شبِ آرزو کا چاند — مونا نقوی

جس کا چہرہ جاتے سمے صبح کے نور کی طرح روشن اور کھلا کھلاسا تھا واپس گھر لوٹتے شام کی نیم تاریکی میں جان کُنی کی تکلیف میں مبتلا انسان کے چہرے سے مشابہ تھا۔ نہ جانے وہاں ایسی کیا بات ہوئی ہوگی جس نے رانی کو اس قدر رنجیدہ کردیا تھا۔ رانی کا آنسوؤں سے تر چہرہ میرے دل میں گڑھ چکا تھا۔ اُس کا وہ دکھ جو میں چاہ کر بھی اُس سے نہیں پوچھ پایا تھااُس کا درد مجھے اپنے سینے میں اُٹھتا ہوا محسوس ہورہا تھا۔ کاش میں آپ کو بتا سکتا کہ بے تحاشا، بے انتہا محبت کرتا ہوں آپ سے۔ کاش بتا سکتا کہ کتنا ضروری ہو آپ میرے لیے اُتنا ہی ضروری جتنا سانس لینے کے لیے ہوا ضروری ہوتی ہے، لیکن میں چاہ کر بھی نہیں بتا سکتا آپ کو۔ آپ جس کی قسمت میں لکھی ہو بلاشبہ وہ اِس دنیا کا خوش قسمت ترین انسان ہے جسے آپ جیسی ہم سفر ملے گی، مگر میں اکثر سوچتا ہوں کیا آپ بھی اُتنا ہی خوش قسمت ہو گی کہ عادل کے دل پر راج کرو۔ میری زندگی میں تو آپ کبھی بھی میری شبِ آرزو کا چاند بن کے نہیں چمک پاؤ گی، مگر میری دلی دعا ہے کہ عادل کے دل کے آسمان پرآپ مثلِ چودھویں کے چاند کے ہمیشہ چمکتی رہو۔
٭…٭…٭
کبھی کبھی قسمت خاندانی روایات سے جڑی رہتی ہے جسے آپ چاہ کر بھی نہیں بدل سکتے۔ میری قسمت بھی انہیں رسم و رواج سے جڑی ہے اور مجھے صبر کرتے ہوئے اِنہی سنگلاخ راستوں پر عمر بھر چلتے رہنا ہے جس پر اِس خاندان کی کئی لڑکیاں صدیوں سے چلتی آ رہی ہیں۔ اگر عادل کی بات مان لوں اور اماں، بابا اور بھائی سے سب چھپا کے اُس کی ڈولی میں بیٹھ جاؤں، تو اِس گھرسے اک زندہ لاش کی طرح سرخ کفن پہن کے عادل کی وسیع حویلی کے قبرستا ن میں جیتے جی دفن ہو جاؤں گی۔ اِن روایات سے انحراف ممکن نہیں دونوں صورتوں میں میری زندگی جہنم سے بدتر درجہ میں گزرے گی۔ میرا دل اور ذہن مجھے صحیح مشورہ دینے میں ناکام ہوچکے تھے۔ رات بھر جاگ کر عادل کی بات کو ہر زاویہ سے سوچ کے دیکھ لیا تھا، مگر دل ودماغ کسی اک بات پر متفق نہیں ہو پائے تھے۔اب فجر کی نمازپڑھ کے خدا کے حضور گڑگڑا کر اپنے لیے درست فیصلے کی دعا کر کے مطمئن ہوگئی تھی۔ اب جو رب کی رضا ہوگی مجھے دل و جان سے قبول ہوگی ۔مجھے بس اتنا پتا تھا کہ اب مجھے ہمت سے کام لینا تھا باقی خدا کی مرضی عمرتنہائی کے گہرے غاروں میں گزارنی تھی یا اُس حویلی میںزندہ لاش کی صورت عادل کی دلہن بن کے جانا تھا۔فیصلہ خدا کے سپرد کر کے میں بابا سے بات کرنے کے لیے جائے نماز سے اُٹھ کھڑی ہوئی۔
٭…٭…٭





’’اب آپ ہی بتائیں بابا ساری بات جان لینے کے بعد آپ کیا فیصلہ کرو گے ۔آپ کا جو بھی فیصلہ ہوگا مجھے دل و جان سے قبول ہوگا۔‘‘میری ساری بات سننے کے بعد اماں اور بابا پریشانی کے عالم میں اک دوسرے کو دیکھ رہے تھے۔دونوں کے جھریوں زدہ چہرے پر موت سے پہلے والی زردی چھا چکی تھی۔
’’میں نے کبھی نہیں چاہا کہ تمہارا مقدر تمہاری پھوپھی جیسا ہو میری بیٹی ۔‘‘بابا نے نم آنکھوں کے ساتھ افسردہ لہجے میں کہا۔
’’پر قسمت سے لڑا تو نہیں جا سکتا بابا۔اگر آپ کہو گے تو سرخ کفن پہن کے اِس گھر سے رخصت ہو جاؤں گی۔‘‘ آنسو میری آنکھوں سے لڑھک کر میرے دوپٹے میں جذب ہوگئے تھے۔
’’ایسا نا کہو رانی ،ہماری خواہش اور ارمان یہی ہے کہ تمہیں اِس گھر سے دعاؤں کے ساتھ رخصت کریں۔اماں نے مجھے اپنے ساتھ لگاتے ہوئے کہا۔
’’لیکن ہر خواہش اور ارمان پورا ہونے کے لیے نہیں ہوتا اماں ۔‘‘ میں نے آنسوؤں کو اپنے اندر جذب کرنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔
’’میں بات کرتا ہوں باسط سے ۔پہلے عادل اُس شہر والی کو طلاق دے گا۔ پھر ہی تیری ڈولی اٹھائے گا اِس گھر سے۔‘‘بابا نے اپنا حتمی فیصلہ سناتے ہوئے کہا۔
’’اُس کا کیا قصور بابا اور ویسے بھی عادل نے کون سا اُس کو اِس رشتے کے بارے میں بتایا ہوگا ۔جو جرم اُس نے کیا ہی نہیں اُس کی سزا بھی اُسے نہیں ملنی چاہیے۔‘‘ میں یہ سن کے تڑپ اُٹھی تھی ۔اُس نے چاہے میرے حق پر ڈاکا ڈالا تھا، لیکن وہ میری نظر میں بے قصور ہی تھی اور میں کسی صورت ایسا نہیں چاہتی تھی جیسا بابا کہہ رہے تھے۔
’’پھر تم ہی بتاؤ کیا کرنا چاہیے، َتمہارا بھائی اور بھابی بھی یہاں نہیں کوئی مشورہ لوں اُن سے۔‘‘ بابا نے بے بسی سے کہا ۔
’’بابا مجھے اب عادل قبول نہیں ۔آپ چچا باسط سے طلاق کا مطالبہ کر دو اور مجھے رات تک پھوپھی ثریا کا کمرا دے دو۔‘‘نہ جانے کیا سوچ کر میں اپنا یہ فیصلہ سنا کر اماں ،بابا کا چہرہ دیکھے بغیر کمرے سے نکل آئی۔شاید میری قسمت میں بھی پھوپھی ثریا کی طرح تنہائی اور وحشت کی سیاہ بھیانک راتیں ہی لکھی تھیں بعض اوقات انسان اپنی قسمت سے چاہ کر بھی نہیں لڑ سکتا ہے۔
٭…٭…٭
بابا کے طلاق کا مطالبہ کرنے کے بعد چچا اور چچی نے بابا کی اور اماں کی بہت منت سماجت کی اور کہا کہ عادل کی بیوی کو طلاق دلوا کے ہی مجھے بیاہنے آئیں گے، لیکن اماں بابا نے یہی کہا کہ یہی اُن کا حتمی فیصلہ ہے۔ وہ لوگ اپنی بیٹی کا گھر بسانے کے لیے کسی اور کی بیٹی کا گھر اجاڑنا نہیں چاہتے ۔عادل جب شہر سے لوٹا اور بابا کے مطالبے کا سنا، تو بنا کسی منت سماجت کے طلاق نامہ بھجوا دیا ۔میں جو عادل سے ملن کے خواب سجائے لمحۂ وصل کے آنے کے انتظار میں بے چین پھرا کرتی تھی طلاق نامہ دیکھ کر اندر تک پرسکون ہوگئی تھی۔میں نے فیصلہ خدا کے سپرد کیا تھا اور اُس کے فیصلے میں ہی میرے دل کا سکون مضمرتھا۔آج کی رات آنکھوں میں پرسکون نیند اتر رہی تھی۔آنے والی راتوں کا کیا انجام ہونے والا ہے میں فی الحال یہ سوچنا نہیں چاہتی تھی۔
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

اگر ہو مہربان تم — عطیہ خالد

Read Next

گھٹن — اعتزاز سلیم وصلی

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!