودا واپس لے لیں۔”

”کیا ہو گا گھر مسائل میں گِھر جائے گا، اخراجات مشکل ہوجائیںگے مگر اخراجات کی ذمہ داری تیری ذمہ داری نہیں ہے ابھی، جب ہو تب فکر کرنا تو ابھی صرف اپنی پڑھائی پر دھیان دے سارنگ۔”

”مگر یہ سندھیا کا حق تھا۔ کچھ تو اس کے لیے بھی رکھنا چاہیے تھانا ۔ چار گھر کے لیے۔ چار بیچ دیے اب گھر کے اخراجات ہوںگے تو ہم سندھیا کے لیے کیا رکھیںگے اس کی بھی آخر شادی ہونی ہے۔” وہ پریشان تھا۔

”سارنگ تو ایک کام کر۔ ابھی اس بات کو چھوڑ،یوں سمجھ قرضہ ہے تجھ پر۔جب اس قابل بن جائے تو چاچے کو سندھیا کی شادی کے لیے کچھ نہ کچھ دے دیناوہ خوش ہوجائے گا۔پر دیکھ ابھی کوئی چارہ بھی نہیں ہے۔وہ سودا کر آیا۔ کہتے ہیں مرد زبان سے نہیں پھرتا، مولابخش اپنی مردانگی کے اصولوں میں پکا ہے، نہیں ہٹے گا، زبان دی ہوئی ہے، سوتھی لے آیا ہے اب کوئی حل نہیں۔چپ کرکے اپنے جانے کی تیاری کر سارنگ اور ساری فکریں بھول جا۔ تیرے بڑے تیرے سر پر موجود ہیں فکریں کرنے کے لیے۔”

اتنے قرضے، اتنے سارے قرضے کیسے اتاروںگا۔ اتنے سارے قرضے محبتوں کے قرض، بھروسے کا قرض۔سارنگ یہی سب سوچتا کمرے سے باہر نکل آیا۔

٭…٭…٭

Loading

Read Previous

شریکِ حیات أ قسط ۱

Read Next

شریکِ حیات قسط ۳

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!