شبِ آرزو کا چاند — مونا نقوی

اُسے آج بھی وہ دن یاد تھا جب اُس کی قسمت کو عادل کے ساتھ جوڑا گیا۔ وہ اُسے ہمیشہ سے اپنی زندگی کا سب سے خوب صورت دن تصور کیا کرتی تھی، مگر اب وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اپنی زندگی کا منحوس ترین دن گرداننے لگی تھی۔ یوں تو اُس کے پیدا ہوتے ہی اُسے تین سالہ عادل سے منسوب کر دیا گیا تھا۔جب عادل میٹرک میں اور وہ ساتویں میں پڑھتی تھی تو چاچی صفیہ شدید بیمار ہوگئیں۔ کافی علاج کروانے کے باوجود بھی سب اُن کی زندگی سے مایوس ہوگئے۔ اک دن انہوں نے اماں ،بابا اور اپنے شوہر کو بلا کے اپنی خواہش کا اظہار کیا ۔
’’مجھے اپنی زندگی کی کوئی امید نہیں رہی بھائی صاحب۔‘‘ بات کرتے ہوئے بھی چاچی کی سانس اکھڑ رہی تھی۔
’’خدا سب بہتر کرے گا صفیہ ،ناامیدی والی بات نا کرو۔‘‘ بابا نے پاس بیٹھ کر چاچی کو سمجھاتے ہوئے کہا۔
’’ جانتی ہوں میرا دل رکھنے اور حوصلہ بڑھانے کے لیے ایسا بول رہے آپ بھائی صاحب۔‘‘ یہ کہتے ہی چاچی کو شدید کھانسی کا دورہ پڑ گیا ۔
’’مجھے لگتا ہے موت کا شکنجہ مجھے دبوچنے کو تیار کھڑا ہے۔نہ جانے کس لمحے سانسوں کی مالا ٹوٹ جائے۔بھائی صاحب میں اپنے عادل کا نکاح ہوتے دیکھنا چاہتی ہوں رانی کے ساتھ ۔‘‘چاچی نے اکھڑتی سانسوں کے ساتھ اپنی خواہش کا اظہار کیا، تو سب پر اُن کی خواہش پورا کرنا واجب ہوگیا اور پھر اُسی شام مولوی کو بلا کے مجھے اور عادل کو نکاح کے بندھن میں باندھ دیا گیا۔ اِس نکاح میں کوئی آبِ حیات تھایا جادو معلوم نہیں، مگر چاچی جو مہینوں سے بیمار تھیں وہ دنوں میں ٹھیک ہو گئیں ۔میں چاہے جتنا اُس منحوس دن کو کوس لوں یہ ازلی انتظار تو میری قسمت میں لکھا تھا۔ اگر نکاح نہ بھی ہوتا، تو بھی مجھے عادل کی راہ دیکھنی تھی کیوں کہ وہ اِس خاندان میں واحد جوڑ تھا میرا۔ اور خاندان سے باہر شادی کرنا آج بھی اِس خاندان کی اُن فرسودہ رسومات کے خلاف تھا جس کی بھینٹ ماضی میں بھی اِس خاندان کی کئی لڑکیاں چڑھ چکی تھیں اور شاید میں بھی اُن میں سے ایک ہوتی اگر میرا نکاح عادل سے نا ہو چکا ہوتا۔ اِس نکاح کے سبب ہی میرے دل میں امڈتا وہ خوف جو پھوپھی ثریا جیسی قسمت ہونے کے متعلق مجھے واہموں میں مبتلا رکھتا میرے دل کو ڈھارس بندھاتا تھا۔
٭…٭…٭





کبھی کبھی دل وہ خواب دیکھنے پر مجبور کرنے لگتا ہے جس کا حقیقت سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہوتا۔ مصیبت تب بڑھتی ہے جب وہی خواب آپ کے وجود کے اندر تک سرایت کر جاتا ہے اور رگ و پے میں سما جانے کے بعد روم روم اُس خواب کی من پسند تعبیر پانے کے لیے رب کے حضور ملتجی ہو جاتا ہے۔ دل گڑگڑاتے ہوئے آنسوؤں سے تر چہرے کے ساتھ رات کے پچھلے پہر صرف اُسے ہی پا لینے کی دعا کرتا ہے۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ وہ شخص کاتبِ تقدیر نے آپ کی قسمت میں لکھا ہی نہیں۔ پھر بھی اُسی شخص کو خد ا سے لگاتار بلاناغہ مانگنا کس قدر تکلیف دہ ہوتا ہے، یہ کوئی مجھ سے پوچھے جوپچھلے کئی سالوں سے اِس کی عملی تصویر بنا گھوم رہا ہے۔گو کہ رانی کے سامنے میں اپنے جذبات اور آنکھوں میں مچلتی اُس کی محبت کو بہ مشکل چھپانے میں کامیاب ہو پاتا ہوں۔ اُس کا سامنے آ جانا وہ بھی اپنے ملکوتی حُسن کے ساتھ میرے وجود اور صبر کا شیرازہ بکھیر کے رکھ دیتا ہے جسے سمیٹنے کے لیے واپس لوٹنے کے بعد مجھے اپنے وجود کے ٹکڑے ٹکڑے اکٹھے کر کے جوڑنا پڑتا ہے، لیکن اُسے اک نظر دیکھے بغیر بھی میرا گزارہ نہیں تھا۔ جتنے دن گاؤں میں رہتا ہوں حویلی جانے کے بہانے ڈھونڈتا رہتا ہوں۔ میں سر تا پا اُس کے عشق کی تصویر بن چکا ہوں۔ میری ذات کی وجہ سے اُس کی ذات پر کوئی داغ لگے یہ بھی مجھے کسی صورت گوارا نہیں۔سو دل کی حسرت دل میں لیے جس طرح سالوں سے اظہار کیے بنا خاموش ہوں اِسی طرح آخری سانس تک مہر بہ لب رہوں گا۔ دلاور اپنے گھر کی چھت پہ لیٹا آسمان پر چمکتے ستاروں اور آخری دنوں کے چاند کو دیکھتے ہوئے اپنے اندر سالوں سے جاری جنگ سے نبرد آزما تھا جس میں اُسے آج تک کبھی بھی فتح یابی نصیب نہیں ہوئی تھی۔
٭…٭…٭
آج میں کئی ماہ بعد چچا باسط کی حویلی آئی تھی۔ چاچی سے ملنا، تو بس اک بہانہ تھا۔اصل مقصد تو اُس دشمنِ جاناں کا دیدار کرنا تھا۔جانتی ہوں مجھے دیکھ کر وہ آج بھی نظر انداز کر دے گا اور اُس کے خوب صورت ہونٹوں سے جس محبت کے اظہار کی میں خواہش مند تھی وہ خواہش آج بھی تشنہ رہے گی۔
اور یہ تشنگی نہ جانے اور کب تک اِس وجود کی طرح اِس روح کو بھی صحرا کے مانند پیاسا رکھے گی۔ چاچی سے ملنے اور کچھ دیر باتیں کرنے کے بعد میں اُٹھ کے عادل کے کمرے میں چلی آئی اور وہاں رکھی اک اک چیز کو چھو کر اُس کے لمس کو محسوس کرنے کی کوشش کرنے لگی۔اُس کی تصویر کو گلے سے لگائے دور گاؤں میں بجتی شہنائیوں میں اپنے اور اُس کے ملن کا اعلان سُن رہی تھی،آنکھیں بند کیے وصل کے لمحے کو محسوس کرنا چاہ رہی تھی۔
’’تم کیا کر رہی ہو یہاں۔‘‘ عادل آج بھی سخت اور کرخت لہجے میں مخاطب ہوا تھا۔عادل کی تصویر میرے ہاتھوں سے چھوٹ کر سنگِ مر مر کے فرش پر اوندھی جا گری تھی۔
’’میں…وہ…وہ…میں ۔‘‘ میں کوئی معقول بہانہ بنانا چاہ رہی تھی، مگر کچھ سوجھ ہی نہیں رہا تھا۔
’’تمہیں پچھلی دفعہ بھی سمجھایا تھا کہ جب یہاں آؤ تو اماں ،بابا تک ہی محدود رہا کرو اورہر بار تم مجھے میرے کمرے میں ہی ملتی ہو۔‘‘ عادل اک اک لفظ چبا چبا کر بولا اور غصے سے اُس کا سفید رنگ گلابی ہو رہا تھا۔
’’میرا بھی تو کچھ حق ہے اِس کمرے پر ،آخر میں آپ کی…‘‘
’’یہ حق تم تب استعمال کرنا جب میں تمہیں اِ س کی اجازت دے دؤں۔‘‘عادل نے میری بات کاٹتے ہوئے ۔
’’اب آپ یہاں سے تشریف لے جا سکتی ہیں رانی صاحبہ۔‘‘عادل نے مجھے مصنوعی عزت دیتے ہوئے دروازے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہاجوکہ مجھے نہا یت تضحیک آمیز لگا۔میں آنسوؤں سے بھری آنکھوں کے ساتھ اُس بت کو دیکھ کر رہ گئی جو بڑے طمطراق سے کئی سالوں سے میرے من مندر کے سنگھاسن پر بیٹھا تھا۔ میں کئی سالوں سے اُس کے سامنے دوزانو ہاتھ جوڑے راز ونیاز میں مصروف تھی، مگر وہ میری کسی التجا پر آج تک نہ پگھلا تھا۔ اُلٹا اپنی غضب ناک نگاہوں سے دیکھتے ہوئے میرے وجود کو قطرہ قطرہ پگھلا رہا تھا۔اب جب اُسے محبوب کا درجہ دیا ہے، تو اُس کا ہر ستم بنا اف کیے لب سیئے سہنا ہے مجھے ۔کیوں کہ محبوب تو ہوتا ہی سنگ دل ہے۔ اب عاشق کے اوپر ہے کہ اُس میں محبوب کی بے اعتنائی اور بے رخی سہنے اور برداشت کرنے کی کتنی ہمت اور طاقت ہے اور اب میری یہی ہمت جواب دینے لگی تھی، مگر دل میں موجود عادل کی محبت کی طاقت کسی صورت کم ہونے کا نام نہیں لیتی تھی۔
٭…٭…٭

Loading

Read Previous

اگر ہو مہربان تم — عطیہ خالد

Read Next

گھٹن — اعتزاز سلیم وصلی

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!