شبِ آرزو کا چاند — مونا نقوی

’’ابھی تو میرا ماسٹرز بھی مکمل نہیں ہوا اور آپ دونوں کو میری شادی کی پڑ گئی ہے ۔اِسی لیے میں چھٹیوں میں بھی گاؤں آنا نہیں چاہتا۔‘‘ عادل نے چودھری باسط کی شادی کر لینے والی بات کا برا مناتے ہوئے کہا۔وہ جب بھی گھر آتا اُس کے والدین اُسے شادی کرنے پر مجبور کرنے لگتے۔ دونوں گھروں میں شادی کی تیاریاں کب سے مکمل تھیں۔ دیر ہو رہی تھی تو بس عادل کی طرف سے جو تعلیم مکمل کیے بنا شادی پر راضی نہیں ہو رہا تھا۔
’’دیکھ عادل تُو اکو اک اولاد ہے ہماری تمہارے سر پر سہرا سجا دیکھنے کا ارمان ہے ہمیں۔‘‘ صفیہ بیگم نے پیار سے بیٹے کو سمجھاتے ہوئے کہا۔
’’ اماں ابھی اپنے ارمان دل میں سنبھال کے رکھو،دو سال سے پہلے میں شادی نہیں کر سکتا۔‘‘ عادل نے اپنا حتمی فیصلہ سناتے ہوئے کہا۔
’’دیکھ عادل پتر تو پڑھ جتنا پڑھنا ہے ۔پر سوچ کتنے برسوں سے رانی تیرے نکاح میں بیٹھی ہوئی ہے اُسے بیاہ کر لائیں گے، تو یقین کر وہ تیری پڑھائی کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنے گی نمانی سی مخلوق ہے وہ۔‘‘چودھری باسط نے اُسے سمجھانے کی اپنی سی اک اور کوشش کرتے ہوئے کہا۔
’’ابا جہاں اتنے سال گزار لیے اُس نے وہاں دو سال اور گزار لے گی، تو کون سی قیامت آجائے گی۔بتا دیں تایا کو کہ ابھی مجھے سکون سے پڑھنے دیں۔ جانتا ہوں اُنہی کے کہنے پر آپ دونوں میرے پیچھے پڑ جاتے ہو۔ دو سال سے پہلے شادی نہیں کرنی مجھے ۔‘‘عادل اپنا فیصلہ سنا کے باہر نکل گیا، تو چودھری باسط اور صفیہ بیگم ایک دوسرے کو تاسف سے دیکھتے رہ گئے۔
٭…٭…٭





’’دلاور کیسے ہو بیٹا؟ کب آئے شہر سے ؟ ‘‘ چودھری الیاس نے حقہ پیتے ہوئے دلاور کو حویلی کے دروازے سے اندر آتے دیکھ کر پوچھا۔
’’السلام علیکم چودھری صاحب۔ کل شام ہی آیا ہوں۔‘‘ اُس نے چودھری الیاس سے مصافحہ کرتے ہوئے بتایا۔
’’پھر رانی نے کتابیں منگوائی ہوں گی ۔‘‘ انہو ں نے دلاور کے سلام کا جواب دینے کے بعد اُس کے ہاتھ میں کتابوں والا شاپر دیکھ کر مسکراتے ہوئے کہا۔
ُُ’’مجھے اچھی لگیں یہ کتابیں تو رانی بی بی کے لیے لیتا آیا۔‘‘وہ ابھی بتا ہی رہا تھا کہ رانی نے آتے ساتھ ہی اُس کے ہاتھ سے کتابوں والا شاپر جھٹکتے ہوئے کہا۔
’’اِدھر دکھاؤمجھے ، کون کون سی کتابیں لائے ہو؟‘‘ وہ اب دمکتے چہرے کے ساتھ اک اک کتاب کھول کر دیکھ رہی تھی ۔
’’جھلی ہے یہ لڑکی بالکل۔ ایسی پڑھنے کی دیوانی آج تک نہیں دیکھی میں نے ۔‘‘چودھری الیاس بیٹی کی اِس حرکت پر شرمندہ سی ہنسی ہنستے ہوئے بولے۔
’’پڑھنا اچھی عادت ہے چودھری صاحب، آپ نے میٹرک کے بعد آگے پڑھنے کی اجازت نہیں دی رانی بی بی کو، مگر کتابیں پڑھ پڑھ کے کافی علم حاصل کر چکی ہیں۔‘‘دلاور نے رانی کی ذہانت کو سراہتے ہوئے کہا۔
’’بس خاندان کے رسم و رواج پیروں کی بیڑی بنے ہیں دلاور پتر ،چاہ کر بھی اِن سے ناتا نہیں توڑا جاسکتا۔‘‘چودھری الیاس نے افسردہ لہجے میں کہا۔
’’اور یہ بیڑیاں اِس خاندان کی آنے والی ہر نسل کے پاؤں جکڑے رہیں گی۔ چاہے کوئی حویلی کی تیسری منزل سے کُود کر جان دے دے یا پھر کوئی چھت سے لگے پنکھے کے ساتھ پھندا ڈال کر جھول جائے ۔صدیوں سے جاری رسم و رواج سے انحراف ناممکن ہے دلاور ۔‘‘یہ کہتے ہوئے رانی کے لہجے میں زہر گھلا ہوا تھا جسے چودھری الیاس نے بہت دورتک اپنے اند ر اترتا ہوا محسوس کیا ۔رانی یہ کہہ کر اپنے کمرے میں چلی گئی اور چودھری الیاس سر جھکائے حقے کے ہلکے ہلکے کش لینے لگے۔
’’مجھے اجازت دیں چودھری صاحب۔ کل صبح واپس جانا ہے تیاری بھی کرنی ہے۔‘‘ دلاور نے دکھ سے رانی کو جاتے دیکھ کر اجازت طلب لہجے میں کہا۔
’’بیٹھو دلاور کھانا کھا کر جانا ۔‘‘ انہوں نے گہری سوچ میں ڈوبے ڈوبے ہی اُسے بیٹھنے کا اشارہ کیا اور یہ کہتے ہوئے اُنہیں اپنی ہی آواز اجنبی لگ رہی تھی۔
دلاور کے سامنے بابا کو ایسے بول کے وہ اندر ہی اندر پچھتا رہی تھی ۔اُس کے بھائی کے دو ننھے منے بچے اُس کے کمرے میں کھیل رہے تھے، مگر وہ خیالات کے رتھ پر سوار کسی اور ہی دنیا میں کھوئی ہوئی تھی۔ وہ جانتی تھی یہ بات بابا کو اندر تک زخمی کر جاتی ہے، مگر پھر بھی اُس کے لبوں سے نہ چاہتے ہوئے یہ جملہ پھسل گیا تھا۔وہ نہیں جانتی تھی کب اِس خاندان کی رسموں کے خلاف اِس کے دل میں بغاوت نے سر اٹھانا شروع کیا۔ جب کہ اِس کے ساتھ خاندان کی دوسری عورتوں جیسا کوئی سلوک اِس گھر میں روا نہیں رکھا گیا تھا۔ اُس کے باپ اور بھائی کی کوششوں سے اِس گاؤں میں لڑکیوں کے لیے ہائی سکول قائم ہوچکا تھا جس میں اُس نے بھی میٹرک تک تعلیم حاصل کی تھی ، لیکن اُس کی لاکھ کوشش کے باوجود اُسے شہر کالج جا کر پڑھنے کی اجازت نہیں مل پائی تھی۔ اُسے گھر میں بھی کسی قسم کی روک ٹوک نہیں تھی، مگر اُس کے اندر نہ جانے کیوں اِس خاندان کی فرسودہ روایات کے خلاف زہر جمع ہوگیا تھا جسے وقتاً فوقتاً وہ اگلتی رہتی تھی۔شاید اِس کی وجہ مسلسل انتظار کی سُولی پر لٹکے رہنا بھی تھا۔ وہ عادل کو ٹوٹ کے چاہتی تھی اور یہ بھی کہ جلد ہی وہ اُس کی زندگی میں باقاعدہ طور سے شامل ہوجائے ۔عادل کے سر پر اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کا خبط سوار تھا اور اُس کے پاس انتظار کی سولی پر لٹکے رہنے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا جب تک عادل اپنی تعلیم مکمل نہیں کر لیتا۔
٭…٭…٭
’’رانی بی بی ایف اے میں داخلے کے فارم لایا ہوں آپ کے لیے۔ میں جب بھی گھر آتا، تو سوچتا تھا آپ سے بات کروں گا پھر بات ہی ذہن سے نکل جاتی۔ آپ پڑھنے کا شوق گھر بیٹھے بھی پورا کرسکتی ہیں۔‘‘ دلاور نے داخلہ فارم رانی کی جانب بڑھاتے ہوئے کہا۔
’’جب مجھے کالج داخلے کی اجازت نہیں ملی تو میں نے سوچ لیا تھا کہ پرائیویٹ بھی نہیں پڑھوں گی، جب کہ بھائی نے اُس وقت بھی کہا تھاپڑھنا چاہتی تو پرائیویٹ پڑھ لو۔‘‘رانی نے ناگواری سے جواب دیا۔
’’یہ تو آپ کی بڑی فضول سی ضد ہے۔ آپ جیسی ذہین وفطین لڑکی سے ایسی توقع ہرگز نہیں تھی۔‘‘دلاور نے افسوس سے گردن ہلاتے ہوئے کہا۔
’’بس میری تو یہی ضد ہے چاہے تم بے وقوف کہو یا جاہل ۔‘‘ رانی نے اب کے ڈھٹائی سے اتراتے ہوئے کہا۔
’’خیر جاہل تو بالکل نہیں ہو آپ ،ہا ں تھوڑی بے وقوف ضرور لگی ہو۔‘‘ دلاور نے مسکراتے ہوئے کہا۔
’’تم چاہتے ہو میں داخلہ لے لوں؟‘‘ رانی کا انداز مشورہ لینے والا تھا۔
’’ میرے چاہنے سے کیا ہوتا ہے رانی بی بی ۔مرضی ہے آپ کی ۔‘‘ دلاور نے بال رانی کی کورٹ میں پھینکتے ہوئے کہا۔
’’اچھا دو مجھے داخلہ فارم بلکہ خود فل بھی کر دو ،بابا آتے ہیں تو اُن سے داخلہ فیس بھی لیتے ہوئے جانا ۔‘‘ رانی نے مسکراتے ہوئے کہا، تو دلاور بھی خوشی سے فارم بھرنے بیٹھ گیا۔ وہ نہیں جانتی تھی دلاور سے اُس کا کیا رشتہ ہے اُن کے درمیان باقاعدہ دوستی جیسی بھی کوئی بات نہیں تھی لیکن وہ جانتی تھی اُس کے گھر والوں کے بعد اگر کوئی اُس کے ساتھ مخلص اور اُس کا خیر خواہ ہے، تو وہ دلاور ہی ہے اور دلاور کی بات مان کر اُس نے اپنی ضد توڑتے ہوئے آگے نجی طور پر پڑھنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ فارم فل کرتے دلاور کے لبوں پر سجی مسکراہٹ اُس کے دل کو طمانیت بخش رہی تھی۔
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

اگر ہو مہربان تم — عطیہ خالد

Read Next

گھٹن — اعتزاز سلیم وصلی

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!