شبِ آرزو کا چاند — مونا نقوی

’’کیا بات ہے رانی بی بی آج کتابیں دیکھ کے آپ کے چہرے پر وہ چمک نہیں آئی جو پہلے آیا کرتی تھی۔‘‘ دلاور نے اُس کی منگوائی کتابیں سامنے رکھیں، تو وہ شاپر کو سرسری سا دیکھ کے ہاتھ میں پکڑی درخت کی باریک سی ٹہنی کا مشاہدہ کرتے ہوئے اپنی سوچوں میں مگن رہی۔
’’آپ کی طبیعت تو ٹھیک ہے نا رانی بی بی ۔‘‘دلاور نے فکر مند ہوتے ہوئے پوچھا، تو وہ ہنوز ہاتھ میں پکڑی ٹہنی کو دیکھے جا رہی تھی۔
’’میں چودھرانی جی کو بتاتا ہوں تاکہ آپ کو کسی ڈاکٹر کے پاس لے جائیں۔‘‘وہ گھبرا کے اوپر جانے لگا جہاں چھت پر رانی کی ماں نوکرانیوں سے گندم کی صفائی کروا رہی تھیں۔
’’میں ٹھیک ہوں دلاور تمہیں فکرمند ہونے کی ضرورت نہیں ۔‘‘رانی نے آہستگی سے کہا۔
’’فکر والی بات تو ہے۔ آپ کو اتنا چپ چپ اور اداس آج سے پہلے کبھی نہیں دیکھا ۔‘‘ اُس نے رانی کے سراپے کو اپنی نگاہوں میں جذب کرتے ہوئے کہا۔
’’اب شاید تم کبھی میرے چہرے پر مسکان سجی نا دیکھ سکو دلاور۔‘‘رانی نے بے دلی سے کہا ،اُس کی نگاہ اب بھی ہاتھ میں پکڑی باریک ٹہنی پر ہی مرکوز تھی۔
’’آپ کے منہ سے ایسی ناامیدی کی باتیں اچھی نہیں لگتیں۔آپ تو بہت بہادر اور سمجھ دار ہوہر طرح کے حالات کا مقابلہ کرسکتی ہو۔‘‘ دلاور نے اُس کی ڈھارس بندھاتے ہوئے کہا۔
’’آخر کب تک کیا جا سکتا ہے مقابلہ؟ مقابلہ کرتے کرتے بھی بالآخر حالات آپ کو تھکا دیتے ہیں۔‘‘اُس کی مایوسی ہنوزبرقرار تھی۔
’’مجھے بتائیں کیا پریشانی ہے ۔شاید میں آپ کے دل کا بوجھ کچھ ہلکا کر پاؤں یا کوئی بہتر مشورہ دے پاؤں۔‘‘وہ رانی کی چارپائی سے قدرے فاصلے پر بچھی کرسی پر بیٹھا اُس کی اداسی کی وجہ جاننے کی کوشش کر رہا تھا۔
’’کمزور ٹہنی پر بنا آشیانہ ہمیشہ ناپائیدارہی ہوتا ہے دلاور ۔مجھے بھی اب یہ خوف لاحق ہوگیا ہے کہ جس ٹہنی پر میں نے آشیانہ بنانے کا خواب دیکھ رکھا ہے وہ بھی کہیں کمزور اور ناپائیدار نا ہو۔ کسی بھی لمحے ہوا کے کسی تیز جھونکے سے زمین بوس ہو جائے گا ۔‘‘وہ خوف سے جھرجھری لیتے ہوئے بولی۔
’’اپنے دل سے یہ خوف نکال دو اور اللہ پہ بھروسا رکھو ان شا اللہ سب بہتر ہوگا۔‘‘ دلاور نے رانی کو تسلی دیتے ہوئے کہا۔ اُس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ اُس کے سارے دکھ اور درد اپنے دامن میں سمیٹ لے اور اُس کے دامن میں دنیا جہان کی خوشیاں لا کر ڈھیر کر دے۔وہ بس بے بسی اور تاسف سے اُسے اداسی کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں ڈوبتا ہوا دیکھ رہا تھااور خوشی کا کوئی لمحہ کسی تارے کے مانند اُس کی چنری میں ٹانکنے کے لیے اُس کے پاس نہیں تھا۔
٭…٭…٭
بے بسی کس اذیت کا نام ہے یہ آج آپ کے افسردہ چہرے کو دیکھ کے جانا ہوں ۔کاش میرے اختیار میں ہوتا، تو میں آپ کی اداس آنکھوں کو خوشیوں کے خزانے دان کر دیتا۔ آپ کے لبوں پر گلاب کی پنکھڑیوں سی مسکان سجا دیتا، آپ کی مانگ کو چاند ستاروں سے سجا دیتا اور قوسِ قزح کے حسین رنگوں سے آپ کے وجود کو سنوار دیتا، مگر میں کیا کروں میرے بس میں کچھ بھی نہیں ہے۔ میں چاہ کر بھی آپ کو وہ خوشیاں نہیں دے سکتا جس کی آپ مستحق ہیں۔ میں جانتا ہوں میری طرح آپ کی محبت بھی تشنہ ہے جس طرح میرے کان آپ کے منہ سے اقرارِمحبت کے دو بول سننے کے منتظر ہیں۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ یہ اک ناممکن خواہش کے سوا کچھ بھی نہیں۔ اِسی طرح آپ بھی عادل کی زبان سے محبت کے رسیلے الفاظ سننے کی تمنا برسوں سے اپنے دل میں لیے ہیں۔ہم دونوں ایک ہی راہ کے ایک ہی کشتی کے مسافر ہیں، مگر فرق صرف اتنا ہے کہ میری منزل کے درمیان اک ایسا سمندر حائل ہے جسے تا قیامت عبور نہیں کیا جا سکتا جب کہ آپ کو کبھی نا کبھی کنارہ مل ہی جائے گا۔ چاہے جتنے فاصلے حائل ہو جائیں اک دن آپ کو عادل کا ہو ہی جانا ہے۔ اُس دن ہمارے راستے بالکل جدا ہو جائیں گے جس دن آپ عادل کی دلہن بن کے حویلی سے رخصت ہوں گی اُس دن آپ کے روپ کو اپنی نگاہوں میں تادمِ مرگ سجا لوں گا۔ تب آپ سے بات کرنا بھی ناممکن ہو جائے گا، مگر اب جو دن ہیں اُن کا ہرلمحہ آپ کے سنگ گزارنا چاہتا ہوں۔یہ جو چند دن ہیں آپ کے لبوں پر مسکراہٹیں سجانا چاہتا ہوں۔میری دلی دعا ہے کہ آپ اور عادل کی زندگی محبتوں اور شادمانیوں سے بھرپور ہو۔میرا کیا ہے پہلے ہی بنا منزل کے سفر کا مسافر ہوں اور شاید یہ آوارگی آخری سانس تک قائم رہے۔
٭…٭…٭
’’گئے تھے آپ باسط کی طرف ،کیا کہتا ہے وہ کب تک کریں گے شادی ؟‘‘ بابا کے آکر بیٹھتے ہی اماں نے پوچھا۔
’’وہی جواب ہے عادل کا جو وہ عرصے سے دے رہا ہے ۔‘‘ بابا کے لہجے میں برسوں کی تھکن تھی۔
’’چودھری صاحب کب تک چلے گا یونہی ۔عادل مرد ذات ہے چار پانچ سال اور لیٹ کر سکتا، مگر رانی کی عمر روز بہ روز ڈھل رہی ہے۔‘‘اماں نے فکر مند ہوتے ہوئے کہا۔
’’بیٹی والے ہیں ہم زور نہیں ڈال سکتے۔ کہہ آیا ہوں باسط اور صفیہ کو کہ منا لو اپنے بیٹے کو نہیں تو فیصلہ بھیج دو ہماری بیٹی کا۔‘‘بابا نے دکھ اور افسوس کے ملے جلے لہجے میں کہا، تو اماں نے اپنے منہ پر ہاتھ رکھ کراپنی چیخ کو روکتے ہوئے کہا۔
’’یہ کیا کہہ آئے ہو آپ ۔جانتے تو ہیں خاندان کے رسم و رواج کو ۔اگر فیصلہ ہو گیا، تو کہاں بیاہیں گے رانی کو۔‘‘اماں نے دکھ بھرے لہجے میں کہا۔
’’پہلے بھی تو یہیں بیٹھی ہے آئندہ بھی بیٹھی رہے گی، اپنی پھوپھی ثریا کی طرح۔‘‘بابا نے نظریں جھکائے حقے کی نال کو ایک طرف کرتے ہوئے کہا۔
’’اللہ نہ کرے چودھری الیا س۔خیر سے ڈولی اُٹھے گی ہماری بیٹی کی ۔‘‘ اماں نے امید بھرے انداز میں کہا۔
’’ان شا اللہ۔‘‘ بابا نے چارپائی پر لیٹے دور آسمان کی وسعتوں میں دیکھتے ہوئے کہا۔
اماں اوربابا کی باتیں سن کر میرے دل میں کُرلاتے خوف کے دیو نے اپنے پنجے اور مضبوطی سے گاڑھے تھے۔ کتنے سالوں سے زندگی عادل کے ساتھ ملن کی دعا کرتے اور اُس کی آنکھوں میں اپنی محبت کے ستارے اترتے دیکھنے کی خواہش میں گز رہی تھی۔ پہلے اُس کی تعلیم کا مکمل کرنا اِس راہ میں رکاوٹ بنا، تو پھر اُس نے اپنا بزنس سیٹل کرنے سے پہلے شادی نا کرنے کو جواز کے طور پہ رکھا، مگر اب تو اُس کا کاروبار بھی اچھا جا رہا تھا۔ نہ جانے وہ کون سی بات یا مجبوری تھی جو اُسے مجھ سے شادی کرنے سے تاحال روکے ہوئے تھی۔ میں یہ سمجھنے سے قاصر تھی۔ اِس پر بابا کا کہنا کہ وہ فیصلہ کرنے کی بات کر آئے دل کو اور بھی خوف کے گہرے کنویں میں دھکیل رہا تھا۔
’’پھوپھی ثریا جیسی زندگی گزارنے سے بہتر ہے تُو مجھے موت دے دینا یا رب۔‘‘ میں اِس لمحے دل سے دعا گو تھی ۔کمرے کی نیم تاریکی میں پھوپھی ثریا بال کھولے اپنی سرخ انگارہ آنکھوں سے مجھے اپنی جانب دیکھتی ہوئی مجسم نظر آ رہی تھی اور میںخوف سی آنکھیں میچے اپنی زندگی اُس جیسی نا ہونے کے لیے دعا گو تھی۔
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

اگر ہو مہربان تم — عطیہ خالد

Read Next

گھٹن — اعتزاز سلیم وصلی

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!