سارنگ گھر آیا۔بہ ظاہر کوئی اعتراض نہ تھا۔کہنے لگا سندھیا راضی ہے تو سمجھو رشتہ پکا مگر اس سے پہلے اس کی مرضی پوچھ لو۔بات سندھیا کی مرضی پر آکر رک گئی۔

سوہائی نے کہا: ”جس طرح پھپھو بات کرگئی ہیں لگتا ہے گل پکی کرکے چھوڑے گی۔دو دن بعد آئے گی تو نہ نہیں سنے گی۔”

مگر سانپ تو جیسے سندھیا کو سونگھ گیا تھا۔کہانی کی ہیروئن پر جیسے کڑا وقت آیا تھا۔ابھی رات ہی تو اس کی ڈائجسٹ کی ہیروئن نے رشتے کی سخت مخالفت کرکے بغاوت کا اعلان کیا تھااور اس کے دلائل بھی یہی تھے۔ صادق بھی تو ویسا ہی تھا۔یا خدا! میرے ساتھ ویسا ہی کیوں ہوجاتا ہے، جو میں پہلے کہانیوں میں پڑھ چکی ہوں۔ سر جھٹک کر نظر انداز بھی کرلیتی اگر معاملہ صرف کہانی کا ہوتا۔یہاں تو زندگی کی بات ہورہی تھی۔ اسے لگا کوئی اسے بتانا بھی گوارا نہیں کرے گا۔ ماں پوچھنے آئیں۔ انداز بتاتا تھا کہ مقصود رضامندی لینا نہیں بس فیصلے پر ٹھپہ لگانا ہے۔ اُسے لگا کہ ان کا پوچھنا ایک روایت تھی بس۔بات یہ تھی کہ مان لو بس چوں چراں نہ کرنا۔

”عقل سے کام لے گی تو خوش رہے گی سندھو۔ ماں کی دعا ہے۔”

خوشی کا تعلق عقل سے نہیں دل سے ہوتا ہے مٹھی ماں ۔وہ کیا کہتی کہ انکار کس طرح کا ہوتا ہے اب سوچ کر رہ گئی۔ اس کی خاموشی دیکھ کر سبھاگی بولی۔

”دیکھ سندھو کتابوں والی باتیں رکھ کتابوں میں۔ زندگی میں کتابی باتیں کرے گی تو کتابوں کو بھی ترسے گی۔

”سچ صرف کتابوں میں ہی نہیں لکھا ہوتا ماں جی۔”

”دیکھ سندھو!مجھے دیکھ حیاتی ترس ترس کہ گزاری ہے۔ پیسا بڑی طاقت رکھتا ہے۔ اُس کا گھر ہے، زمین ہے،پیسہ ہے، گاڑی ہے۔شہر میں اپنا ٹھکانہ ہے۔ مرضی کا مالک ہے جہاں چاہے رہے اور پڑھا لکھا ہے۔ کیا عیب نظر آتا ہے تجھے اس میں، تیری پھپھی کا بیٹا ہے۔ اپنے ہی خاندان کا۔ ذات پات ایک، شجرئہ نسب ایک، گوٹھ ایک اور ذات برادری ایک۔”

”مگر خیالات الگ ہیں ناسوچ الگ ہے اماں۔” وہ بلبلائی۔

”خیالات کو جھونک مٹی میں سندھو، چری نہ بن۔رانی بن کر راج کرے گی اس گھر پر اکلوتا ہے۔ نہ بہن نہ بھا سب اس کا اور اس کا سمجھو بعد میں تیرا۔ چابی تیرے پاس رہے گی۔”

”چابی تو دل کی ہوتی ہے کیا پتا وہ ملے نہ ملے۔” اب اگر یہ سب کہتی تو مار کھاتی۔ 

سبھاگی نے کہا:”پھپھی نے تیرے ابا کے پائوں پر پوتی رکھ دی ہے۔لاج تو رکھنی ہے نا اب۔”

وہ کیا کہتی ماں پوتی کی پروا تجھے کیوں ہوگی؟

”مولابخش بڑا خوش ہے۔” سب سے بڑا ہتھیارآزمایا ماں نے۔ 

”ابا سائیں خوش ہیں۔” حیرت اور بے یقینی۔

”ہاں ابا تیرا خوش ہے بہت خوش۔”اس نے آخری کیل ٹھونکی اور باہر نکل آئی۔وہاں آکر ابا سے کہابچی بہت خوش ہے۔ زیادہ پوچھ گچھ نہ کر،پولیس والا نہ بن۔ سوال جواب لے کر نہ جا دھی کے پاس تفتیش کرنے کے لیے، میں پوچھ آئی جو پوچھنا تھا۔اس نے کہہ دیاجو آپ کی مرضی۔ دھی ہماری نیک ہے۔ اللہ نصیب اچھے کرے گا۔

رات پھیلتی جارہی تھی۔مولابخش نے سرہانے تکیہ رکھا ہوا تھا۔

”پھر تونے کیا سوچا؟ سندھو کے ابا۔”

سبھاگی بے چین تھی جاننے کے لیے کہ مولا بخش کے دل میں کیا تھا۔”سوچنا کیا، بہن نے پوتی پیروں میں رکھ دی ہے اب انکار کی جرأت مجھے نہیں ہے، سندھو کو ہے۔ وہ جو چاہے۔”

”دھیوں پر فیصلوں کے بار نہیں رکھے جاتے مولا بخش،دھیاں کیا کہتی ہیں بھلا۔چپ ہوں تو سمجھو راضی۔”

”چپ کا مطلب ناراضی بھی ہوتا ہے سندھو کی ماں۔”

”اب تو بیٹھ کر کیا دھی سے پوچھے گا۔ وہم میں مت ڈال پوچھ آئی ہوںاسے، ٹھیک ہے وہ، جو الجھن ہے سو سلجھ جائے گی۔ جتنے ماں پیو الجھے ہوئے ہیں، اتنی ہی الجھن ہوتی ہے چھوکریوں کواور جو سارے فیصلے بچے کریں تو ماں پیو کس کام کے مولابخش۔”

”مجھے سندھو کی خوشی چاہیے سندھوکی ماں۔”وہ ابھی بھی بے چین تھا۔

”خوشی کیوں نہیں ہوگی؟ پھپھی کے گھر جاکر وہ کون سے پاپڑ بیلے گی بھلا۔چار چار نوکرانیاں پھرتی ہیں، تخت پر رہے گی رانی بن کر تو جو کہتا تھا کہ بڑی ہوگی، سندھیا میری رانی بنے گی۔” اس کی آنکھوں میں پانی چمکنے لگا۔

”سندھو کی ماںمیں اسے سچ مچ کی رانی دیکھنا چاہتا ہوں۔”

” تو پھر دیر نہ کر میاں۔ اللہ پر توکل رکھ اور کل رسم کے لیے بلالے۔ ”

”صادق اور بھرائی ہیں تو اپنے مگر بے بھروسے ہیں کوئی ذمہ داری لینے کو تیار نہیں ہے۔ نہ کھیت نہ کھلیان۔”

”تو کیا ہاری کو بیٹی بیاہنا چاہتا ہے۔صادق کسان نہیں ہے،زمیندار ہے اور زمینداروں کے نخرے ایسے ہی ہوتے ہیں۔سوچ تیری بیٹی بھی نخرے میں رہے گی۔ زمیندارنی بن کر حکم چلائے گی۔” حسرت خود اس کی آنکھوں میں چمکی۔ 

آخر تھک ہار کر مولا بخش نے صرف ایک بات کی۔

”جوتو راضی ہے پھر ٹھیک، مگر بھا حسن سے مشورہ کرلوں۔”

سارنگ کو فون کیا تو وہ پہلے ہی بہت خوش تھا۔جیجی اور حسن کو ساتھ بٹھا کر مولا بخش نے بھرائی کو فون کیاکہ کل رسم کے لیے آجائیں مٹھائی کھلانے،دل جیسے کسی نے مٹھی میں لے رکھا تھا۔

بیٹی کی بات پکی ہونے پر شاید ہر باپ کا دل اتنا ہی نرم پڑ جاتا ہے۔ سبھاگی کو یہ سوچنے کی کہاں فرصت تھی۔ اس کے سامنے اپنے ادھورے ارمان تھے جنہیں وہ سندھیا کی صورت پورے کرنا چاہتی تھی۔ سوچ صرف یہ تھی کہ ماں پیو دھی کا اچھا ہی سوچتے ہیں۔ اولاد سے محبت کرتے ہیں۔ اتنی محبت کرتے ہیںکہ دنیا بھر کے سکھ اس کو مل جائیں۔

Loading

Read Previous

شریکِ حیات أ قسط ۱

Read Next

شریکِ حیات قسط ۳

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!